مذہبی سیاست سے مراد ہے ریاست کی اسلامی تشکیل۔
اس باب میں دو تعبیرات مستعمل ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد طبقۂ علما کی حکومت ہے۔ علم اور تقویٰ کے اعتبار سے وہی سزاوار ہیں کہ ریاست کی باگ ان کے ہاتھ میں تھما دی جائے۔ یہ علما وہ ہیں جو روایتی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں۔ دوسری تعبیر کے مطابق اس سے مراد اسلام کے اصولِ سیاست و حکومت کی حکمرانی ہے‘ کسی خاص طبقے کی نہیں۔ یہ حکمرانی صالحین کی اس جماعت کے ہاتھوں قائم ہو گی جو اسلام کا علم رکھتی ہے لیکن لازم نہیں کہ اس کا تعلق روایتی طبقۂ علما سے ہو۔
پہلی تعبیر قدیم ہے۔ اس کو خلافت کے ادارے سے نسبت دی جاتی ہے درآں حالیکہ وہ سیاسی عصبیت رکھنے والے گروہوں کی حکومت تھی نہ کہ علما کی۔ اس کے زیرِ اثر ایک فقہ وجود میں آئی جس نے دنیا کے سیاسی نظم کو دارالاسلام اور دارالکفر میں تقسیم کیا۔ اس کا پس منظر وہ عالمی سیاسی نظام تھا جس میں نظمِ اجتماعی کی عملی صورت 'سلطنت‘ تھی۔ ان کے احکام تفصیل کے ساتھ قدیم فقہی کتب میں محفوظ ہیں۔ یہ احکام اس وقت وجود میں آئے جب اہلِ اسلام کا اقتدار امرِ و اقعہ تھا اور ایسی فقہ اس کی عملی ضرورت تھی۔ اس تعبیر میں جمہوریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے مطابق انبیاء کی سیاست کے وارث علما ہیں۔
دوسری تعبیر دورِ حاضر کی دین ہے جب قومی ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ اس نے قومی ریاست کے مقابلے میں 'اسلامی ریاست‘ کا تصور دیا۔ اس تصور میں ریاست کی مروجہ صورت کو قبول کرتے ہوئے اس کی اسلامی تشکیل کی گئی۔ جیسے ریاست کا جدید تصور اگر اقتدار کو مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ میں تقسیم کرتا ہے تو یہ اسلامی ریاست کے لیے بھی قابلِ قبول ہے۔ اس تصور میں جمہوریت کے لیے بھی گنجائش پیدا کی گئی۔ تقلید کے بجائے اجتہادکے اصول کو بنیادی حیثیت دی گئی کہ ریاست کا یہ نیا تصور مسلم روایت کے لیے اجنبی تھا اور اجتہاد کے بغیر اس کی تشکیل ممکن نہیں تھی۔
پاکستان کی تشکیل قومی ریاست کے اصول پر ہوئی۔ جب اس کی اسلامی تشکیل کا سوال اٹھا تو مسلم لیگ کے پاس اس کا کوئی جواب موجود تھا اور نہ روایتی علما کے پاس۔ پاکستان کا اقتدار جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ہاتھ میں تھا جو علما کے طبقے سے مانوس نہیں تھا۔ برسرِ اقتدار گروہ کی حلیف مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علمائے اسلام تھی جس نے شیخ الاسلام کے منصب کا مطالبہ کیا۔ ان کے خیال میں اس سے جدید ریاست 'مسلمان‘ بن جاتی۔
مطالبہ نفاذِ اسلام دوسرے طبقے کی طرف سے سامنے آیا جس کی نمائندگی جماعت اسلامی کر رہی تھی۔ مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی 'اسلامی ریاست‘ کے تصور کے خالق تھے۔ جماعت اسلامی کی کوششوں سے پہلے علما کو قائل کیا گیا کہ جدید ریاست اسلامی کیسے بن سکتی ہے۔ اس کا پہلا مظہر 22 نکات پر علما کا اتفاق تھا اور دوسرا 'قراردادِ مقاصد‘۔ اس میں پہلی بار قومی ریاست اور اسلامی ریاست کا ایک امتزاج پیدا کرنے کی سعی ہوئی۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ اہلِ علم کا ایک طبقہ اسے ناقابلِ عمل کہتا ہے۔ اس کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ ریاست کے جدید تصورکو اسلام کا لباس نہیں پہنایا جا سکتا۔ وائل حلاق نے اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب‘ Impossible State بھی لکھی ہے۔
پاکستان میں ان دونوں تعبیرات کے حاملین میں ایک نئے سیاسی معاہدے پر اتفاق ہو گیا جسے آئینِ پاکستان کہتے ہیں۔ دونوں نے اسے اسلامی مان لیا۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں 'قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری کا مطلب یہ تھا کہ ریاست نے کلمہ پڑھ لیا۔ دو نوں گروہوں کے نزدیک پاکستان اب ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس آئین کی رو سے اس مملکت میں اقتدار تک پہنچنے کا ایک ہی جائزطریقہ ہے اور وہ ہے عوام کی تائید اور ووٹ۔ دونوں نے بطور حکمتِ عملی اس کو قبول کر لیا۔ یعنی علما یاصالحین کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوامی تائید کی ضرورت ہو گی؛ تاہم دونوں اس کے قائل نہیں ہیں کہ ریاست کی اسلامی تشکیل کی واحد صورت یہی ہے۔
2024ء کے انتخابی نتائج نے اس پر ایک بار پھر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ ووٹ کی طاقت سے علما برسرِ اقتدار آسکتے ہیں نہ صالحین کی جماعت۔ اسی وجہ سے ہر الیکشن کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ مذہبی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ مذہبی گروہوں میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اس لیے ان کے حلقوں میں یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ اٹھا ہے۔ وہ اب متبادل راستوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ افغانستان کی جنگ نے مسلح جدوجہد کو متبادل کے طور پر مقبول بنایا۔ اس کے نتیجے میں دونوں گروہوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انتخابات کے بجائے مسلح جدوجہد کو اسلام کی سیاسی حاکمیت کے قیام کا راستہ سمجھا اور جہادی تنظیموں میں شامل ہو گئے۔ یہ سوال کہ اسلام کی سیاسی حاکمیت کیسے قائم ہو گی‘ پہلے گروہ میں کبھی زیرِ بحث نہیں آیا۔ دوسرے گروہ کے ہاں البتہ اس سوال کو اہم سمجھا گیا اور اس پر ایک علمی مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس کے ہاں حکمتِ عملی کا معاملہ منصوص ہے۔ مولانا مودودی نے علی گڑھ میں کی گئی ایک تقریر میں رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے مستنبط سات مراحل بیان کیے۔ یہ تقریر 'اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟‘ کے عنوان سے شائع شدہ موجود ہے۔ بعد میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اس میں آٹھواں مرحلہ بھی شامل کیا جو برسرِ اقتدار گروہ کے ساتھ مسلح تصادم ہے۔
جمہوریت چونکہ دونوں گروہوں کے سیاسی اعتقادات کا حصہ نہیں‘ محض حکمتِ عملی کا ایک مسئلہ ہے‘ اس لیے دونوں اصولی طور پر متبادل راستے اختیارکر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی ابھی تک انتخابات ہی کو واحد راستہ قرار دیتی ہے؛ تاہم مولانا فضل الرحمن نے بتا دیا ہے کہ اگر پارلیمانی جمہوریت انہیں اقتدار تک نہیں پہنچا سکتی تو وہ کوئی دوسرا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ‘ ناکامی کے بعد کیامتبادل راستوں پر غور کرے گی‘ میرے علم میں نہیں۔
مولانا مودودی نے سیاست کو چونکہ گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے‘ اس لیے وہ اس بات کے قائل تھے کہ پائیدار تبدیلی وہی ہوتی ہے جسے عوام نے شعوری طور پر قبول کیا ہو۔ اس لیے وہ دعوت کو سیاست پر مقدم سمجھتے ہیں۔ تاہم ایک سوال ان کے بھی پیشِ نظر تھا کہ جب مقتدر طبقات ووٹ سے آنے والی تبدیلی کو قبول نہ کریں تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا پھر بھی ووٹ اور جمہوریت ہی کو ترجیح دی جائے؟ اس وقت مذہبی جماعتوں کا مقدمہ یہ ہے کہ لوگ ووٹ دیتے ہیں مگر مقتدرہ رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت یہی کہہ رہے ہیں اور کراچی کی سطح پر جماعت اسلامی کا مؤقف بھی یہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کا یہ دعویٰ عقلی طور پر محلِ نظر ہے کہ عوام کی اکثریت انہیں برسرِ اقتدار دیکھنا چاہتی ہے۔ میرا خیال ہے ان کی قیادت پر بھی یہ بات پوری طرح واضح ہے۔ دھاندلی کی بات 'سیاسی مقدمہ‘ ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
آج اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی سیاست کے علمبردار کیا انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کر سکتے ہیں؟ یہ سیاست جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی تک محدود نہیں رہی۔ تحریکِ لبیک جیسے گروہ بھی اس معرکے میں اُتر چکے۔ اگر مذہبی سیاست نے انتخابات سے مایوس ہو کر متبادل راستے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر کیا ہو گا؟ مولانا فضل الرحمن کے ہاں یہ رجحان موجود ہے کہ موجود نظمِ سیاسی اگر انہیں جگہ دے دے تو وہ ان کے لیے قابلِ قبول ہے۔ جماعت اسلامی کیا سوچ رہی ہے‘ یہ واضح نہیں۔ کسی متبادل راستے پر غور کرنے سے پہلے مذہبی جماعتوں کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اگر عوام کا انتخاب نہ بن سکیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام‘ مقتدرہ یا ان کی اپنی حکمتِ عملی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved