تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-10-2013

گائوں کے چند اداس کردار

جب سے نعیم بھائی فوت ہوئے ہیں،گائوں جانے کا لطف ختم ہوگیا ہے۔ بچوں نے بھی جانے سے انکار کر دیا کہ تایا ابو کے بغیر وہاں کیا کریں گے۔ ہر عید سے پہلے بچوں اور ان کے تایا ابو کے درمیان فون پر رابطے شروع ہوجاتے۔ بچے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تایا ابو کے لیے لندن سے چیزیں لاتے جو خود وہ انہیں دیتے۔ ہر عید سے دو دن پہلے ہم اسلام آباد سے نکلتے اور رات گئے بہاولپور میں ڈاکٹرز کالونی میں ان کے گھر پہنچتے۔ پھر وہ ہوتے، بچے اور ہنگامہ۔ اگلے دن انہیں گاڑی میں بٹھا کر ملتان سے ہوتے ہوئے گائوں جیسل کلاسرا (لیہ) جا پہنچتے اور واپسی پر انہیں ملتان میں ماموں ظفر کے گھر چھوڑ کر ہم اسلام آباد لوٹ آتے۔ بچوں سے کہا چلو چلتے ہیں تو وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے اصرار نہیں کیا کہ میری آنکھوں سے وہ منظر نہیں ہٹتا جب وہ دونوں قبر پر بیٹھے رو رہے تھے۔ اکیلے گاڑی نکالی کیونکہ دوسرے بھائی بہنوں کو نعیم کے بعد کسی کی ضرورت ہے‘ یہ اور بات ہے کہ اب گائوں کے گھر سے زیادہ دل قبرستان میں لگتا ہے جہاں اماں بابا کے قدمو ں میں نعیم بھائی جا لیٹے ہیں ۔ لوگ گائوں سے خوش لوٹتے ہیں‘ میں دل پر بوجھ لے کر واپس آیا ہوں۔ نعیم بھائی کی زندگی میں کبھی کسی سے نہیں ملنا پڑتا تھا‘ وہی سب کی آنکھوں کا مرکز ہوتے۔ گائوں میں ایک دن میری بیوی پریشان میرے پاس آئی کہ گائوں کا گھر تو سارے قصائیوں، کمہاروں، میراثیوں، ماچھیوں کی عورتوں اور مردوں سے بھرا ہوا ہے اور درمیان میں نعیم بھائی گپ شپ کرتے ہوئے سگریٹ پی رہے ہیں ۔ بولی‘ تم منع کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا یہ جرأت تو میں خواب میں بھی نہیں کر سکتا ۔ تم ان کی لاڈلی بہو ہو، جائو کوشش کر کے دیکھ لو‘ ویسے یہ نعیم بھائی کا پرانا دربار ہے‘ ہم بچپن سے اس کے عادی ہیں‘ ان کے دربار میں سب برابر ہیں‘ وہ انہی میں خوش رہتے ہیں۔ ان مصیبت کے ماروں کا کچھ علاج دوائی سے کرتے ہیں، کسی کو پیسے دیتے ہیں کہ بہاولپور آ کر آپریشن کرانا ۔غریب پورا سال ان کا انتظار کرتے کہ ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو ان کی باتیں سنیں گے۔ بیوی کا شکریہ کہ وہ چپ ہوگئی۔ اب مجھے نعیم کا کردار ادا کرنا تھا ۔ صبح سے شام تک خاموشی سے ان کے دکھوں کی کہانیاں سنتا رہا ۔ اپنے بڑے بھائی یوسف سے درخواست کی کہ نعیم بھائی کی گریجوایٹی سے بننے والے ٹرسٹ جلدی شروع کریں تاکہ ان کا پیسہ غریب لوگوں پر خرچ ہو۔ وہ ہم سے زیادہ ان کی وفات پر روئے تھے‘ اس لیے کہ ہم تو کچھ بھائی بقید حیات ہیں لیکن ان کے لیے ڈاکٹر نعیم ایک ہی تھا ۔ نعیم بھائی کے کہنے پر ایک بوڑھی بھکارن کے بچے کو مناسب نوکری دلوائی جس نے بھیک مانگ کر اپنے اکلوتے بچے کو بی اے کرایا تھا ۔ زندگی کی آخری رات میرے ہاتھ میں اس کا سی وی دے کر کہا‘ یار روفی، اگر اس عورت کے بیٹے کی نوکری کا بندوبست ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ایک غریب کمہار کے ایف اے پاس بیٹے کی نوکری کرائی تو پورے گائوں کے غریبوں کو احساس ہوا کہ شاید کچھ ان کی زندگیوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔ انسان دوست بڑے افسر کا شکریہ کہ میری عزت رکھ لی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ گائوں میں اتنی تبدیلی آچکی ہے کہ کمہاروں، میراثیوں اور قصائیوں کے بچوں نے بھی میٹرک ، ایف اے اور بی اے کر رکھا ہے۔ میں پندرہ ایسے بچوں کے درمیان گھرا بیٹھا تھا جنہیں غریب ماں باپ نے محنت مزدوری کر کے کسی نہ کسی طرح پڑھا دیا تھا ۔ مجھے علم تھا کہ میرے گائوں کے کچھ معززین پہلے ہی اس بات پر ناراض تھے کہ بھکارن اور کمہار کے بچوں کو کیوں نوکری مل گئی؟ سب نے بتایا کہ ڈاکٹر نعیم نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روفی کو کہہ کر سب کی نوکری دلائیں گے۔ آج مجھے اپنے مرحوم بھائی کا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں نعیم بھائی ان غریبوں کے بچوں کو پڑھانے کے لیے یقینا یہ وعدے کر چکے ہوں گے۔ انہیں معلوم تھا کہ میں انہیں انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ تو پھر کہاں سے نوکریاں لائوں؟ دو تین کو تو کہیں نہ کہیں سے نوکریاں دلوا دی تھیں ؟ اب ان پندرہ بچوں کا کیا کروں؟ ان سب کے چہروں پر امید کی کرن دیکھ کر ڈیپریشن ہوا اور سوچا‘ انہیں پڑھا کر ان کے والدین کو کیا ملا ہے ؟ وہ زمینداروں کے بچوں کو سکولوں میں پڑھتے اور نوکریاں کرتے دیکھ کر سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کے بچے بھی ان کی طرح عزت کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان پڑھ تھے تو کوئی کام کر لیتے‘ اب کیا کریں گے؟ کس امید پر ان غریبوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا؟ گائوں کا میراثی سجاد جو خود مڈل پاس ہے میرے پاس اپنے بچے شہزاد کو لایا۔ بولا‘ اسے نوکری دلا دیں‘ اس سے زیادہ نہیں پڑھا سکتا۔ بچے نے میٹرک کر رکھا ہے‘ سند دیکھی تو مزید حیران ہوا کہ اس نے 1050 میں سے 733 نمبر لیے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا‘ اسے پڑھائو‘ یہ تو میٹرک میں مجھ سے بھی زیادہ نمبر لے گیا ہے۔ بولا‘ کہاں سے پڑھائوں ؟ اب نہیں ہوتا۔ گائوں کا ایک ’’کوٹانہ‘‘ فرید میرے ساتھ پرائمری میں پڑھتا تھا ۔ اس کے بیٹے نے ایف اے کر لیا۔ وہ بھی بیٹے کے لیے نوکری چاہتا ہے۔ بے چاری حلیمہ قصائن ہمارے گھر میں کام کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے دکھ سانجھے ہیں کہ نعیم بھائی کی موت کے ایک دن بعد اس کا جوان بیٹا فوت ہو گیا۔ وہ نعیم کو رو رہی تھی کہ خبر ملی کہ اس کا جوان بیٹا کینسر کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے۔ حلیمہ اپنے دوسرے بیٹے کا سرٹیفیکیٹ لائی کہ اس نے ایف اے کر لیا ہے‘ اس کی نوکری کرا دیں کہ اب کمانے والا کوئی نہیں رہا۔ میں سر جھکائے چپ بیٹھا رہا۔ یہ نذیراں قصائن ہے۔چند ماہ پہلے اس کا خاوند مر گیا تھا‘ تین چھوٹی بچیاں ہیں۔ وہ بیٹھی رو رہی تھی کہ کیا کرے اور کہاں جائے؟ میرے رشتے کے ماموں خدابخش کی ٹریجڈی آپ کو بھی رُلا دے گی۔ وہ بچپن سے ہی جھگڑالو تھے۔ جب لڑتے تو پورا گائوں جمع ہوجاتا‘ کوئی انہیں روکنے کی کوشش نہ کرتا ۔ پورا گائوں اماں کے پاس آتا کہ تم جائو ۔ وہ اماں کو دیکھ کر ہی چپ ہوجاتے۔ اماں اتنا کہہ کر لوٹ آتی کہ شرم نہیں آتی‘ گائوں کے سامنے تماشا بنتے ہو۔ کبھی ایک لفظ نہ کہتے۔ عید سے کچھ دن پہلے وہ قربانی کی عید پر اپنا جوان بیٹا قربان کر بیٹھے جس کے اپنے چھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ موٹر سائیکل سے گرا‘ سر پر چوٹ آئی اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ پتا چلا سات راتیں بیٹے کی قبر پر سوتے رہے۔ ہر رات گھر سے اٹھتے اور دو میل دور قبرستان میں بیٹے کی قبر کے ساتھ جا کر لیٹ جاتے کہ بیٹا قبر میں اکیلا ہے کہیں ڈر نہ جائے! مرحوم کے بیٹے نے ایف اے کر رکھا ہے، بولے اس کو نوکری دلا دو تاکہ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا سہارا بنے۔ ابھی میں نے آپ کو قاسم کی کہانی سنانی ہے۔ وہ پہلی سے دسویں تک میرے ساتھ پڑھتا رہا۔ آج گائوں میں اس سے ملا تو قابلِ رحم حالت میں تھا۔ لگتا ہے میں اپنے گائوں سے نہیں کسی دوسرے سیارے سے واپس آیا ہوں‘ جہاں دکھ ہی دکھ ہیں اور سب سے زیادہ دکھ ان میراثیوں، کمہاروں، قصائیوں اور ماچھیوں کی قسمت میں ہی لکھے ہیں جن کے بچے زمینداروں کے بچوں کی طرح پڑھ تو گئے لیکن ان کی طرح انہیں کوئی نوکری نہیں دیتا۔ یہ ’’کمی کمین‘‘ اپنے بچوں کو بابو بنانے کے خواب تو دیکھ بیٹھے تھے اور ان کے بچوں نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا ، لیکن انہیں علم نہیں تھا کہ اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ ان کے حصے کی دولت بھی لوٹ کر لندن، دوبئی، سپین لے گئے ہیں اور مزید اکٹھی کر رہے ہیں۔ اب مجھ سے اندھی امیدیں لگانے والوں کو میں کیا بتاتا کہ پنجاب کو اس سال نیشنل فنانس کمشن سے ملنے والے 700 ارب روپے میں سے گائوں کے ان غریبوں کے بچوں کا حصہ ایک روپیہ بھی نہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved