آٹھ فروری کو جو کچھ ہوا‘ اس میں سے بہت کچھ سامنے آ چکا ہے‘اور بہت کچھ سامنے آتا چلا جائے گا۔معاملات واضح ہوتے چلے جائیں گے‘ جو کچھ آج بیان نہیں ہو رہا‘ وہ کل بیان ہو گا‘ جو کچھ آج چھپا ہوا ہے یا چھپایا جا رہا ہے‘ وہ کل عیاں ہو گا‘ یا کر دیا جائے گا ان امور میں سر کھپانے یا خود کو اُلجھانے کی ضرورت نہیں‘جو فی الفور سلجھائے نہیں جا سکتے۔ توجہ اس پر مرکوز کر لیجیے کہ انتخابات ہو چکے ہیں‘ان کا ہونا نہ ہونے سے بہتر تھا‘اگر ان کا انعقاد نہ ہوتا تو لاوا اندر ہی اندر پکتا اور کھولتا رہتا‘ جو خدا معلوم کس طرح اور کتنی شدت سے باہر آتا۔لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا ہے‘اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار کر دیا ہے۔اس کے نتیجے میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل پا رہی ہیں‘گویا جمود ٹوٹ رہا ہے‘ حرکت ہو رہی ہے‘تغیر واقع ہو رہا ہے: ثبات ایک تغیرکو ہے زمانے میں... سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارنے والے اور جیتنے والے دونوں سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔الزامات لگا رہے ہیں‘ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں‘ گنتی اور نتائج پر سوالات اُٹھا رہے ہیں‘لیکن ایوانوں میں بیٹھنے کی تیاری میں بھی مصروف ہیں۔ تینوں بڑی جماعتوں کو ایک ایک صوبہ مل گیا ہے‘خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کا پرچم پورے طمطراق سے لہرا رہا ہے‘ تو سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت جاری و ساری رہنے کا اعلان ہے۔ گویا ان دونوں صوبوں میں وہی کچھ ہوتا رہے گا‘ جو انتخابی عمل سے پہلے ہو رہا تھا۔پنجاب کی قسمت البتہ بدلی ہے کہ یہاں باگ ڈور مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں میں واپس آنے والی ہے۔ محترمہ مریم نواز وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالیں گی‘ اور یوں ایسی سیاست کا آغاز ہو گا‘ جو پرانی ہونے کے باوجود نئی ہو سکتی ہے۔ وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن کر نئی تاریخ رقم کی تھی‘اب یہ اعزاز (ایک نئے انداز میں) مریم بی بی کے حصے میں آ رہا ہے۔اُن کے والد نواز شریف ہی اُن کے آئیڈیل ہیں‘اُن ہی کے زیر نگرانی اُن کی سیاست پروان چڑھی ہے‘ان کے چچا شہباز شریف نے گورننس کا جو معیار قائم کیا‘ وہ بھی اُن کے سامنے ہے۔اُنہیں اسمبلی کے اندر اور باہر ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا‘تحریک انصاف خود چین لے گی نہ اُن کو چین لینے دے گی‘بادِ مخالف کی یہ تندی اونچی اُڑان میں مدد بھی دے سکتی ہے۔ مرکز میں مریم بی بی کے چچا مخلوط حکومت کی قیادت کریں گے لیکن یہ حکومت ایسی ہو گی جو کسی کو شاید ہی توانائی فراہم کر سکے۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کا گروپ سب سے بڑا ہے‘اس کے بعد مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا نمبرآتا ہے۔ ایم کیو ایم چوتھے نمبر پر ہو گی‘جمعیت العلمائے اسلام اور دوسری جماعتیں اس کے بعد ڈھونڈی جا سکیں گی۔تحریک انصاف اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کر چکی ہے‘ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی مخلوط حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔دونوں کے دل کھٹے ہیں‘لیکن انہیں کسی نئی کروٹ تک ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے۔پیپلزپارٹی آئینی عہدے لے اُڑے یا کابینہ میں شریک ہو‘اس سے قطع نظر اُسے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ رہنا ہے۔جب تک تحریک انصاف اپنے دروازے نہیں کھولے گی‘اُس وقت تک کوئی نئی کولیشن نہیں بن سکے گی۔مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مصافحے نے نئے امکانات پیدا کر دیے ہیں‘لیکن ابھی ان کے خدوخال واضح نہیں ہیں۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد سب سے بڑا دھماکہ یہی ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا‘ اور ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ہماری سیاست کا ایک انتہائی مکروہ باب ہے‘ان کی تازہ قربت اور دھاندلی کے الزامات کی آڑ میں یک زبانی تعجب انگیز تو ہے‘ لیکن اس سے یہ کرن بھی پھوٹ رہی ہے کہ کسی وقت پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بھی مصافحہ ہو سکتا ہے۔عمران خان نے تمام تر مشکلات کے باوجود جو پیش قدمی کی ہے‘ تحریک انصاف میدان میں نہ ہونے کے باجود میدان مارنے میں جس طرح کامیاب ہوئی ہے اس نے پاکستانی سیاست کو نیا رُخ دے دیا ہے۔انتخابی نشان چھن جانے کے بعد بھی اس نے ہمت نہیں ہاری‘اور اُس کے بے نام امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے دکھا دیے ہیں۔عوام کی عدالت میں اس پذیرائی کے بعد نگران حکومت کو عمران خان اور ان کی جماعت کی مشکلات کم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی‘ الیکشن ایکٹ 2017ء میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر کے تحریکِ انصاف کو اپنا پارلیمانی تشخص قائم کرنے‘ اور خواتین کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں مدد دے دی جاتی تو ہماری ریزہ ریزہ سیاست کو جوڑنے کی ایک کامیاب کوشش کی جا سکتی تھی‘ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ تحریک انصاف کے حریفوں میں سے بھی کسی کو اس طرح کے کسی مطالبے کی توفیق نہیں ہوئی‘ گویا کوئی یکطرفہ طور پر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انتخابی عمل اور گنتی کے مراحل میں جو بھی زیادتی ہوئی ہو‘ اور جس جس نے جو جو ہاتھ بھی دکھایا ہو‘ہماری سیاست کے جملہ کرداروں یا حصہ داروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر وہ ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گے تو کسی کو بھی چین نصیب نہیں ہو گا۔چند فیصد ووٹ زیادہ ملنے یا چند نشستیں زیادہ حاصل کرنے سے کسی جماعت یا رہنما کو یہ حق نہیں مل جاتا کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پامالی کرے۔ پاکستان میں آئین کی حکمرانی اُسی وقت قائم ہو گی‘ تمام اداروں کو ان کی حدود میں اُسی وقت دھکیلاجا سکے گا‘ جب اہل ِ سیاست ایک دوسرے کو جانی دشمن سمجھنا ترک کریں گے‘جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ میں آ جائے‘اُسی قدر ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ پاکستانی ریاست کے سارے ادارے اگر اپنے اپنے کام کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے‘ سیاست میں اُلجھے رہیں گے‘ تو سیاست ان کے اندر داخل ہوتی چلی جائے گی۔یہ دیمک کی طرح ان کو چاٹ لے گی۔پاکستان کی بقا تمام اداروں کی مضبوطی اور بقا سے وابستہ ہے۔نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ شہباز شریف کے سپرد کر کے جو مثال قائم کی ہے‘ اُسے پہلا قدم ہونا چاہیے‘ آخری نہیں۔وہ عمران خان کو پھول نہیں تو شاخِ زیتون ہی دکھلا دیں ‘ اور عمران خان بھی مولانا فضل الرحمن تک پہنچ کر رُک نہ جائیں‘ آگے بڑھیں‘ اور آگے بڑھیں بلکہ آگے بڑھتے جائیں۔ عوام کی عدالت کا فیصلہ سب کو تسلیم کرنا چاہیے‘ قانون کی طاقت ہو یا بندوق کی ''عدالت‘‘ سے کسی کو سرتابی کی مجال نہیں ہونی چاہیے۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں کہ کمشنر راولپنڈی کا استعفیٰ آ گیا‘انہوں نے13 حلقوں میں دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو حوالہ ٔ پولیس کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ان کا الزام ( یا دعویٰ) ہے کہ ان کے زیر نگرانی قومی اسمبلی کے13حلقوں کے نتائج بدلے گئے ہیں۔ان کی یہ دھماکہ خیز حرکت متقاضی ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے‘ ذمہ داروں کی گردن ناپی جائے‘ اور انتخابی عمل کے دوران روا رکھی جانے والی مبینہ بے ضابطگیوں کا احاطہ کیا جائے۔ انتخابی عمل کو مذاق بنانے والوں کو کھلا رکھا جا سکتا ہے‘نہ چھوڑا جا سکتا ہے۔عوام کے فیصلہ کو نہ رد کیا جا سکتا ہے‘ نہ تبدیل کیا جا سکتا ہے‘اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہو گا۔جینا ہو گا‘ مرنا ہو گا‘ اسی ایک نکتے پر دھرنا ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved