مولانا فضل الرحمن کا شہباز شریف صاحب سے گلہ بجا ہے۔ جنابِ شہباز شریف ضرور ایک اچھے منتظم ہوں گے‘ ماضی میں انہوں نے پنجاب کی حکومت کو اچھی طرح چلایا ہے‘ ہر وقت متحرک اور فعال نظر آتے تھے اور لگتا تھا: اُن کی شخصیت 'مجموعۂ کمالات‘ ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے: 'آزمائش کے وقت کوئی شخص عزت پاتا ہے یا بے توقیر ہو جاتا ہے‘۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اُن کی شخصیت کے کمزور پہلو سامنے آئے۔ 'ادارۂ سہولت کاری برائے خصوصی سرمایہ کاری (ایس آئی ایف سی)‘ کے قیام اور تحرُّک کی بابت آرمی چیف کو اس کا اعزاز دینا تو مناسب معلوم ہوتا ہے‘ لیکن ایک چھوٹی سی سڑک یا پُل کا افتتاح کرتے وقت اُس کا کریڈٹ بھی سپہ سالار کو دینا عجب معلوم ہوتا ہے۔ شاید وہ خود بھی اسے پسند نہ کرتے ہوں‘ کیونکہ اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایک سڑک یا پُل بھی اُن کی سرپرستی اور منظوری کے بغیر وزیراعظم یا حکومتِ وقت نہیں بنا سکتے۔
مولانا پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کا حُجم کم ہونے کے باوجود گزشتہ حکومت میں ایک توانا اور مؤثر شراکت دار تھے‘ حتیٰ کہ جب بندیال کورٹ نے پوری سیاست اور نظامِ حکومت کو ہاتھ میں لینا چاہا تو یہ مولانا ہی تھے، جنہوں نے سپریم کورٹ کے قریب ایک بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کر کے عدالت کو توانا پیغام دیا اور اس کے بعد بندیال کورٹ کسی حد تک سہم کر چلتی رہی۔ اگرچہ اُس کا انداز ذوقؔ کے اس شعر کا مصداق بنا رہا: 'اے ذوقؔ دیکھ‘ دُخترِ رَز کو نہ منہ لگا ؍ چھٹتی نہیں ہے منہ سے‘ یہ کافر لگی ہوئی۔ نوٹ: یہاں شاعر نے شراب کو 'دُخترِ رَز‘ یعنی انگور کی بیٹی کہا ہے اور ہم نے اسے منصِبِ عدالت پر بیٹھ کر سیاست کھیلنے سے استعارہ مراد لیا ہے۔
جنابِ شہباز شریف کے وزارتِ عُظمیٰ کے دور میں دینی مدارس و جامعات کے رجسٹریشن کی بابت اُن سے مولانا فضل الرحمن نے بات کی‘ انہوں نے کہا: 'پہلے اسے وزارتِ مذہبی امور دیکھ لے اور اپنی سفارشات مجھے بھیجے‘ اُس وقت کے وزیرِ مذہبی امور مفتی عبدالشکور صاحب نے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اور متعلقہ اداروں کا اجلاس بلایا اور متفقہ سفارشات وزیراعظم کو بھیجیں۔ وزیراعظم کے ساتھ ہمارے دو اجلاس ہوئے‘ وزیراعظم نے وزارتِ مذہبی امور کی تجویز سے اتفاق کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا‘ اُس کے بعد دوبارہ اُن کی صدارت میں اجلاس ہوا اور اُس کے فیصلے پر بھی آخرِ کار عمل درآمد نہ ہو سکا۔ وہاں ہم نے یہ منظر دیکھا: وفاقی وزیرِ تعلیم رانا تنویر حسین اپنی جماعت کے صدر اور اپنے وزیراعظم کے موقف کی حمایت کرنے کے بجائے وہ اس موقف کی حمایت اور ترجمانی کرنے لگے جو ادارے کے ایک افسر نے کراچی سے جا کر انہیں بریف کیا تھا۔ صرف رانا ثناء اللہ صاحب نے واضح موقف اختیار کیا؛ چنانچہ وزیراعظم کو کہنا پڑا: 'ہمارے اپنے لوگ ہمارے طے شدہ موقف کے خلاف بات کر رہے ہیں‘ الغرض اس فیصلہ کُن اجلاس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا کیونکہ رانا تنویر حسین نے 'رجالِ غیب‘ سے جو بریفنگ لی تھی‘ اُس کے تحت کہا: 'ہمارے ساتھ تیرہ ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں‘ میں نے اُن سے کہا: رانا صاحب! آپ کا حلقۂ انتخاب ضلع شیخوپورہ ہے‘ آئیے! یہیں سے اٹھ کر جاتے ہیں‘ ہم آپ کو بتائیں گے: ہمارے ساتھ رجسٹرڈ مدارس برسرِ زمین کون کون سے ہیں اور اُن میں طلبہ و طالبات کی تعداد کیا ہے‘ آپ بھی اپنے رجسٹرڈ مدارس ہمیں ضرور دکھائیے گا۔ اگر وہ سب مل کر ہمارے ایک ادارے جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کے برابر ہو جائیں تو ہم آپ کو اعزازی شیلڈ دیں گے مگر انہوں نے میری پیشکش کو قبول نہ کیا۔ ظاہر ہے: جو نظام فائلوں پر چل رہا ہو اور برسرِ زمین سب کچھ اس کے برعکس ہو تو وہ کسی کو کیا دکھائیں گے۔ وزارتِ تعلیم میں مدارس کیلئے جو سیل بنایا گیا ہے: سوائے اس کے کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور چند لوگوں کو نوکری مل گئی ہے‘ باقی اُس کا کوئی کام نہیں ہے‘ لیکن اس کیلئے یقینا بجٹ میں حصہ مختص ہو گا۔ مزید یہ کہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ جو مدارس رجسٹرڈ ہیں‘ ایک بار رجسٹریشن کے بعد اُس سیل کا ان مدارس سے کوئی تعلق اور لینا دینا نہیں ہے۔ پس اس سیل کی کارکردگی کیا ہے: 'کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘۔
مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے آخری ایام میں پھر کوشش کی کہ وزیراعظم اپنا وعدہ پورا کریں۔ ہمیں تو نہیں بلایا گیا لیکن مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو بلایا گیا۔ انہوں نے اداروں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں‘ آخرِکار ایک فارمولے پر اتفاق ہو گیا۔ پھر اُن سے کہا گیا: اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی باقی رکن تنظیمات سے بھی اس کی منظوری لے لیں۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے مجھے مسوّدۂ قانون بھیجا‘ اس کے باوجود کہ مجھے اس کے بعض مندرجات سے اتفاق نہیں تھا‘ میں نے تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کے صدر اور اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اس کی توثیق کی تاکہ حجت پوری ہو جائے۔ لیکن اس کے باوجود کہ آخری دنوں میں درجنوں نامعلوم یونیورسٹیوں کے چارٹر پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے‘ نیز جلد بازی میں بہت سے قوانین منظور کیے گئے مگر وزیراعظم اس قانون کو پاس نہ کرا سکے اور اُن کے سارے عہد و پیمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی اپنے حلقے میں یقینا سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ہمیں خود انتہائی افسوس ہوا۔ اب جو وزیراعظم اتنا کمزور ثابت ہو‘ وہ کسی اور کے سائے تلے تو کام کر سکتا ہے لیکن اپنی ترجیحات پر اُس سے کام کرنے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ پس مولانا کے اس تجربے کے ہم بھی شاہد ہیں حالانکہ جب کسی اور کے کہنے پر وہ درجنوں قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرا سکتے تھے تو انہیں اپنے قول و قرار کا بھی پاس رکھنا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن کو جو تلخ تجربہ ہوا‘ شاید مسلم لیگ (ن) کے بہت سے لوگوں کو بھی اس کا علم نہیں ہو گا۔
اس کے برعکس پی ڈی ایم حکومت کے آخری ایام میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کو متنبہ کیا: اگر سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کیلئے رقوم واگزار نہیں کی گئیں تو ہم حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے‘ تو وزیراعظم نے جاتے جاتے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کیلئے پچیس ارب روپے کی رقم جاری کر دی، سو دبائو میں تو وزیراعظم کو کام کرنا پڑتے تھے لیکن باوقار انداز میں اعتماد کرتے ہوئے جو شراکت دار اُن سے تقاضا کر رہے تھے‘ اُس کا حشر آپ کے سامنے ہے۔اس وقت وفاقی حکومت کے جس تخت پر شہباز شریف صاحب بطورِ وزیراعظم متمکن ہونے کی تیاری فرما رہے ہیں‘ وہ کانٹوں کی سیج ہے۔ بہت سے غیر مقبول اور ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے۔ان میں آئی ایم ایف کے درِ دولت پہ سجدہ ریز ہونا بھی شامل ہے۔ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پیکیج کیلئے درخواست پہلے سے تیار ہے۔ گویا: 'سرمنڈاتے ہی اولے پڑیں گے‘۔ اُن کی سخت شرائط کے آگے سرنگوں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور ان شرائط کی تکمیل کے بعد مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گا۔ قومی معیشت پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کی نجکاری بھی اہم مسئلہ ہے۔ عام طور پر جو جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہوں‘ وہ اس کی مخالفت کرتی ہیں، نیز مقتدرہ کے لیے اٹھارہویں ترمیم بھی مسئلہ ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے: تینوں بڑی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے اور تینوں مل کر قومی مفاد میں مشکل اور غیر مقبول فیصلے کریں اور اُس کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔ خان صاحب نے بھی اپنے ترجمانوں کے ذریعے پہلی بار 'مفاہمت وصداقت‘ کے فارمولے کا اشارہ دیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ یہیں سے آغاز کر دیا جائے۔ ہو سکتا ہے: کوئی جماعت کہے: ہم یہ ملامت اپنے سر کیوں لیں‘ تو حضور والا! جب آپ اُس ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں جو سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ بدترین اقتصادی بحران سے بھی دوچار ہے‘ تو اس کی ڈوبتی ہوئی نیّا کو کنارے لگانا اور اقتصادی بدحالی کے منجدھار سے نکالنا بھی آپ سب کی ذمہ داری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved