بہار آنے سے پہلے ہی موسم بدل چکا ہے‘ دھوپ نکلنا شروع ہو گئی ہے اور ٹنڈ منڈ شاخوں سے کونپلیں پھوٹنا شروع ہو چکی ہیں۔ موسم بھی ہر طرح کا موسم۔ کونپلیں اور شاخیں بھی ہر طرح کی۔ اس بار یہ موسم 8 فروری کو اچانک بدلا ہے۔ پولنگ کے دن اور اس سے اگلے دن جو دھوپ نکلی‘ اس نے بہت سی دھند اور سموگ دور کر دی۔ بلّا قومی اسمبلی میں پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو‘ پی ٹی آئی بہرحال پہنچ گئی ہے۔ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی نشستیں 170 کے قریب ہیں۔ فی الحال یہ تعداد 93 ہے۔ لیکن جتنی بڑی تعداد میں الیکشن نتائج چیلنج ہوئے ہیں اور جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں‘ یہ تعداد یقینا بڑھ جائے گی۔ کتنی بڑھے گی؟ یہ فیصلہ منصفین کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
اور اگر یہ فیصلہ عدالتوں اور الیکشن ٹربیونلز کے ہاتھ میں چلا گیا ہے تو یقینا حکومت سازی بھی انہی فیصلوں کے ہاتھ میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب گیم ریٹرننگ آفیسرز کے ہاتھ سے بھی نکل گئی ہے‘ پس پردہ طاقتوں کے ہاتھ سے بھی اور الیکشن کمیشن کے ہاتھ سے بھی۔ پہلے ہی پنجاب‘ سندھ‘ پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں لوگ پہنچ چکے ہیں اور بہت سے حلقوں کے نتائج رکوا دیے گئے ہیں۔ اگر ان عدالتوں نے یہ معاملات الیکشن کمیشن کو بھیجے تو دو جمع دو‘ چار کو پانچ کہنا ناممکن ہوگا۔ پھر اگر الیکشن ٹربیونلز اگر فیصلے فارم 45 کے مطابق نہیں دیتے تو یہ فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو جائیں گے اور فیصلے فارم 45 کے مطابق ہو جائیں گے۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہو گا جیسے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی انہی ریٹرننگ آفیسرز نے مسترد کر دیے تھے اور عدالتوں سے منظور ہو گئے تھے۔ اس سے پس پردہ قوتوں اور الیکشن کمیشن پر مزید داغ لگیں گے جو پہلے بھی کم نہیں ہیں۔
اس سارے معاملے میں خدا کا شکر ہے کہ وہ بات واضح ہوئی جو میں کئی بار انہی تحریروں میں کہہ چکا تھا‘ ہر بار امیدواروں کی طرف سے دھاندلی کی شکایت پر میں ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ پولنگ کے بعد کے مرحلوں میں یہ دھاندلی کس جگہ ہوئی؟ کس طرح؟ اور کون سا عہدے دار اس کا ذمہ دار ہے؟ کیا پریزائیڈنگ افسر؟ پولنگ عملہ؟ ریٹرننگ افسر؟ کیا بیلٹ بکس پولنگ کے آغاز سے پہلے ہی بھر دیے گئے تھے؟ یا بیلٹ بکس بدل دیے گئے تھے؟ اگر ایسا تھا تو امیدواروں کے نمائندوں نے اس بات کی شکایت کیوں نہیں کی؟ اکا دُکا حلقوں سے قطع نظر‘ یہ بات سامنے نہیں آئی۔ شاید 2013ء کے انتخابات میں خود عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ان کے امیدواروں کے نمائندے ہی پوری طرح سٹیشنز پر موجود نہیں تھے اور یہ الیکشن کی تیاری کی کمی تھی۔ 2018ء میں یہ بات کہی گئی تھی کہ امیدواروں کے نمائندوں کے سامنے فارم 45 نہیں بنائے گئے تھے۔ اس بار یہ دونوں باتیں نہیں تھیں۔ موجودہ سسٹم میں نتائج بدلنا شاید ممکن تو ہو لیکن اس طرح کہ بدلنے والے کا پتا ہی نہ چل سکے‘ بچوں کا کھیل نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ پریزائیڈنگ افسر‘ پولنگ افسر وہی عملہ ہے جنہیں ہم سکولوں‘ کالجوں وغیرہ کے سرکاری اساتذہ کے طور پر جانتے ہیں۔ یہ سب ہمارے رابطے والے لوگ ہیں اور یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان لاکھوں لوگوں کو رشوت‘ دباؤ یا دھمکیوں کے ذریعے اجتماعی طور پر نتائج تبدیل کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ چند ایک مثالیں ہو سکتی ہیں‘ لاکھوں مثالیں ممکن نہیں ہیں۔ پھر جب خالی بیلٹ بکس امیدواروں کو دکھا کر پولنگ شروع کی گئی ہو‘ سارا دن نمائندے اسی کمرے میں موجود رہے ہوں‘ بیلٹ بکس بھی تبدیل نہ ہوئے ہوں‘ پولنگ کے بعد گنتی ان کی موجودگی میں ہوئی ہو‘ فارم 45 پر نتائج مرتب کرنے کے بعد ان نمائندوں کے دستخطوں‘ پریزائیڈنگ آفیسرکی مہر اور دستخطوں کے ساتھ فارم 45 ان نمائندوں کے حوالے کیا گیا ہو‘ تو پھر آگے جا کر ریٹرننگ آفیسرز پر بات ٹھہر جاتی ہے جو بیورو کریٹس یا عدالتی عملہ ہے۔ یہ یقینا ترغیب اور دباؤ کا بہ آسانی شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کا انہی فارم 45کی بنیاد پر فارم 47بناتے وقت نتائج تبدیل کر دینا ممکن تو ہو گا لیکن یہ ایسی جعلسازی ہو گی جس کا پکڑا جانا نہایت آسان ہے۔ یہ تو دو جمع دو چار کو پانچ کہنے کے مترادف ہو گا‘ جسے کسی بھی عدالت میں بہ آسانی غلط ثابت کیا جا سکے گا اور یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہو گا۔
خدا کا شکر ہے اس بار یہ بات واضح طور پر ریٹرننگ افسروں پر ٹھہر گئی ہے۔ جہاں جہاں فارم 45 اور فارم 47 کی مطابقت نہیں ہے‘ وہاں نتائج چیلنج کیے جا رہے ہیں۔ اور اپنا مقدمہ بہ آسانی ثابت کیا جا سکے گا۔ کچھ جگہوں پر‘ البتہ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ فارم 45 بھی جعلی بنائے گئے ہیں۔ اگر یہ درست بھی ہو تو ایسے حلقے ایک دو فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پھر جعلی فارم 45پر امیدواروں کے نمائندوں کے دستخط اور انگوٹھے کہاں سے لائے جائیں گے؟ جہاں یہ کہا گیا ہے کہ فارم 45 بناتے وقت نمائندوں کو باہر نکال دیا گیا‘ وہ کتنے فیصد ووٹ ہوں گے؟ اور وہاں بھی نمائندوں کے دستخط کیسے حاصل کیے جا سکیں گے؟ میڈیا پر چلنے والی رپورٹس تمام مستند نہیں سمجھی جا سکتیں‘ نہ ہی صرف امیدواروں کے دعووں پر یقین کیا جا سکتا ہے‘ حقیقی صورتِ حال اس سے مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن جتنی بڑی تعداد میں نتائج چیلنج ہوئے ہیں‘ ریٹرننگ آفیسرز کی طرف سے نتائج میں جتنی دیر لگائی گئی تھی‘ اور فارم 45 اور 47 میں جو تضادات ہیں‘ وہ بتاتے ہیں کہ کافی بڑی تعداد میں نتائج بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ کوشش پہلے مرحلے ہی میں ناکام ہو جائے گی۔ اس معاملے میں سب سے نقصان میں آر اوز رہیں گے جن پر امید واروں کی طرف سے ایف آئی آرز ہوں گی‘خود الیکشن کمیشن بھی کارروائی کر سکتا ہے۔ جنہوں نے دباؤ ڈالا‘ وہ دائیں بائیں ہو جائیں گے اور پہچاننے سے انکار کر دیں گے اور کافی ریٹرننگ افسر اس دباؤ کی کہانیاں سنائیں گے۔ ایسی کہانیاں سامنے آنے کا انتظار کیجیے۔ یہ ایک الگ اور بہت بڑا سوال ہے کہ ریٹرننگ افسر کس طاقت کے دباؤ پر یہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے تو پریس کانفرنس میں حکومت اور کسی بھی ادارے کی مداخلت سے انکار کیا ہے لیکن انکار سے کیا ہوتا ہے۔ زبانِ خلق کیا کہتی اور کیا سمجھتی ہے‘ کیا انہیں نہیں پتا؟
نواز شریف کے لاہور سے حلقے کا جو فارم 47 گردش کر رہا ہے‘ کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ کچھ جماعتوں مثلاً جماعت اسلامی کو اس حلقے سے ایک ووٹ بھی نہ پڑا ہو۔ مہربانو قریشی کے ملتان کے حلقے سے 16 ہزار ووٹ مسترد ہوئے ہوں جبکہ جیتنے والے کے ووٹ اس عدد سے بہت کم ہوں۔ عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار کا حلقہ دلچسپ ترین حلقوں میں سے ہے‘ جس میں بظاہر ریحانہ ڈار جیت چکی تھیں لیکن نتیجہ کچھ اور ہے۔ خواجہ آصف ابھی تک سانس روکے بیٹھے ہیں۔ نہ وہ مبارکباد قبول کر رہے ہیں‘ نہ مبارک دے رہے ہیں‘ نہ کوئی بیان جاری کر رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی واضح طور پر جیتے ہیں تو ان کا سامنے آنا ہی فطری کوشش ہوتی‘ وہ چپ کرکے نہ بیٹھتے۔ اگر وہ ہار چکے ہیں تو بڑائی کا ثبوت دے کر اپنا قد بلند کرنا ہی بڑائی تھی۔ خواجہ سعد رفیق کی مثال سامنے ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی ہار کا دکھ ہوا‘ اس لیے کہ میں انہیں اچھے سیاستدانوں میں شمار کرتا ہوں۔ وہ لوگ جو واقعی ہارے ہیں اور صرف فارم 47 پر جیت رہے ہیں‘ افسوس ان پر ہے۔ فارم 47 کافی چھوٹا سا کاغذ ہے‘ بمشکل ایک فٹ کا ہو گا۔ چھ فٹ کے امیدوار اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں تو چھپا نہیں جاسکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved