وزیراعظم میاں محمد نواز شریف امریکہ کے چار روزہ سرکاری دورے کے لئے پاکستان سے روانہ ہو چکے ہیں،اپنا منصب سنبھالنے کے بعد یہ اُن کی پہلی ’’یاترا‘‘ ہو گی۔ چند ہفتے پہلے بھی وہ امریکہ گئے تھے، لیکن اس کا مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ یہاں انہوں نے ایک دھواں دھار تقریر کی اور مختلف عالمی رہنمائوں سے تبادلۂ خیال کا موقع حاصل کیا۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ سے باقاعدہ ملاقات کا اہتمام بھی ہو گیا اور دونوں رہنما پاک بھارت جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کے بارے میں غورو خوض کرتے رہے، توقعات کے عین مطابق کوئی بڑا فیصلہ تو نہیں ہوا، لیکن ایک دوسرے سے ملنے کے فیصلے ہی کو بڑا سمجھ لیا گیا۔ بھارت میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، بی جے پی کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے حوالے سے فضا کو آتشیں بنا رکھا ہے، ایسے میں من موہن سنگھ سے کسی نتیجہ خیز بات چیت کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔ کئی روز تک تو بھارت کی طرف سے ملاقات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں واضح بات کہنے سے گریز کیا جاتا رہا، لیکن بالآخر نواز شریف کا ’’جذبہ ٔ صادق‘‘ رنگ لے آیا اور من موہن سنگھ کو ملاقات کرنا پڑی … اس کے بعد دونوں رہنمائوں نے بنفس نفیس میڈیا سے گفتگو کرنے کے بجائے، اپنے اپنے ترجمانوں کے سپرد معاملہ کر دیا کہ وہ الگ الگ بیٹھ کر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کر دیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ترجمانی ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے کی، جبکہ پاکستان میں یہ شرف خالص بابو صاحب (یعنی سیکرٹری خارجہ) کے حصے میں آیا۔ دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر کوئی ایک بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا یہ سمجھئے کہ جسارت نہیں کر سکے۔ کچھ نہ ہونے کے باوجود یہ بہرحال ہو گیا کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشن کو کشمیر کی جنگ بندی لائن پر حالات معمول پر لانے کی ہدایت کر دی گئی۔ یہ اور بات کہ اس ہدایت کے باوجود وہ کچھ ہو رہا ہے، جو ہدایت کے بغیر بھی ہو رہا تھا اور ابھی تک آگ اور خون کا کھیل ختم نہیں کیا جا سکا۔ گولیاں برس رہی ہیں اور بے گناہ نشانہ بن رہے ہیں۔ امریکی صدر سے من موہن سنگھ کی ملاقات میں پاک بھارت تعلقات زیر بحث آئے اور من موہن سنگھ نے دل کے پھپھولے پھوڑ لئے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنا دل کھول کر نہ دکھا سکے، اس کے لئے انہیں کم و بیش چار ہفتے انتظار کرنا تھا۔ میاں نواز شریف صدر اوبامہ کے علاوہ امریکی انتظامیہ کے بڑے عہدیداروں سے بھی ملیں گے اور توقع یہی ہے کہ اِن ملاقاتوں میں ہر وہ چیز زیر بحث آئے گی، جس کا تعلق پاکستان، بھارت، افغانستان اور امریکہ سے ہے۔ دفاعی امور سے لے کر معاشی مشکلات تک اور دہشت گردی سے لے کر امریکی فوجوں کے انخلاء تک، کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں ہے جسے خطے کی مجموعی صورت حال سے الگ کیا جا سکے اور جس سے امریکہ اپنی آنکھیں بند کر لے، یا پاکستان اسے محض اپنا داخلی معاملہ قرار دے لے۔ امریکہ اور نیٹو کی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کے لئے جذباتی، نفسیاتی اور سیاسی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ معاشی الجھنوں نے بھی اسے اُلجھایا ہے اور داخلی عدم استحکام بھی راستے کا پتھر بن گیا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو بھی اعتماد یا بد اعتمادی موجود ہے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، کہا گیا ہے اور کہا جاتا رہے گا، لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قطع تعلق کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ امریکہ کو اپنی فوج اور افغانستان میں موجود اسلحہ پاکستان کے راستے واپس لے جانا ہے اور پاکستان کو افغانستان، بھارت اور ایران کا ہمسایہ ہونے کے حوالے سے بہرحال اہم کردار ادا کرنا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے رفقا کی صلاحیتوں کا امتحان یہ ہو گا کہ وہ پاکستان کی مشکلات دور کرنے کے لئے کس طرح کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور امریکہ کی الجھنوں کو سلجھانے کا کس حد تک یقین دلا سکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام ہی سے امریکہ کے ساتھ جو تعلق استوار ہوا، اس کے بارے میں اور جو کچھ بھی کہا جائے یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ یہ انتہائی قریبی تھا۔ اعتماد کے رشتے قائم رہے تو معجزے کر دکھائے گئے، جبکہ بے اعتمادی کی لگائی ہوئی چوٹیں اب تک سہلائی جا رہی ہیں۔ اُسامہ بن لادن کی تلاش میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے کی جانے والی یلغار نے امریکہ اور پاکستان کے تعلق میں ایسی دراڑیں پیدا کر دیں جو اس سے پہلے موجود نہیں تھیں۔ پاکستان کے اندر یکسوئی ختم ہوئی اور ہماری اپنی سوسائٹی فکری اور جذباتی طور پر تقسیم ہوگئی۔ اس سے پہلے پاک امریکہ تعلقات کی حمایت یا مخالفت کبھی ہمارا اس طرح کا مسئلہ نہیں بنی تھی۔ پاکستان کے ساتھ گزشتہ بارہ برس میں جو کچھ ہوا ہے، اسے برداشت کرنا اہل پاکستان ہی کا حوصلہ ہے۔ ہزاروں لاشیں انہوں نے اٹھائی ہیں اور اپنے جسد ِ خاکی پر اَن گنت زخم کھائے ہیں۔ پاکستان کا کون سا ادارہ اور کون سا شہر ایسا ہے جو دہشت گردی سے محفوظ رہا ہو؟ گزشتہ چار دہائیوں میں پاکستان کی دستوری ہیئت کو اتنا بڑا چیلنج درپیش نہیں ہوا، جس کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ اور پاکستان میں سے ایک بہت بڑا اور ایک اُس کے مقابلے میں چھوٹا سہی، لیکن تاریخ نے بار بار اس حقیقت کا مشاہدہ کیا ہے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات ان کے قد اور جسم سے زیادہ ان کی ضروریات اور ایک دوسرے سے وابستہ مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ ہاتھی پہاڑ تو کیا درخت پر بھی نہیں چڑھ سکتا، جبکہ گلہری بآسانی ہزاروں چھلانگیں لگا سکتی ہے، درخت تو کیا پہاڑ پر دوڑکر چڑھ سکتی ہے، شیر بل میں نہیں گھس سکتا، جبکہ چوہے کو بل میں سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا ز ور لگانا پڑتا ہے۔ مچھلی کو دریا پار کرنے کے لئے کسی پُل کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ رستم ِ زماں کے لئے اس میں ایک قدم چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved