بہار ہر طرف پھوٹ رہی ہے۔ فروری کا آخر ہے اور سنہری دھوپ کھلی فضائوں میں دن بھر مستاتی رہتی ہے۔ ہلکے ہلکے خنک جھونکے‘ دھوپ‘ پھوٹتی کونپلیں‘ کجلا سبز رنگ کِھلتے سبز میں تبدیل ہوتا ہوا‘ مرجھائی شاخوں میں رس دوڑتاہوا۔ وہ شجر جو پژمردہ کیفیت میں سر نہوڑے کھڑے تھے‘ سر اٹھا کر آپس میں باتیں کرنے لگے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک جو انار کا درخت ٹنڈ منڈ شاخیں لیے بے حس و بے جان سا لگتا تھا‘ اب اس پر ہر جگہ کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ہلکا سبز رنگ‘ جو نو خیز پتوں کی پہچان ہے‘ خاکستری پر غالب آرہا ہے‘ اس رنگ کو انگوری کہیے تب بھی بجا‘ دھانی کہیے تب بھی ٹھیک۔ شاید سرسبز کا لفظ اسی کھلتے‘ تر‘ شاداب رنگ کے لیے بنا ہوگا۔ کچھ دن کی بات ہے اس پر سرخ کلیاں نمودار ہوں گی۔ انارکی کلی اور اس انارکلی کی نازک‘ سبک خوبصورتی۔ کیا کہنے!
میں انار کے پاس کھڑا اس کی نازک پتیوں کو دیکھ رہا تھا کہ کوئی میرے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا۔ میری مرحومہ امی۔ بولیں ''دیکھ رہے ہو سعود! درخت کیسے مَول رہا ہے‘‘۔ میں نے کہا ''امی! کتنے دن بعد آپ کو دیکھا اور کتنے دن بعد یہ لفظ سنا۔ وہ عہد تو جدا ہوا ہی تھا‘ آپ کے بعد تو یہ لفظ ''مَولنا‘‘ بھی متروک ہی ہوگیا حالانکہ آپ اور سارے بزرگوں سے کتنی بار یہ لفظ سنا۔ آپ کے ساتھ یہ لفظ بھی ہم سے بچھڑ گیا اور بے شمار اور ایسے الفاظ بھی‘ جو ہم آپ سے سنتے تھے۔ کتنے ہی لفظ جو نہایت خوبصورت اور معنی خیز تھے‘ شاید ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے‘‘۔ امی نے کہا ''بیٹا! محبوب لوگ ہوں یا پیارے لفظ‘ ناقدری برداشت نہیں کرتے۔ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جاتے ہیں‘‘۔ اور اس جملے کے ساتھ امی ایک بار پھر بچھڑ گئیں۔
میں نے فرہنگِ آصفیہ کھولی۔ ''مَولنا: پھولنا‘ پھلنا‘ پروان چڑھنا۔ آم کے درخت پر شگوفہ آنا‘‘۔ ''مولا مہینہ: فروری یا پھاگن کا مہینہ‘‘۔ کیسا سبک اور خوبصورت لفظ ہے‘ اور ایسے کتنے ہی لفظ جو ہم نے اپنی جھولی سے پھینک کر بدصورت اور بدیسی لفظ اپنا لیے۔ وہ ترکہ جو اب متروکہ ہے‘ وہ لفظ جو اَب کسی کسی مصنف کے پاس ملتے ہیں۔'' جہانِ دانش‘‘ ان میں سے ایک کتاب ہے۔ صاحبِ طرز نثر نگار اور شاعر جناب احسان دانش کی آپ بیتی‘ جو ایک جہانِ لفظ بھی ہے۔ مجھے اپنا وہ ذوق و شوق یاد آیا جو لڑکپن کے دور میں گھنٹوں ''جہانِ دانش‘‘ کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔ کیسے کیسے نایاب‘ نادر‘ خوبصورت اور کم مستعمل الفاظ تھے جو اس خزانے سے ملے تھے۔ وہ کم مستعمل تو اب بالکل متروک ہیں۔ کیسے کیسے ہیرے‘ جواہر ہم نے مٹی میں رول دیے۔
صاحبِ اسلوب نثر نگار مختار مسعود نے سفر نصیب میں لکھا ہے کہ ''مچھلی کا قتلہ جب تلنے کیلئے کھولتے گھی میں ڈالتے ہیں تو اس آواز کو کیا کہتے ہیں؟ احسان دانش نے بتایا کہ اسے ''شراٹا‘‘ کہتے ہیں‘‘۔ یہ لفظ ہم میں سے کتنوں کے علم ہوگا؟وہ کاندھلہ کے تھے۔ کاندھلہ ضلع مظفر نگر‘ اترپردیش‘ ہندوستان کا ایک نہایت مردم خیز شہر یا قصبہ تھا۔ وہاں کے مقامی لفظ بھی ان کے ذخیرے میں تھے اور مشہور شاعر اور لغت نویس کی حیثیت میں ہزاروں دیگر الفاظ بھی۔'' جہانِ دانش ‘‘کو صرف ایک شاعر مزدور کی سوانح کی حیثیت میں نہیں‘ ایک ماہر زبان کے ذخیرہ الفاظ سے آگاہی کیلئے بھی پڑھنا ضروری ہے۔ کچھ جملے یہاں بطور نمونہ لکھتا ہوں۔ ان میں موجود الفاظ اور ان کے معنی سیاق و سباق سے بہت جگہ متعین ہوجاتے ہیں اور کچھ کے معنی خود احسان صاحب نے حاشیے میں لکھ دیے ہیں۔ میں یہ ایک بار پھر پڑھتے ہوئے وہی خوشی محسوس کرتا ہوں جو ہیروں بھری گمشدہ بقچی کی بازیابی پر حاصل ہوتی ہے۔ مجھے میرے ماضی نے اس قدر کھندلا ہے۔ کہیں چوٹل جگہیں اپنی سطح سے ابھری کی ابھری رہ گئی ہیں۔ صبح ہو یا شام‘ ٹٹار دوپہر ہو یا چاندنی۔ پزاوے کی پیشانی پر بھی خون دوڑنے لگتا (اینٹوں کا بھٹا)۔ یہ تھانگی دس دس‘ بیس بیس میل سے ہر قیمت پر کبوتر حاصل کرتے ( کھوجی‘ سراغ رساں)۔ میری توقع کی کونپلیں کھرنک ہو کر ٹہنیاں چھوڑ گئیں (سوکھ کر)۔ اس کا ایک کچا ڈگڑا سکول کی دیوار کے ساتھ ساتھ جوہڑ کنارے ختم ہوتا تھا(راستہ)۔ ہم گدبدی لگادیتے اور سکول میں آکر سانس لیتے (دوڑ لگا دیتے)۔ رکھوالے نے للکار کر تاہا(یعنی پیچھا کیا )۔ پچھونڈ مار کر لے آئے (کپڑے کی گھڑی کمر پر لاد کر لے آئے)۔ شکوک اپنی اپنی کھوریوں سے گردنیں اٹھا کر میرے خیالات کے پیچھے پیچھے ہولیتے(جانوروں کے بیٹھنے کی جگہ)۔ جہاں ایک بڑا لکڑ پڑا دھندھک رہا تھا(سلگنا)۔ ایک ایک ولی کھنگر اور شہر خبرا ایسا ایسا پہنچتا تھا(تجربہ کار اور چومکھی معلومات رکھنے والا)۔ وہ مجھے ایک پل بھی ٹھالی نہ دیکھ سکتا (خالی )۔ ایسا نہ ہو لالہ جی تمہیں کسی اڑگڑی میں پھنسا دیں (ناگہانی مصیبت)۔ پھر ایک کھیت پر اپنے کسی دوست کے رٹھان پر رہ گئے (کسانوں کے رہنے کا کچا گھروندا)۔ من سو من اناج کا پھینچا مارے خاک پھانکتا (سامان کی گٹھڑی)۔ میری کمر چٹکیاں لینے والے گھام سے چھپی پڑی تھی (گرمی دانے‘ پت انہوریاں)۔ چار آنے میں ایک گاہا کھدوایا جاتا تھا(بیس فٹ لمبا‘ دس فٹ چوڑا‘ ایک فٹ گہرا قطعۂ زمین‘ کھدان‘ کھتان )۔ کھدے ہوئے گڑھوں میں مٹام کی اونچائی کا حسان کرنا آتا تھا(کھدے ہوئے گڑھوں کے بیچ مٹی کا تودہ جو کھودتے وقت چھوڑ دیا جاتا ہے )۔ جسم اس مشقت کو سہہ گیا اور ہاتھوں میں پھاوڑے کی ٹھیکیں پک گئیں۔ کھدائی میں راند کاٹتے (کام چوری سے کام کرنا)۔ سر پر پھٹے پرانے لوگڑے کی جگہ کیا تھا (معمولی پھٹا کپڑا)۔ گھر میں ناہوت کے خیال نے بدن میں بجلی سی دوڑا دی (ناہوت :غربت‘ افلاس)۔ میرے ہاتھ الوائے ہوگئے (چھونے سے دکھنے والے )۔ دیہات اور قصبات کے لاوے دس دس بیس بیس کی ٹولیاں بنا کر نکل پڑتے(کھیت کاٹنے والے مزدور)۔ لاوے کھیت کاٹنے بیٹھتے اور پانت بھرتے(پانت : قطار‘ لائن‘ اگر ہم بیٹھ کر مشرق کی طرف منہ کرلیں اور شمالا جنوبا بازو پھیلائیں تو جہاں تک ہاتھوں کی حد ہوگی وہ پانت ہو گی )۔ آمدنی کم ہونے کے باعث پَوت پورا نہیں ہوتا ہوگا(گزارہ۔ ضرورت)۔ گھر سے جھالا بھر کر کھانا لے آتے (بڑا ٹوکرا‘ چھابڑا)۔ اس کی روشنی مری رگ رگ کو بیندھے ڈالتی ہے(چھیدنا)
''جہانِ دانش‘‘ میں صرف یہ لفظ ہی نہیں ہیں۔ کمال کے جملے اورمنظر کشی بھی ہے۔ منظر کشی بھی قادر الکلام شاعر کی۔ ذر ادیکھیے: ''جب درختوں پر نکلتے ہوئے سورج کی کرنوں سے درختوں کی چوٹیوں پر سنہری قناتیں بندھ جاتیں... سب اپنااپنا بوجھ اٹھا کر نیچے اونے دگڑوں سے گزرتے تو خشک بالیوں اور نالیوں کی آواز ایسی معلوم ہوتی جیسے ہوائیں گھنگرو باندھ کر ٹھمکتی ساتھ چل رہی ہوں... وہ سر جھکائے پھولوں سے لدی چنبیلی کی طرح میرے بازوئوں کے نیم دائرے میں آ گئی... میں نے اس کے ہاتھ کی پشت اپنے گال سے ملا دی تو اس کی ہچکی بندھ گئی اور سانسوں میں اٹکاوے پڑنے لگے... میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ بازوئوں تک گلاب کی پتیوں میں ڈوب گئے... اب بھی کبھی کبھی اس کا پگھلے ہوئے سونے جیسارنگ اور گرد و غبار میں اٹی لانبی پلکیں میرے سامنے پھر جاتی ہیں‘‘۔
''جہانِ دانش‘‘ میں وہ دل مسل کر رکھ دینے والے واقعات بھی ہیں جنہیں صرف پڑھنا بھی آنسووئوں کے تار باندھ سکتا ہے۔ ''مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ برتن کتنے میں فروخت ہوئے تھے لیکن اتنا یا دہے کہ درجہ چہارم کی کتابیں خریدتے وقت ہمارے گھر میں کوئی تانبے یا پیتل کا برتن نہیں رہا تھا... دنیا مزدور کو اس قدر رگیدتی ہے کہ وہ مشقت سے نکلنے کے تصور کو بھی مشقت خیال کرنے لگتا ہے‘‘۔میں لکھتے لکھتے تھک گیا لیکن ''جہانِ دانش‘‘ کے ابھی ابتدائی صفحات ہی سے گزر سکا ہوں۔ عجیب کتاب ہے۔ کوئی مٹی سے اٹھ کر چوبارے پر بیٹھا ہو۔ جسم اور خیال کی مشقت سے بیک وقت گزرا ہو‘ لفظوں اور انسانوں سے محبت کی ہو اور درد رقم کرنا سیکھا ہو تبھی یہ لکھ سکتا ہے۔ لفظ متروک ہوسکتے ہیں‘ درد کیسے متروک ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved