میراثی کے بچے والا لطیفہ سچ ثابت ہو گیا۔ بینگن اور بلین ڈالر مین کی لڑائی میں بینگن اِن اور بلین ڈالرمین آؤٹ ہو گیا۔ وجہ سادہ سی ہے۔ چند لوگوں کی مرضی کو عوام کے مینڈیٹ کا متبادل سمجھنے والا بوجھ‘ اٹھا اٹھا کر کندھے سے اتار دیا گیا۔ جس طرح برطانیہ‘ فرانس‘ بلجیم‘ امریکہ‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات میں کس کس پاکستانی سیاستکار کی کس کاروبار‘ کون سے بینک اکاؤنٹس میں کتنے اثاثے اور کہاں کہاں جائیدادیں ہیں‘ وہ متعلقہ ملکوں کو خوب پتا ہوتا ہے‘ عین اسی طرح سے جو لوگ پڑوسی کے بچے چوری کرکے ان کا عقیقہ اپنے گھر میں کرنا چاہتے ہیں‘ ان کے پچھلوں کو پتا ہے کہ وہ الیکشن 2024ء میں سیاسی طاقت سے لاولد نکلنے چلے آئے ہیں۔ اس لیے کمال یہ ہوا کہ جسے بڑے شدو مد اور بڑی زور سے چار ماہ تک امیدِ پاکستان بنا کر پیش کیا گیا‘ اب وہی امیدِ موہوم سیاست کی سب سے مدہم ٹمٹماتی ہوئی ''چراغی‘‘ سمجھی گئی ہے۔ امیدِ پاکستان کے مشورے دینے والے اگر ایک فیصد بھی سچ بولتے تو شاید آج ان کے کیمپ میں اتنی اداسی نہ ہوتی۔ پاکستان کے نوجوان ووٹرز کو دھوکا دیتے دیتے انہوں نے ملک کی تقریباً 65فیصد آبادی کو برگر بچے کہہ کر ان کی توہین کی۔ حالانکہ یہی برگر بچے تو اصل میں امیدِ پاکستان ہیں‘ جن کے پاس پچھلی نسلوں سے ماورا صلاحیت‘ زیادہ اہلیت اور وقت‘ تینوں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ ھل من مزید اور کثرت کی ہوس رکھنے والوں کے سارے خواب انہی نوجوانوں نے بکھیر ڈالے۔ اگر آپ صرف عہدے ہی گنیں‘ وہ بھی صرف ایک گھر کے‘ تو ووٹ کو عزت دینے کا سہ جہتی حیران کن ڈیٹا یوں سامنے آتا ہے۔
ووٹ کو گھریلو عزت دینے کا ایکٹ وَن: نواز شریف 1980ء کے عشرے کے درمیان میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے خزانے کے وزیر سلیکٹ ہوئے۔ پھر پنجاب میں یہ سلیکشن روٹین کی ایکسٹینشن میں تبدیل ہوتی گئی کیونکہ اس کے ذریعے کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘ کی وجہ سے پنجاب میں کم کھانے اور زیادہ لگانے والی پوری فصل اُگ آئی۔ اگر ہم باقی سب رہنے دیں‘ نواز شریف پنجاب کی وزارتِ خزانہ کے بعد دو بار وزارتِ اعلیٰ کی کرسی تک دھکا لگا کر پہنچائے گئے۔ ہر مرتبہ دھکا لگانے والا وہی تھا‘ جسے دھکا مارنا آتا ہے۔ پھر بے نظیر بھٹو شہید کی تصویریں جہاز سے گرا کر دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پاکستان بھی نواز شریف کو انعام میں مل گئی۔ تیسری مرتبہ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے سے‘ جسے (ن) لیگ والے خود جوڈیشل NROکہتے ہیں‘ نواز شریف کی حکومت کو جسٹس نسیم حسن شاہ نے بحال کیا۔ چوتھی مرتبہ جنرل باجوہ کام آگئے۔ 2013ء کا وہ منظر یاد کریں جب رات 10بجے رائیونڈ کی بالکونی سے نکل کر نواز شریف نے کہا تھا کہ یاد رکھنا! مجھے دو تہائی اکثریت دینی ہے۔ حالانکہ جنرل الیکشن کا آخری ووٹر بھی اپنا ووٹ پول کرکے پولنگ سٹیشن سے واپس گھر جا چکا تھا۔ چنانچہ RO's نواز شریف صاحب کے کام آگئے۔ نواز شریف صاحب کا کُل اقتدار سات مرتبہ باریاں لینے پر مشتمل ہے۔ اب آٹھویں بار انہیں بلا کر پہلے ان سے ووٹ کی بے توقیری کرائی گئی‘ پھر اُنہیں بیمار اور ناراض کا خطاب دے کر الیکشن ہارنے کے بعد آؤٹ کر دیا گیا۔ پس ثابت ہوا‘ سلیکشن سلیکشن ہوتی ہے اور الیکشن الیکشن۔ اسی وجہ سے بینگن اِن ہے اور بلین ڈالر مین آؤٹ۔
ووٹ کو گھریلو عزت دینے کا ایکٹ ٹو: اگلے روز جب ملک کے طول و عرض میں جاری منتخب ارکان کی وفاداریاں خریدنے کے لیے آپریشن ردّ و بدل جاری تھا‘ عین اسی وقت پرائم منسٹر آف انڈیا نے چار ممالک کے ساتھ بڑی ٹریڈ کے باہمی معاہدات کیے۔ اس وقت سلیکٹڈ وزیراعظم سرچ لائٹیں لے کر قابلِ فروخت ضمیروں کی خرید و فروخت میں مصروف تھے۔ یہ تلاش ابھی جاری ہے۔ اسی کے نتیجے میں بین الاقوامی میڈیا نے Wet Banditڈاکوؤں کی یاد تازہ کر دی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ابھی United Kingdomکی ریاست معرضِ وجود میں نہیں آئی تھی اور موجودہ انگلستان چار ریاستوں میں تقسیم تھا‘ جن میں سے کیچڑ اور گہرے دلدلی علاقے کو wet landکہا جاتا تھا۔ اس علاقے کے ڈاکو حلیہ بدلنے کے ماہر تھے جس طرح ضیاء حکومت میں پنجاب کے اندر نانگے ڈاکوؤں کی واردات کا ڈنکا بجتا تھا‘ جن کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ ہتھوڑا لے کر نکلتے ہیں‘ بدن پر ایک چڈا پہن کر تیل ملتے ہیں‘ تالا توڑنے کے لیے ہتھوڑا مارتے ہیں‘ ضرورت پڑے تو کھوپڑی بھی‘ اس لیے کسی سے پکڑے نہیں جاتے۔ ان ڈاکوؤں کے ذریعے سے اَن گنت گھر اجاڑے گئے اور بے شمار بندے مارے گئے۔ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے پاکستان میں ووٹ کی عزت کو پامال کرنے والوں کے لیے Mandate Thievesکی اختراع نکالی ہے۔ ایسے میں مینڈیٹ چوری کرنے والا جب نیا کوٹ پینٹ پتلون اور زرق برق ٹائی پہن کر‘ اچھل اچھل کر کہے گا کہ مجھے عوام نے اپنی خدمت کے لیے اسمبلی میں وزیراعظم منتخب کرایا ہے تو ہم سب ہنسیں گے‘ آئینی جمہوریت خون کے آنسو روئے گی اور دستور کی آنکھوں میں حسرت نظر آئے گی۔
ووٹ کو گھریلو عزت دینے کا تیسرا ایکٹ: اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ ساری ایکسرسائز صرف ووٹ کو عزت دینے کے لیے کی گئی ہے یا ووٹر کو بھی؟ فرض کریں کہ کوئی پی ٹی آئی سے تمام سیٹیں چھین لے۔ کیا اس کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام آسکتا ہے۔ اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ سب کہتے ہیں میں سیاسی استحکام لاؤں گا‘ لیکن جن 25کروڑ لوگوں کو سیاسی استحکام چاہیے‘ ان کا فیصلہ کیوں مسترد کیا جا رہا ہے۔ ایک اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ مانگے تانگے‘ چھینے جھپٹے‘ لوٹے اور ڈرائے ہوئے لوگ‘ کیا قوم کو لیڈ کرنے کے قابل ہوتے ہیں؟ وہ بھی بدترین بحران میں۔ فیضؔ لدھیانوی نے سالِ نو پہ کمال کی بات کہی تھی۔
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پَن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی‘ تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسماں بدلا ہے‘ افسوس نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
پہاڑی علاقوں میں جو بس سب سے جلدی لڑھکتی ہے‘ اسے 1984ء ماڈل پرانے بیڈ فورڈ ٹرک کے چیسیز پر بنایا جاتا ہے جس کے ماتھے پہ ماڈل 2024ء لکھا ہوتا ہے۔ مستری جانتا ہے‘ بنانے والی کمپنی جانتی ہے‘ ڈرائیور کو چھوڑیں‘ انگریزی کا کنڈیکٹر‘ جسے اچھی اُردو میں سہولت کار کہتے ہیں‘ اسے بھی سب پتا ہوتا ہے کہ اس بس میں کچھ نیا نہیں‘ جس کے پائیدان پہ جلی لفظوں میں یہ نوٹس لکھتے ہیں:
چلنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے‘ شاید یہ تیری زندگی کا آخری سفر ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved