ا‘ ل‘ ک مادّہ (Root) سے'اُلُوْکَۃ‘ کے معنی ہیں: پیغام پہنچانا‘ اسی سے مَلَک اور مَلَاک کے معنی ہیں: فرشتہ اور اس کی جمع ہے: مَلَائِک اور مَلَائِکَۃ۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء و رُسل کے درمیان واسطہ ہیں‘ ان میں سے بعض حقیقتاً رسول ہیں‘ مثلاً: وہ ملائک جو فرشتوں کے لیے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اللہ تعالیٰ فرشتوں سے رسولوں کو منتخب فرماتا ہے اور انسانوں سے بھی‘‘ (الحج: 75)۔ ملائک کی حقیقت میں عقلا کا اختلاف ہے لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ان کا اپنا مستقل وجود ہے۔ اکثر مسلمانوں کا نظریہ ہے: یہ اجسام لطیفہ ہیں‘ جو مختلف شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہیں‘ کیونکہ انبیاء ان کو اسی طرح دیکھتے تھے‘ ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مشغول رہتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''وہ سستی کا مظاہرہ کیے بغیر دن رات تسبیح میں مشغول رہتے ہیں‘‘ (الانبیاء: 20)۔ فلسفے کی زبان میں 'جوہر‘ اُسے کہتے ہیں جو قائم بالذات ہو اور اس کا خارج میں اپنا وجود ہو‘ اس کے مقابل 'عرض‘ ہے‘ اس کا خارج میں اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ دوسرے موجود کے ساتھ پایا جاتا ہے‘ جیسے: 'زندگی و موت‘ کا خارج میں اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے‘ زندگی ذی حیات کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور موت‘ میّت کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔
علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں: ''فرشتے نوری اجسام ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں‘ کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں‘ اُن کے ذمے مختلف خدمتیں سپرد ہیں: بعض کے ذمے حضراتِ انبیائے کرام کی خدمت میں وحی لانا‘ کسی کے ذمے بارش برسانا‘ کسی کے ذمے ہوا چلانا‘ کسی کے ذمے روزی پہنچانا‘ کسی کے ذمے ماں کے پیٹ میں بچے کی صورت بنانا‘ کسی کے ذمے انسانی بدن میں تصرف کرنا‘ کسی کے ذمے انسان کی دشمنوں سے حفاظت کرنا‘ کسی کے ذمے ذاکرین کا مجمع تلاش کر کے اس میں حاضر ہونا‘ کسی کے ذمے انسان کا نامۂ اعمال لکھنا‘ بہتوں کا دربارِ رسالت میں حاضر ہونا‘ کسی کے ذمے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں امتیوں کا سلام پہنچانا‘ کسی کے ذمے مردوں سے سوال کرنا‘ کسی کے ذمے روح قبض کرنا‘ کسی کے ذمے عذاب دینا‘ کسی کے ذمے صور پھونکنا اور ان کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو ملائکہ انجام دیتے ہیں۔ فرشتے نہ مرد ہیں نہ عورت‘ ان کی حقیقی تعداد اللہ کے علم میں ہے‘‘ (بہارِ شریعت‘ج: 1، ص: 90 تا 93)۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور تمہارے رب کے لشکروں کی (حقیقی تعداد) کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ (المدثر: 31)۔
کفارِ مکہ ملائکہ کو مؤنث سمجھتے تھے اور انہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے‘ قرآنِ کریم میں ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) کفار سے پوچھیے! آپ کے رب کے لیے بیٹیاں ہوں اور اُن کے لیے بیٹے‘ یا ہم نے فرشتوں کو ان کے سامنے عورتیں بنایا تھا‘ سنو! وہ اپنی افترا پردازی سے ضرور کہتے ہیں: اللہ کے ہاں اولاد ہوئی‘ جبکہ وہ قطعی طور پر جھوٹے ہیں‘ کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں پسند کیں‘ تمہیں کیا ہو گیاہے‘ تم کیسی (بیہودہ) بات کرتے ہو‘‘ (الصافات: 149 تا 154)۔ ان فرشتوں میں سے بعض کو 'عِلِّیِّین‘ اور'ملائکہ مُقرَّبین‘ کہتے ہیں‘ دوسری قسم وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی قطعاً مخالفت یا نافرمانی نہیں کرتے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے‘ وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (التحریم: 6)۔ ان فرشتو ں کو قرآنِ کریم میں 'مُدَبِّرَاتِ اَمْر‘ یعنی حکمِ الٰہی سے کائنات کے نظام کی تدبیر کرنے والوں سے تعبیر کیا گیا ہے‘ ان میں سے بعض آسمانی تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں اور بعض زمینی تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں‘‘ (اَنْوَارُ التَّنْزِیْل‘ ص: 59)۔
سلَفِ صالحین کا مذہب ہے: فرشتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے وجود اور بعض کاموں کی خبر دی ہے‘ جس پر ہمیں ایمان لانا واجب ہے اور یہ ایمان لانا اُن کی حقیقت کے جاننے پر موقوف نہیں ہے‘ اس لیے ہم ان کی حقیقت کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ جب شریعت میں آیا ہے: ''فرشتوں کے پَر ہیں‘‘ تو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں‘ لیکن ہم کہتے ہیں: ان پروں کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے۔ شریعت میں یہ وارد ہے: ''فرشتے سبزہ زاروں پر مقرر کیے گئے ہیں‘‘ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ کائنات میں اس عالَم سے زیادہ لطیف ایک اور جہان ہے‘ اُس جہان میں فرشتے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ عقل کے نزدیک یہ جائز ہے اور وحی اس کی تصدیق کرتی ہے‘‘ (اَلْمَنَار‘ج: 1، ص: 219)۔
فرشتے عقلوں کو دنگ کرنے اور حیرت زدہ کرنے والے کارنامے انجام دیتے ہیں‘ ایک لمحے میں آسمان سے زمین پر پہنچ جاتے ہیں اور آسمانوں کی خبریں زمین تک پہنچاتے ہیں۔ سائنس کی ترقی کے اس دور میں اس کا سمجھنا آسان ہو گیا ہے‘ کیونکہ خلائی سیاروں اور برقی لہروں کے ذریعے شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک آنِ واحد میں آواز اور تصویر پہنچ جاتی ہے اور سائنس دانوں کے دعویٰ کے مطابق چاند سے زمین پر گفتگو ہو سکتی ہے‘ تو فرشتوں کے تصرفات اور نظام عالم میں ان کی تدبیروں کا واقع ہونا اب ناقابلِ تصور نہیں رہا۔
قرآن نے فرشتوں کی کئی خصوصیات بیان کی ہیں: ان میں سے سختی سے جان نکالنے والے فرشتوں کو قرآنِ کریم میں 'نَازِعَات‘ نرمی سے جان نکالنے والے فرشتوں کو 'نَاشِطَات‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ زمین و آسمان میں سرعت کے ساتھ تیرنے والے‘ احکام الٰہیہ کے نفاذکیلئے پوری قوت سے بڑھنے والے‘ تکوینی امور اور نظام عالم کی تدبیر کرنے والے‘ کاموں کو تقسیم کرنے والے‘ مومنین کی ثابت قدمی میں نصرت کرنے والے‘ کفار کے حوصلے پست کرنے والے‘ بندوں کے اعمال لکھنے والے اور حفاظت کرنے والے فرشتے شامل ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: (۱) ''اور بیشک تم پر نگہبان (مقرر) ہیں‘ معزز لکھنے والے‘ جو تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں‘‘ (الانفطار: 10 تا 12)۔ (2) ''انسان جو لفظ بھی بولتا ہے‘ (اس کو لکھنے کیلئے) اس کے پاس محافظ (فرشتہ) ہمہ وقت تیار رہتا ہے‘‘ (ق: 18)۔
چار مشہور فرشتے حضرت جبریل‘ حضرت میکائیل‘ حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل ہیں۔ حضرت جبریل انبیائے کرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام لانے والے‘ حضرت اسرافیل صور پھونکنے والے‘ حضرت میکائیل بارش برسانے والے اور حضرت عزرائیل لوگوں کی روح نکالنے والے فرشتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی فرشتہ یہ کام کرتا ہو‘ ان فرائض کی بجا آوری کے لیے متعدد فرشتے اُن کی معاونت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عرش کو اٹھانے والے‘ جنت اور دوزخ کے داروغہ‘ جہنم میں عذاب پر مامور فرشتوں کو قرآنِ کریم میں'زَبَانِیَہ‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''آپ بتائیں! اگر اس نے حق کو جھٹلایا اور روگردانی کی (تو وہ عذاب سے کیسے بچے گا)‘ کیا اُس نے نہ جانا کہ اللہ (سب کچھ) دیکھ رہا ہے‘ ہاں ہاں! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم ضرور اُس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے‘ وہ پیشانی جو جھوٹی‘ خطاکار ہے‘ وہ بھی اپنے ہم نشیں مددگاروں کو بلا لے‘ ہم بھی عنقریب دوزخ کے مقررکردہ فرشتوں کو بلائیں گے‘‘ (العلق: 18)۔
علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں: ''حامِلینِ عرش اور اُس کے اردگرد مامور فرشتوں کو ''کَرُّوبِیِّیْن‘‘ کہتے ہیں‘ یہ ''کَرُّوبِی‘‘ کی جمع ہے‘‘ (روح المعانی‘ ج: 12، ص: 300)۔ لفظِ کَرُّوْبِی راء کی تشدید اور تخفیف دونوں طرح روایت کیا گیا ہے‘ لیکن تشدید والی روایت کو خطا قرار دیا گیا ہے۔ میر دردؔ نے کہا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved