چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لَا اِلٰہ را
ترجمہ: جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں ''لا اِلٰہ‘‘ کہنے والوں کو کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو خالصتاً اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔ قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے: میں نے جنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ (الذاریات: 52) انسانوں اور جنّوں کو آزادی دی گئی کہ وہ شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے راستے پر چلنا چاہیں تو چلیں‘ اس کا انجام اللہ کی رضا اور جنت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرنا چاہیں تو زبردستی ان کو ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ وہ نافرمانی کا راستہ اپنائیں تو یہ سمجھ لیں کہ اس کا انجام اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ ہو گا۔ اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا۔ تمام انبیائے کرام نے ایک اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا۔ نبی کریمﷺ پر دین اور شریعت کی تکمیل ہوئی تو آپﷺ نے بھی اللہ کا یہ حکم لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ آپﷺ اور آپ کے پیروکار روشنی میں ہیں‘ اندھیرے میں نہیں اور وہ کسی اور جانب دعوت نہیں دیتے بلکہ خالصتاً اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ (یوسف: 108)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ''مطلب یہ ہے کہ میری یہ دعوت کسی سرسری نظر پر مبنی نہیں بلکہ پوری بصیرت اور عقل وحکمت کا ثمرہ ہے۔ اس دعوت و بصیرت میں رسول اللہﷺ نے اپنے متبعین اور پیروؤں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد صحابہ کرامؓ ہیں جو علومِ رسالت کے خزانے اور خداوند سبحانہٗ وتعالیٰ کے سپاہی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ اس تمام امت کے بہترین افراد ہیں جن کے قلوب پاک اور علم گہرا ہے‘ تکلف کا ان میں نام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی صحبت وخدمت اور اقامت کے لیے منتخب فرما لیا ہے‘ تم انہی کے اخلاق و عادات اور طریقوں کو سیکھو‘ کیونکہ وہی سیدھے راستے پر ہیں۔ اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مَنِ اتَّبَعَنِیْ عام ہو ہر اس شخص کیلئے جو قیامت تک دعوتِ رسولﷺ کو امت تک پہنچانے کی خدمت میں مشغول ہو۔ کلبی اور ابن زید نے فرمایا کہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو شخص رسول اللہﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ آپﷺ کی دعوت کو لوگوں میں پھیلائے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرے۔ (مظہری) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَآ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یعنی شرک سے پاک ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ اوپر چونکہ یہ ذکر آیا تھا کہ اکثر لوگ جب اللہ پر ایمان لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرکِ جلی یا خفی ملا دیتے ہیں‘ اس لیے شرک سے اپنی بالکل برأت کا اعلان فرمایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ میری دعوت کا یہ مطلب نہیں کہ میں لوگوں کو اپنا بندہ بناؤں بلکہ میں خود بھی اللہ کا بندہ ہوں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں، البتہ بحیثیت داعی مجھ پر ایمان لانا فرض ہے‘‘۔ (معارف القرآن، ج: 5، ص: 144 تا 145)
دعوتِ اسلامی کارِ انبیاء ہے۔ انبیا و رسل علیہم السلام کی بعثت اور وحی کے ذریعے نزولِ کتب کا مقصد انسانوں کے سامنے حق و باطل کو واضح کرنا اور راہِ راست پہ چلنے کی تعلیم دینا تھا۔ اس عظیم منبع رشد و ہدایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انسان کے اندر ضمیر کی شمع بھی روشن کی۔ قرآنِ مجید کے الفاظ میں یہ نفسِ لوّامہ ہے۔ یہ شمع بلاشبہ بڑی قیمتی اور مؤثر ہے مگر یہ بذاتِ خود کافی اور کامل نہیں ہے۔ ربِّ کائنات نے اس شمع کے ساتھ ساتھ آفتابِ ہدایت بصورت وحی انسانیت کو عطا کرکے ضلالت کے اندھیروں کو مستقل طور پر دور کر دیا تاکہ وہ نفسِ مطمئنّہ کے حصول میں کامیاب ہو سکیں۔ انبیاء کرام نے اپنے فرائض بطریق احسن ادا کیے اور حق و باطل کو کھول کر بیان کر دیا۔ چونکہ انسان کو نفسِ لوّامہ کے ساتھ ساتھ نفسِ امّارہ کی آزمائش سے بھی دوچار کیا گیا ہے‘ اس لیے انسانوں کی قلیل تعداد ہی نے حق کا ساتھ دیا اور اکثریت نے نفسِ امّارہ کے زیر اثر روگردانی‘ بے اعتنائی‘ بغاوت اور عداوت کا راستہ اپنایا۔
سلسلہ نبوت حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ پر مکمل ہوچکا ہے۔ آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول۔ آپﷺ پر نبوت ختم ہوئی ہے اور امت مسلمہ پر تمام امتوں کا اختتام ہوا ہے۔ جس طرح کوئی نیا نبی نہیں آئے گا‘ اسی طرح کوئی نئی امت بھی نہیں آ سکتی۔ محمدعربیﷺ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ ملعون‘ جھوٹا‘ کافر اور جہنمی ہے۔ یہی نہیں‘ اسے جھوٹا نہ کہنے والا بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ قرآن و سنت میں بالکل واضح طور پر بیان کر دیا گیا اور اس پر پوری امت میں روزِ اول سے لے کر آج تک مکمل اجماع ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
اُو رُسل را ختم و ما اقوام را
رسولِ رحمتﷺ نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں؛ البتہ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں ایسے لوگ اس امت میں اٹھاتا رہے گا‘ جو تجدیدِ دین کا کام سرانجام دیں گے۔ آنحضورﷺ کی یہ حدیث حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے‘ جو سنن ابوداؤد میں نقل ہوئی ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: اللہ ہر صدی کے سر پر اس امت کیلئے ایسے لوگ اٹھاتا رہے گا جو اس کیلئے اس کے دین کو تازہ کریں گے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں ''اس حدیث سے بعض لوگوں نے تجدید اور مجدّدین کا بالکل ہی ایک غلط تصور اخذ کر لیا۔... حالانکہ نہ رأس کے معنی سر کے ہیں اور صدی کے سر پر کسی شخص یا گروہ کے اٹھائے جانے کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وہ اپنے دَور کے علوم‘ افکار اور رفتارِ عمل پر نمایاں اثر ڈالے گا اور مَنْ کا لفظ عربی زبان میں واحد اور جمع دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے مَنْ سے مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے‘ بہت سے اشخاص بھی ہو سکتے ہیں اور پورے پورے ادارے اور گروہ بھی ہو سکتے ہیں۔ حضورﷺ نے جو خبر دی ہے اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ان شاء اللہ اسلامی تاریخ کی کوئی صدی ایسے لوگوں سے خالی نہ گزرے گی جو طوفانِ جاہلیت کے مقابلے میں اٹھیں گے اور اسلام کو اس کی اصلی روح اور صورت میں ازسرِنو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخض ہو۔ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں‘‘۔ (تجدید و احیائے دین‘ ص: 42 تا 43)
دعوت حق کا اہم فریضہ آپﷺ کی امت کے سپرد کیا گیا ہے۔ امت نے زوال پذیری کے تحت بحیثیت مجموعی‘ عمومی طور پر اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں تساہل ہی نہیں برتا بلکہ ایک کثیر تعداد نے اس کے ساتھ معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ اس کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس امت میں ہر دور اور ہر ملک اور علاقے میں کچھ لوگ ہمیشہ ایسے موجود رہے ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی یہ فریضہ سر انجام دیا۔ یہ لوگ مجدّدین یا ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے مخلص مومنین ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved