الیکشن میں حصہ لینے کی عمر کو پہنچتے ہی بلاول زرداری نے عوامی رابطے کی مہم شروع کر دی ہے۔ کارساز کراچی کے مقام پر محترمہ شہید کی پاکستان میں واپسی کے وقت‘ جو عظیم الشان جلوس نکلا تھا اور جس میں بی بی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا‘ اس میں بی بی تومحفوظ رہ گئی تھیں لیکن جلوس میں شامل کارکن بہت بڑی تعداد میں شہید اور زخمی ہوئے۔ان شہیدوں کی یاد میں ‘ اسی مقام پر جلسے کا اہتمام کیا گیا‘ جس کے مرکزی مقرر بلاول زرداری تھے۔ تقریر انہوں نے بہت اچھی کی۔ لیکن ملک کی سیاسی فضا کے مطابق اس کا موقع محل موزوں نہیں تھا۔ انتخابی مہمات کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ان مہمات کے دوران‘ عوام نے لاتعداد جلسوں میں حصہ لیا۔ بے شمار تقریریں سنیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے بڑے بڑے میچ دیکھے۔ ان دھواں دار میچوں کے بعد‘ عوام ہی نہیں سیاستدان بھی تھک چکے تھے۔ ملک متعدد بحرانوں کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ تمام سیاسی قائدین نے بجا طور پر فیصلہ کیا کہ وہ نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیں گے۔ سیاسی محاذآرائی کچھ عرصے کے لئے موقوف کر دی جائے گی۔ خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی کے قائم مقام سربراہ آصف زرداری نے جرات مندی سے انتخابی نتائج قبول کئے۔ حالانکہ انہیں بجا طور پر اپنے خلاف دھاندلی کی شکایت تھی لیکن انہوں نے ملکی مفاد میں طے کیا کہ وہ نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیں گے اور ابھی چند ہی روز پہلے انہوں نے کہا تھا کہ نوازشریف ملکی مفاد میں فیصلے کریں اور ہم ان فیصلوں کی حمایت کرتے ہوئے کہیں گے ’’قدم بڑھائو نوازشریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘اس مفاہمانہ فضا میں ‘ جسے پیدا کرنے میں بلاول کے اپنے والد محترم پیش پیش ہیں‘ ایسی شعلہ افشانی کے لئے گنجائش نہیں تھی‘ جس کا مظاہرہ بلاول بھٹو نے کیا۔ اگر اس تقریر کو حالات و واقعات سے الگ تھلگ کر کے دیکھا جائے‘ تو بے شک یہ اچھی پرفارمنس تھی۔ بولنے میں روانی تھی۔ لہجے کے زیروبم مفہوم کے مطابق تھے۔ جہاں گرج دار لہجے میں الفاظ ادا کرنے کی ضرورت تھی‘ وہاں ایسا ہی کیا گیا۔ باڈی لینگویج بے حد متاثرکن تھی۔ انداز بھی بھٹو خاندان کے روایتی جارحانہ اسلوب کی یاد دلا رہا تھا۔ انہوں نے اپنی حریف جماعتوں کو پرزور انداز میں للکارا اور نام لئے بغیر‘ تینوں بڑے لیڈروں پر الفاظ کے تیر چلائے۔ لیکن یہ سب کچھ بے موقع تھا۔ خصوصاً بلاول بھٹو کے لئے ‘جو اپنے خاندان کی قائدانہ روایات کو آگے بڑھانے کا فرض انجام دینے کے لئے پہلی بار عوام کے سامنے آئے۔ پہلی بار اس لئے کہ اس جلسہ میں انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد عوام سے خطاب کیا۔وہ عملی سیاست میں اپنی پارٹی کے لئے‘ نئی امنگوں اور امیدوں کی علامت بن کر سامنے آ رہے تھے۔ مگر سچ بتائوں کہ ایک شاندار تقریر‘ بے موقع اور بے محل ‘ ضائع کر دی گئی۔ نہ اس سے اپنوں کا کوئی فائـدہ ہوا اور نہ ہی مخالفین کونقصان پہنچا۔ مناسب ہو گا کہ میں مثالیں دے کر فرق کو واضح کروں۔ راہول گاندھی کا خاندانی پس منظر‘ بھٹو خاندان سے بدرجہابہتر اور درخشاں ہے۔ عوامی سیاست میں بھٹو صاحب اپنے خاندان کے پہلے بڑے لیڈر تھے۔ ان کے والد محترم ضلعی اور صوبائی سیاست میں سرگرم ضرور رہے تھے مگر وہ قومی سطح کے لیڈر کبھی نہیں بن پائے۔ ان کے بعد ان کی لائق فائق بیٹی‘ بے نظیر شہید نے سیاسی جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا اور ایک شاندار اور کامیاب سیاسی زندگی گزارنے کے بعد شہید ہو گئیں اور آج انہیںایک غیرمتنازعہ قومی لیڈر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو قیادت کے اس سلسلے میں تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ راہول گاندھی اپنے خاندان کے سلسلہ قیادت میں پانچویں نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھٹو خاندان کے دونوں عظیم لیڈرمحض چند سالوں کے لئے اقتدار میں رہے۔ دونوں لیڈروں کی وزارت عظمیٰ کی مجموعی مدت قریباً 12 سال بنتی ہے۔ جبکہ نہرو خاندان میں صرف پنڈت جواہرلال نہروہی قریباً 17 برس تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔ ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی کا دوراقتدار بھی کافی طویل ہے۔ ان کے بعد راہول کے والد بھی ملک کے وزیراعظم بنے۔ پھر ان کی والدہ نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور آج تک کنگ میکر ہیں۔ ان کے خاندان کا سیاسی ورثہ‘ بلاول سے بدرجہا زیادہ اوربہتر ہے۔ وہ چاہتے تو الیکشن میں حصہ لینے کی عمر تک پہنچتے ہی قومی سطح کے لیڈر بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پہلا الیکشن لوپروفائل میں رہ کر لڑا۔ پارلیمنٹ اور پارٹی کے اندر پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر سیاسی اور پارلیمانی تربیت حاصل کرتے رہے۔ نہ انہیں والدہ نے قبل ازوقت نمایاں ہونے کی اجازت دی ‘ نہ پارٹی کی لیڈرشپ نے۔ وہ خود بھی ایک لائق طالب علم کی طرح پس منظر میں رہ کے سیاسی تربیت حاصل کرتے رہے۔ آج وہ قریباً پندرہ سال سے عملی سیاست میں ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں پارٹی کے ایک نمایاں لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قومی سطح کے اس سیاسی لیڈر کے لئے جس تربیت کی ضروت تھی‘ وہ اس سے زیادہ حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح وہ پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے بھی 10برس کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ پاکستان میں شریف خاندان نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ خاندان کی سیاسی وراثت کا حقدار کون ہو گا؟ ابھی تک محض قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ ذمہ داری حمزہ شہبازشریف کے سپرد کی جائے گی۔ وہ راہول کی طرح خاموشی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں کے لئے وہ ابھی تک صرف لاہور کے اندر سرگرم ہیں۔ کبھی کبھی شہر سے باہر چلے جاتے ہیں مگر قومی سطح پر سامنے نہیں آ رہے۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں بھی راہول کی طرح ہی مناسب سیاسی تربیت اور تجربے کے بعد ہی قومی سیاست میںلایا جائے گا یا وہ خود آئیں گے۔ مگر بلاول صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان پر سیاسی ذمہ داریاں ڈال دی گئیں اور سن بلوغت کو پہنچتے ہی‘ انہیں جس بھونڈے طریقے سے بے موقع سیاسی جلسے میں لا کر کھڑا کر دیا گیا‘ وہ پارٹی کی سیاسی ناپختگی کا نمونہ ہے۔ مجھے بلاول سے ہمدردی ہے کہ انہیں نہ تو ابھی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل سکا ہے‘ نہ پارلیمانی تجربہ ہے اور نہ ہی ہم عصر سیاستدانوں کے ساتھ انٹرایکشن کا موقع ملا ہے۔ جن بڑے لیڈروں کو انہوں نے اپنی تقریر میں ہدف تنقید بنایا‘ نہ تو وہ انہیں ذاتی طور پر ملے ہیں‘ نہ ان کے ساتھ انہوں نے کبھی تبادلہ خیال کیا ہے اور نہ ہی ان کی سیاست کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور آتے ہی انہوں نے نشانہ باندھے بغیر ہی تیراندازی شروع کر دی۔ یہ صحرا میں تنہا کھڑے ہو کر فن خطابت کا مظاہرہ کرنے والی حرکت تھی۔ جو حاضرین تھے وہ کسی سیاسی عمل میں شامل ہی نہیں۔ جو مرکزی مقرر تھے‘ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ تقریر کس لئے کر رہے ہیں؟ کیوں کر رہے ہیں؟ اس تقریر کا موقع کیا ہے؟ جہاں وہ کر رہے ہیں‘ وہ جگہ کونسی ہے؟ اور اس تقریر کے بعد سیاسی عمل کو جاری رکھنے کا منصوبہ کیا ہے؟ اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے بلاول کی ذات میں جو سیاسی کشش پائی جاتی ہے‘ اسے بری طرح سے اور بے مقصد استعمال کیا گیا۔ نہ پارٹی اس کا فائدہ اٹھا سکے گی‘ نہ کارکنوں کو میدان عمل میں کچھ کرنے کا موقع ملے گا اور بلاول تو یقینی طور پر خسارے میں رہے۔ کیا یہ زیادتی کی انتہا نہیں کہ وہ جماعت جو45 برس تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہو اور جو آج بھی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور صوبہ سندھ میں حکمران ہے‘ اس کا چیئرمین اپنی تقریر میں وزیراعظم کے سوا جن لیڈروں کو ہدف تنقید بنائے‘ وہ اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ کریں؟ بلاول کی تیراندازی کا ہدف بننے والے تمام سیاسی قائدین کی چوتھی‘ پانچویں یا چھٹی صف کے کارکن جواب دیں۔ بلاول صاحب اس سلوک کے حقدار نہیں تھے۔ انہیں سیاست میں آنے کے لئے عملی تربیت کی ضرورت ہے۔ مناسب ہو گا کہ انہیں ضمنی الیکشن میں کامیاب کرا کے قومی اسمبلی میں بٹھایا جائے۔ جہاں وہ پارٹی کے سینئر اور قابل لیڈر خورشید شاہ کے زیرسایہ پارلیمانی تربیت حاصل کریں اور آنے والے انتخابات میں‘ عوامی رابطے کے تجربے سے گزریں اور اس کے بعد پارٹی فیصلہ کرے کہ انہیں کونسی ذمہ داریاں دی جائیں؟جن لیڈروں کو انہوں نے ہدف تنقید بنایا ہے‘ انہیں تو اپنا سینئر اور بزرگ سمجھتے ہوئے‘ بلاول کو استفادہ کرنے کی ضرورت تھی۔ بھٹو صاحب‘ جب ایوب خان کی وزارت سے نکلے تھے‘ تو میں نے خود انہیں ممتاز دولتانہ‘ نوبزادہ نصر اللہ خان‘ میاں محمود علی قصوری اور دیگر سیاستدانوں کی خدمت میں مودبانہ حاضری دیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہی کچھ بے نظیر بھٹو شہید کو جدوجہد کے دوران کرنا پڑا تھا۔ بلاول کو غیروں سے نہیں ‘ تو اپنے بزرگوں ہی سے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved