تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     19-10-2013

زیارتِ مدینہ

جب حاجی حجاز مقدس کا سفر کرتا ہے تو جہاں اس کو مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے وہیں اس کو شہر حبیب اور مسجد نبوی شریف کی زیارت کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ جس طرح مکہ مکرمہ کا رسول اللہﷺ کی ذات گرامی سے بہت گہرا تعلق ہے کہ مکہ آپ کا مولد و مسکن ہے اسی طرح مدینہ طیبہ کی بھی حضورﷺکی ذات بابرکات کے ساتھ انتہائی گہری نسبت ہے۔ حضرت رسول اللہﷺکی زندگی کے آخری ایام مدینہ میں بسر ہوئے اور آپ نے مکہ کی فتح کے باوجود مدینہ طیبہ کو خیر باد کہنا گوارا نہ فرمایا۔ رسول کریمﷺکو مدینہ طیبہ سے والہانہ محبت تھی اور اہل مدینہ نے آپ سے جس محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے خود ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہو سکتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کرنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور اگر ممکن ہو تو مسلمان کو مدینہ طیبہ میں مرنے کی جستجو بھی کرنی چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت عبدا للہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جو شخص مدینہ منورہ میں رہ سکتا ہو (یعنی اپنے آخری ایام یہاں گذار سکتا ہو) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیے کیونکہ میں اس شخص کے لیے سفارش کروں گا جو مدینہ میں مرے گا۔ نبی کریمﷺ نے مدینہ طیبہ کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس میں مکہ مکرمہ کے مقابلے میں دو گنا برکت پیدا فرما۔ اسی طرح نبی پاکﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے مدینہ طیبہ میں مشکلات اور مصائب پر صبر کیا میں اس کی گواہی دوں گا، یا فرمایا میں اس کی سفارش کروں گا۔ مدینہ کے شرف میں یہ بات شامل ہے کہ فتنوں کے دور میں بھی مدینہ میں ایمان اور اسلام پوری طرح سلامت رہے گا۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایمان مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آ جائے گا جس طرح سانپ پھر پھرا کر اپنے بل میں واپس آ جاتا ہے۔ مدینہ منورہ کی کھجور انتہائی خوش ذائقہ ہے اور اس میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی ایک خاص قسم عجوہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس میں زہر اور جادو کا علاج ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے اور اس میں زہر کے لیے شفا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائے گا اس کو زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ رسول اللہﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺنے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل مسجد قبا کو تعمیر فرمایا اور جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نے مسجد نبوی کو تعمیر کیا۔ مسجد نبوی شریف بیت اللہ کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے اور اس میں ادا کی گئی نماز بیت اللہ میں ادا کی گئی نماز کے بعد سب سے زیادہ افضل نماز ہے۔ مسجد نبوی کی زیارت کرنا اور اس میں ثواب حاصل کرنے کے لیے عبادت اور نماز ادا کرنے کی جدوجہد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہﷺنے حصول ثواب کے لیے تین مساجد کی طرف لمبا سفر کرنے کا حکم دیا ہے یہ مساجد ہیں بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس۔ مسجد نبوی شریف ہی کے ایک گوشے میں حضرت رسول اللہﷺکی لحد اطہر ہے جو درحقیقت رسول اللہﷺکی رہائش گاہ تھی اور جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ انبیاء علیہم السلام جس زمین پر انتقال فرماتے ہیں ان کی تدفین کے عمل کو بھی اسی مقام پر مکمل کیا جاتا ہے؛ چنانچہ آپ ﷺ کی تدفین آپ کے اپنے گھرمیں ہی ہوئی۔ انسا ن جہاں پر مسجد نبوی شریف میں بکثرت فرض نمازوں ، سنتوں اور نوافل کا اہتمام کرتا ہے، وہیں پر اس کو آپؐ کی لحد مبارک پر آ کر درود شریف پڑھنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ جو شخص رسول اللہﷺ کی ذات گرامی پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے‘ اللہ تعالیٰ دس مرتبہ اس کی ذات پر درود بھیجتے ہیں اور جو بھیجتا ہی رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تمام خطائوں کو معاف فرما دیتے اور تمام غموں کو دورکر دیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی لحد مبارک اور آپ کے منبر مقدس کا درمیانی فاصلہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے والے کی خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اسے روضۃ من ریاض الجنۃ میںبھی نماز اور نوافل ادا کرنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ مسجد نبوی شریف سے کچھ ہی فاصلے پر بقیع کا قبرستان ہے جس میں ہزاروں صحابہ کرام ،امہات المومنین ،امام نافع رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ، جیسے عظیم انسان مدفون ہیں اور اس قبرستان میں دفن ہونا یقینا ہر مومن اور مسلمان کی خواہش ہے۔ اسی قبرستان میں کھڑے ہو کر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒنے دعا مانگی تھی، اے اللہ تعالیٰ مجھے یہاں پر دو گز زمین عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک مہینے بعد ہی ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور وہ بقیع میں محبان رسولﷺ کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ حشر کے روز تک محو خواب ہو گئے۔ بقیع کے قبرستان میں رسول اللہﷺ خود تشریف لاتے اور اہل بقیع کی مغفرت کے لیے بھی آپ نے دعا مانگی ۔ مدینہ منورہ میں احد پہاڑ بھی ہے۔ احد ایک ایسا پہاڑ ہے جس کو رسول اللہﷺ سے محبت اور رسول اللہﷺ کو اس پہاڑ سے پیار تھا۔ احد پہاڑ کے دامن میں ہی احد کے وہ ستر شہید مدفون ہیں جنہوں نے اللہ کی توحید کے لیے میدان احد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات میں مسجد قبلتین بھی شامل ہے۔ مسجد قبلتین وہ مسجد ہے جس میں تحویل قبلہ سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نماز ادا فرما رہے تھے۔ جب منادی کرنے والے نے منادی کہا کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کے حکم پر قبلہ تبدیل فرما لیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نماز کے دوران ہی اپنے چہرے کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف فرما لیا تھا اور اس غیر معمولی اتباع کا مظاہرہ کر کے اپنے بعد آنے والوں کو سمجھا دیا تھا کہ جب اللہ اور رسول اللہﷺ کا حکم آ جائے تو اس پر فوراً عمل پیرا ہونا چاہیے اور اس میں کسی بھی قسم کی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کی زیارت انسان کی روح کو شاداب کر دیتی ہے اور شہر حبیب کے سفر کے دوران انسان اپنے دل میں رسول اللہﷺکی محبت کے جذبات کو ابلتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ مدینہ منورہ کا سفر مکمل کرنے کے بعد جہاں انسان اپنی خوش نصیبی پر باغ باغ ہوتا ہے وہیں پر مسجد نبوی اور روضۃ من ریاض الجنۃ کی جدائی اس کے دل کو زخمی بھی کر رہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو مسجد نبوی کی زیارت کا شرف بخشے اور جو ایک مرتبہ شہر حبیب کی زیارت کرچکے ہیں ان کو دوبارہ زیارت کا موقع میسر آئے (آمین)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved