یارک شائر ادبی فورم کے تحت مانچسٹر اور لیڈز میں اپنے ساتھ منائی جانے والی شاموں کے بعد میں چند دن کے لیے لندن آگیا۔ یارک شائر ادبی فورم کی روح و رواں غزل انصاری، ان کے مرنجاں مرنج شوہر ڈاکٹر انصاری اور اشتیاق میر صاحب کی بے پناہ محبتوں کی خوشبو اس سارے عرصے میں میرے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی۔ پردیس کی ہلکی ہلکی خنکی میں دیس کی راحت وسکون کی کمی اگر پل بھر کو بھی محسوس نہیں ہوئی تو انہی احباب کی بے پناہ محبت وشفقت اس کی واحد وجہ تھی۔ یارک شائر ادبی فورم کے تحت میرے ساتھ منائی گئی شاموں کے علاوہ گلاسگو میں راحت زاہد صاحبہ‘ ان کے شوہر زاہد صاحب اور مانچسٹر میں سید حسن صاحب نے جن خوبصورت تقاریب کا اہتمام کیا اور برطانیہ کے خوبصورت ترین تاریخی علاقے اِلکلی میں چالیس سال سے ہونے والے ادبی فیسٹول میں دنیا بھر سے آئے مختلف زبانوں کے بیسیوں شعراء کے ساتھ شعر پڑھنے اور پاکستان کی نمائندگی کرنے کا خوبصورت تجربہ آنے والے دنوں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں گا۔ اِلکلی میں خصوصاً ’’شام‘‘ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر عامر درویش نے جس طرح دنیا بھر سے آئے شاعروں اور حاضرین کے سامنے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے ایک ہلکی پھلکی نظم پڑھ کر بے حد داد وصول کی‘ اس سے صاف اندازہ ہوتا رہا کہ عام انسان، انسانوں سے نہیں بلکہ نسلی امتیاز سے نفرت کرتا ہے۔ اس خوبصورت شاعر احمد درویش نے بعد میں ہونے والی دلچسپ ملاقات میں مجھے بتایا کہ وہ معروف فلسطینی ادیب وشاعر محمود درویش کے قریبی عزیز بھی ہیں۔ عامر درویش کی یہ خوبصورت نظم بھی ضرور چند دنوں میں اپنے قارئیں سے انہی کالموں میں شیئر کروں گا۔ لندن میں مجھے جب بھی موقع ملے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ برٹش ہسٹری میوزیم ، نیچرل ہسٹری میوزیم اور سائنس میوزیم نہ جائوں۔ ایک مرتبہ تو امریکہ کے سفر کے دوران میں صرف ایک دن کے لیے لندن اِسی لیے رکا تھا کہ کچھ وقت ان میوزیمز میں گزار کر ، نیچر، کائنات، تاریخ، سائنس اور زندگی کے اسرار کو جاننے کی کوشش کرنے والوں اور اس کی اہمیت سمجھنے والوں کو داد دی جا سکے۔ لندن کی یہی علمی وثقافتی سرگرمیاں اور کشش لندن کو کنکریٹ سے تعمیر کیے گئے کئی جدید شہروں سے ممتاز ومنفرد کرتی ہیں۔ لندن ہو کہ لاہور‘ استنبول ہو کہ وینس‘ شہر کنکریٹ کی عمارتوں سے نہیں اپنی تاریخ کو محفوظ رکھنے سے ہی انفرادیت وعظمت حاصل کیا کرتے ہیں۔ بے پناہ مال بنا لینے والے کسی کارخانہ دار اور دنیاوی لحاظ سے معمولی تنخواہ پانے والے کسی پروفیسر کے درمیان بھی اسی قسم کا فرق پایا جاتا ہے۔ نیچرل ہسٹری میوزیم میں پاکستانی طلبہ کا گروپ دیکھ کر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی، کم سے کم آٹھ دس بار مجھے نیچرل ہسٹری میوزیم آنے کا اتفاق ہو چکا ہے‘ پہلی بار اتنی تعداد میں پاکستانی طلبہ کو تاریخ ، نیچر کائنات اور انسانی ارتقاء میں دلچسپی لیتے دیکھ کر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ آٹھ کے قریب نوجوانوں کے اس گروپ کی دعوت پر ہم سب وہیں ایک کیفے میں بیٹھ گئے۔ وہ سب کے سب آنکھوں میں بے پناہ خواب لیے لندن آئے تھے۔ ایسے خواب جن کا بیان نہ کوئی شاعر کر سکتا ہے نہ کوئی مصور ان خوابوں کی تصویر کشی کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مشین ان خوابوں کا شمار کر سکتی ہے ۔ نہ دکھا پائے گا تو خواب مری آنکھوں کے اب بھی کہتا ہوں مصور مِرا چہرہ نہ بنا وہ سب لندن میں پڑھ رہے تھے لیکن ان کے دل ہروقت پاکستان میں اور پاکستان کے لیے دھڑک رہے تھے۔ اپنے وطن سے دور وطن کیلئے کچھ کرنے کو بے چین مگر اپنے راہنمائوں سے شدید نالاں شدید ناراض‘ اتنے ناراض کہ ان میں سے ایک جذباتی نوجوان‘ جس کا نام غالباً اشعر تھا‘ بار بار میز پر ہاتھ مار کر رہنمائوں‘ سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور دیگر شعبوں کے اہم لوگوں کے سخت احتساب کا مطالبہ کرتا رہا۔ تمام پاکستانی طلباء اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کے مسائل کی اصل جڑ خود پاکستان کے رہنما ہیں۔ ان کی ہوس، لالچ، خود غرضی، اقرباء پروری اور موروثی سیاست کے ذریعے جمہوریت کے نام پر آمریت کے تسلط نے پاکستان جیسے بے پناہ پوٹینشل کے حامل ملک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ مٹھی بھر اشرافیہ نے کروڑوں انسانوں کو اپنی چالاکیوں اور جمہوری آمریتوں سے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ گفتگو کرتے کرتے اچانک ان کے ایک طالبعلم ساتھی کا ذکر آیا تو ان میں سے کچھ کی آنکھوں میں آنسو لہرانے لگے۔ مجھے تجسس پیدا ہوا، تفصیل جانی تو اس پاکستانی طالبعلم کے ساتھ ہونے والے سلوک اور حادثے نے مجھے بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو وطن واپس آکر وطن کی خدمت کرنے کی غرض سے برطانیہ پڑھنے گیا تھا لیکن صرف پاکستانی ہونے کی وجہ سے اسے کیا کچھ جھیلنا پڑا۔ ایسٹ لندن کی ایک یونیورسٹی میں کافی عرصے سے پڑھنے والا یہ پاکستانی طالبعلم جب اپنے وطن پاکستان میں چھٹیاں گزار کر خوشی خوشی اپنے ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ واپس لوٹا تو ائیرپورٹ پر……!!! (آخری حصہ اگلے کالم میں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved