تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-02-2024

تنہائی کے گیارہ برس

ایک دفعہ پھر گائوں کا سفر درپیش تھا۔ نعیم بھائی نے گیارہ برس پہلے اسلام آباد میں ہمارے ہاتھوں میں جان دی۔ پولی کلینک ایمرجنسی میں ڈیوٹی ڈاکٹر اُن کے دل کو بار بار ہاتھوں سے دبا کر دوبارہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کررہے تھے۔ زندگی میں کبھی نہ سوچا تھا کہ نعیم بھائی بھی یوں اچانک چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔لیکن اَنہونی ہو چکی تھی۔
اُن کی موت کے بعد چھ ماہ مشکل ترین تھے۔ شاید ہی کسی رات سکون سے سو پایا۔ گہری خاموشی اور چڑچڑاہٹ۔ دل کرتا کوئی بات نہ کرے۔ کوئی کچھ نہ کہے۔ مجھ سے تعزیت بھی نہ کرے۔ بس اکیلا چھوڑ دیں۔ فرسٹریشن اور بے بسی محسوس کی۔ چھ ماہ بعد انہیں خواب میں دیکھا۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس۔ میں نے شکایت کی‘گلہ کیا اور پوچھا: آپ ہمارے بغیر وہاں خوش ہیں؟مجھے امید تھی وہ جواب دیں گے تم لوگوں کے بغیر میں کیسے خوش ہوسکتا ہوں‘ لیکن میری توقعات کے برعکس وہ اپنی سٹالن سٹائل مونچھوں کے ساتھ مسکرائے۔ مجھے دیکھا اور صرف سر ہلا دیا جس کا مطلب تھا وہ جہاں بھی ہیں خوش ہیں۔اس خواب کے بعد ایک عجیب ٹھہراؤ اور سکون پیدا ہوا اور مجھے لگا کہ وہ جہاں ہیں خوش ہیں۔چھ ماہ بعد میں نے پہلی دفعہ سکون کی نیند لی۔نعیم بھائی کا ہم سب پرامیج ایک گاڈفادر جیسا تھا۔ ان کے اندر جتنی محبت تھی اتنا مزاج میں جارحانہ پن بھی تھا۔شاید میڈیکل کالج لائف کا اثر تھا جہاں وہ دی ایگلزکے پارٹی چیئرمین رہے۔ سٹوڈنٹ لائف بہت دھواں دھار گزری۔کئی دفعہ کالج سے نکالے گئے۔ گھر اماں کو پتہ نہ چلتا۔ سلیم بھائی ہی یہ معاملات چپکے سے ہینڈل کرتے۔ ایک دفعہ بابا کو بھی کالج پرنسپل نے بلایا۔یقینا بابا کیلئے تکلیف دہ صورتحال ہوگی کہ خاندان بلکہ شاید گائوں کا پہلا لڑکا ڈاکٹر بننے گیا تھا اور وہ ڈاکٹر کی بجائے سٹوڈنٹ لیڈر بن کر لڑائیوں جھگڑوں میں پڑ گیا تھا۔میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک ڈاکٹر بنانے کیلئے پورا خاندان کیسے قربانیاں دیتا ہے۔ ذرا اندازہ کریں 1970ء کی دہائی کے وسط میں ایک کسان کا بیٹا گائوں سے دو ڈھائی سو کلو میٹر دور بہاولپور میڈیکل کالج پڑھ رہا ہو‘ ہوسٹل رہتا ہو تو اُسے پڑھانا کتنا مشکل ہوگا۔وہ تو اللہ جنت میں جگہ دے ہمارے خالو نواز ملک کو جنہوں نے سلیم بھائی کی جاب کرائی‘پھر یوسف بھائی کی جاب ہوئی اور کچھ سالانہ گندم ‘ کاٹن یا جانور بیچ کر خرچہ یا فیس پوری کی جاتی تھی۔
نعیم بھائی کی زندگی پر پورا ناول لکھا جا سکتا تھا۔بہاولپور میں جب پہلی دفعہ گیا تو کوئی انہیں ڈاکٹر نعیم کے نام سے نہیں جانتا تھا۔سب ڈاکٹر کلاسرا کہتے تھے۔ آتے جاتے سب انہیں احتراماً سلام کرتے۔ہمیں کہتے ‘تو اچھا آپ ڈاکٹر کلاسرا کے بھائی ہیں۔اُن کی آنکھوں میں کچھ ڈر تو کچھ احترام جھلک رہا ہوتا۔ پہلے تو بڑا اچھا لگتا تھا کہ بڑے بھائی کا بڑا نام ہے۔ مجھے اُس وقت تک ان کی لائف سٹوری کا علم نہ تھا کہ انہوں نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں بہاولپور میڈیکل کالج اور ہسپتال میں کیا نام بنایا تھا۔ دی ایگلز کے فورم سے کیا کیا جنگیں لڑ چکے تھے۔ ہم تو اُس نعیم بھائی کو جانتے تھے جو رات گئے بہاولپور سے گاؤں آتے۔گرمیوں میں سب سوئے ہوتے تو وہ بھی اماں سے لپٹ کر سو جاتے۔اماں کی کچھ دیر بعد اچانک آنکھ کھلتی تو ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی۔ یا پھر سردیوں کی کسی سرد رات دروازے کی کنڈی بجتی تو سب جاگ جاتے کہ ایسی مخصوص کنڈی سال میں ایک دفعہ ہی بجتی تھی اور وہ نعیم بھائی ہوتے تھے۔ اماں نے جاگ جانا۔ رات کو ہی چولہا گرم کرنا اور ہم سب بھائی بہن جا کر اُن سے لپٹ جاتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔وہ اپنے کالج اور دوستوں کے قصے سناتے۔ رائو ابوبکر‘ ڈاکٹر حافظ‘ ڈیرہ غازی خان کے ڈاکٹر عابد بھٹی‘ نعیم پرنس یا اپنے پروفیسرز کے قصے کہانیاں۔ وہ خود ایک قدیم جنگجو تھے۔ پھر ان کی زندگی میں اچانک تبدیلیاں آئیں‘ جب بابا فوت ہوئے۔ انہوں نے پڑھائی کو سنجیدگی سے لیا۔ اب انہیں پاس ہونا تھا۔ اب زمینداری اماں کے پاس تھی جو خود روزانہ صبح سویرے اُٹھ کر زمینوں پر جاتیں۔ شام کو گھر لوٹتیں اور ہم سب بچوں پر سختی تھی کہ ہم سب نے بس پڑھنا ہے۔ مجھ پر سب سے زیادہ سختی تھی کہ کہیں یہ نہ بگڑ جائے جبکہ میرے اوپر سب سے بڑا دبائو تھا کہ اگر میں نے ہر سال اچھے نمبروں سے کلاس پاس نہ کی تو میری عزت نہ گھر میں رہے گی نہ سکول میں۔سیلف ریسپکٹ کا یہ احساس ہمیشہ زندگی میں میرے کام آیا۔
نعیم بھائی نے ہم سب پر توجہ دینا شروع کی۔ ہم بھائیوں نے اُن کے بہاولپور ہوسٹل میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنی۔وہیں میں نے لیو ٹالسٹائی کا ناول''وار اینڈ پیس‘‘ ختم کیا اور نعیم بھائی کے دوست ڈاکٹر حسین جعفری کی ٹانگیں دبا کر اُن سے اس ناول کے چند کرداروں کو سمجھا تھا۔
جو لوگ نعیم بھائی کو سٹوڈنٹ لائف سے جانتے تھے وہ بعد میں حیران ہوئے کہ ان کے اندر اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی کہ وہ ایک سخت گیر لڑاکے سٹوڈنٹ سے اب ایک ذمہ دار بڑے بھائی بن گئے۔ خاندان کو چھوڑیں وہ پورے علاقے کے غریبوں کیلئے سراپا محبت بنے۔گائوں یا علاقے کا کوئی بندہ ہوتا اُسے کرایہ جیب سے دے کر بہاولپور بلاتے‘ اپنے گھر رکھتے‘ آنکھوں کا آپریشن کرتے‘ واپسی کا کرایہ بھی دیتے۔ جب بھی میں نے بہاولپور جانا انہیں آئوٹ ڈور میں غریبوں میں گھرے ہوئے دیکھنا۔ ہر مریض انہیں ڈھونڈ رہا ہوتا۔ وہ ان سے اس طرح ملتے جیسے وہ ان کے سگے رشتہ دار ہوں‘ پرانے دوست ہوں۔ عورت ہو یا مرد سب کا احترام کرتے۔ انہی غریبوں میں خوش رہتے۔ ایک درویش۔ایک ملنگ ٹائپ انسان۔ میری بیوی اکثر کہتی‘ نعیم بھائی آپ کلینک کیوں نہیں کھولتے۔ فیس لیا کریں۔وہ ہنس کر کہتے‘ ان غریبوں سے فیسیں لوں‘ ہاتھ پھیلاؤں کہ اس پر سو دو سو روپے رکھتے جائو۔ ڈاکٹری کا پیشہ مجھے ہمیشہ سے پسند تھا۔یہ میری ہابی ہے۔ حکومت جتنی تنخواہ دیتی ہے اس میں اچھا گزارا ہو رہا ہے۔ اس تنخواہ سے بھائیوں کو پڑھا دیا۔ یہ غریب لوگ کوئی انڈہ ‘ کوئی مرغی تو کوئی بکری بیچ کر شہر ہسپتال آپریشن کرانے آتے ہیں اور میں ہاتھ پھیلا کر بیٹھ جائوں کہ ادھر پیسے رکھو۔ ساری عمر لوگوں میں جیب سے پیسے بانٹے‘ کسی سے ایک روپیہ فیس نہ لی۔
شادی کے بعد سردیوں کے موسم میں عید پر گائوں میں اکٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد میری بیوی کچھ پریشان کمرے میں آئی۔ بولی‘ یہ نعیم بھائی کیسے بندے ہیں‘ اماں کی چھوٹی سی کوٹھی میں اس وقت پورا گائوں اکٹھا ہے۔ سگریٹ اور حقے کا دھواں ہے‘ گائوں کے لوگ‘ کمہار‘ نائی‘ میراثی‘ کٹانے سب جمع ہیں۔ گپیں لگ رہی ہیں۔ میں نے کہا:محترمہ یہ ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں۔ وہ انہی لوگوں میں خوش رہتے ہیں۔ یہ اکبر بادشاہ کا دربار ہے جہاں سب برابر ہیں۔ کوئی قوم نسل نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔نعیم بھائی کو بھاشن مت دینا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ بس وہ ایسے ہی ہیں۔
نعیم بھائی کی وفات کے بعد ایک دن گائوں گیا تو غریب کٹانوں کی بستی سے ایک لڑکی ملنے آئی۔ ہاتھوں میں دیسی مرغی تھی۔کہنے لگی: سنا ہے تم ڈاک دار ( ڈاکٹر) کے بھائی ہو۔ اس نے میرے دو نابینا بھائیوں کی آنکھیں بہاولپور لے جا کر آپریشن سے ٹھیک کی تھیں۔میرے دونوں بھائیوں اور اماں بابا کو ایک ماہ اپنے گھر رکھا تھا۔ انہیں آنے جانے کا کرایہ بھی دیا تھا۔میرے بھائیوں کو آنکھیں دیں۔ وہ دونوں اب دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔وہ جب گائوں آتے تھے تو ہم انہیں گھر بلا کر دیسی مرغی کھلاتے تھے۔ ہمارا ڈاک دار تو نہیں رہا‘اب تم کھایا کرو۔ بابا اماں نے مرغی بھیجی ہے کہ جا کر اس کے بھائی کو دے آئو۔ تم تو ہمارے گھر نہیں آئو گے کہ ہم غریب لوگ ہیں۔ تم گھر کھا لو۔ ہمیں لگے گا ڈاک دار نے کھا لی۔اس نے ہاتھوں میں پکڑی مرغی کو وہیں زمین پر چھوڑا۔واپس مڑی۔ اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھیں اور حویلی کا دروازہ عبور کر گئی۔ہماری تنہائی کا بارہواں سال شروع ہوگیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved