پاکستان کے تعلیمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو کس طرح نظر انداز کیا گیا۔ حکومتی ترجیحات میں تعلیم کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ گزشتہ برسوں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اس وقت بھی ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ حکومتی سطح پر تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا 1.77 فیصد ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک کی تعلیمی پالیسیوں پر نگاہ ڈالیں تو بلند بانگ دعووں اور خوش نما اہداف کی چکا چوند نظر آتی ہے‘ جس میں حقیقت کہیں چھپ کر رہ گئی ہے۔
کسی بھی نظامِ تعلیم میں زبان کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے طلبہ کی رسائی مختلف علوم تک ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں زبان کا مسئلہ اور اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ تعلیم میں زبان کے مسئلے کا آغاز اُس روز سے ہو گیا تھا جب پاکستان وجود میں آیا تھا۔ 1947ء میں پہلی ایجوکیشنل کانفرنس میں تعلیم کے حوالے سے مختلف فیصلے کیے گئے۔ انگریزی زبان کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ یہ ایک ''اجنبی زبان‘‘ ہے اور ہمیں اس کے ''مضر اثرات‘‘ سے بچنا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ہم انگریزی کو ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمیں مغربی سائنس اور کلچر تک رسائی دیتی ہے۔ انگریزی کے ساتھ یہ محبت اور نفرت کا رشتہ (Love-hate Relationship) پچھلے متعدد برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔
1959ء کے شریف کمیشن نے اپنی سفارشات میں لکھا تھا کہ انگریزی زبان کو بتدریج بدلنا ہو گا لیکن حکومتِ وقت نے اس کے لیے ضروری انتظامات نہیں کیے۔ شریف کمیشن نے اس سارے بندوبست کے لیے 15 سال کا عرصہ دیا تھا جس میں اُردو کو انگریزی زبان کی جگہ دی جانی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی طرح کی خواہش کا اظہار 1947ء کی پہلی ایجوکیشنل کانفرنس میں بھی کیا گیا لیکن تب بھی سرکاری سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے۔ اس دفعہ فرق یہ تھا کہ 1959ء کے شریف کمیشن رپورٹ میں 15 سال کی حد بندی کر دی گئی تھی جس میں انگریزی زبان کی جگہ اُردو کو بروئے کار لانا تھا۔ یہ پندرہ سال کی مدت 1974ء میں پوری ہونا تھی لیکن پاکستان کی گزشتہ تعلیمی پالیسیوں پر نگاہ ڈالیں تو ایک دلچسپ چیز سامنے آتی ہے کہ ایک تعلیمی پالیسی میں کسی ہدف کی ڈیڈ لائن دی جاتی ہے لیکن آنے والی نئی پالیسی میں بڑی سہولت سے اس ڈیڈ لائن کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ 1959ء کے شریف کمیشن کی ڈیڈ لائن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 15سال کی یہ ڈیڈ لائن 1974ء میں پوری ہونا تھی لیکن اس سے ایک سال پہلے 1973ء کا آئین بنا اور اس آئین میں پندرہ سال کی نئی ڈیڈلائن دے دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب 1988ء تک سرکاری سطح پر وہ سارے انتظامات مکمل کر لیے جائیں گے کہ اُردو سرکاری اور تعلیمی امور کے لیے انگریزی کی جگہ لے سکے۔ اسی دوران میں جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آ گئے۔ اُن کے دور میں تعلیمی پالیسی 1979ء جاری کی گئی۔ یہ پالیسی تعلیم کو ایک بالکل نئی شکل دینے کی ایک شعوری کوشش تھی۔ اس تعلیمی پالیسی میں پہلی مرتبہ اسلامک ایجوکیشن کے نام سے ایک علیحدہ باب شامل کیا گیا اور پہلی بار پالیسی کے ہمراہ Implementation Framework بھی دیا گیا۔
اسلامائزیشن کے عمل کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کے حوالے سے غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا جس میں تعلیمی مقاصد سے زیادہ عوامی مقبولیت کا خیال رکھا گیا‘ سرکاری طور پر تمام وزارتوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ تمام تقاریر اب انگریزی کے بجائے اُردو میں ہوں گی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور ہی میں 1979ء میں پاکستان لینگویج اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا جسے بعد میں مقتدرہ قومی زبان کا نام دیا گیا جس کا بنیادی مقصد قومی زبان اُردو کو فروغ دینا تھا اور اسے سرکاری اور تعلیمی امور میں اہم کردار دلانا تھا۔ سرکاری ملازمین کے لیے ''دفتری اُردو‘‘ کے مختصر کورسز تیار کرائے گئے تاکہ وہ سرکاری امور کو انگریزی کے بجائے اُردو میں خوش اسلوبی سے طے کر سکیں۔ یہ تو تھا سرکاری امور کا احوال۔ تعلیمی امور میں اُردو کی مرکزیت کے لیے 1979ء ہی میں ایک صدارتی آرڈر کے ذریعے تمام سکولوں کو پابند کیا گیا کہ وہ کلاس ون یا کے جی سے انگریزی کے بجائے اُردو کو میڈیم کے طور پر استعمال کریں۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ آرڈر انگلش میڈیم سکولوں کے لیے بھی تھا۔ وزارتِ تعلیم نے مزید سرگرمی دکھا تے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ سے کوئی انگلش میڈیم کی اصطلاح استعمال نہیں کر سکے گا۔ یہ اعلان اتنا ہی اچانک اور عجلت میں کیا گیا تھا جس طرح وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دن تمام تعلیمی ادارے قومیانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا حشر بھی وہی ہوا جو عجلت اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کا ہوتا ہے۔ طلبہ کے والدین کی طرف سے سخت دباؤ آیا۔ رفتہ رفتہ اُردو کے لیے جوش و خروش مدھم پڑتا گیا اور آخرکار یہ فیصلہ وقت کے ساتھ خود ہی دم توڑ گیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے انہی جنرل ضیاء الحق‘ جنہوں نے تما م انگلش میڈیم سکولوں کو اُردو کا پابند بنا دیا تھا‘ نے بعد میں اپنے ہی قلم سے ان انگلش میڈیم سکولوں کو قانونی تحفظ دیا جو کیمبرج کے امتحانات کے لیے تیاری کرا رہے تھے۔
پھر ہم اس پنڈولم کی حرکت دوسری انتہا کی طرف جاتے دیکھتے ہیں جب پرویز مشرف کے زمانے میں ایک مراسلے کے ذریعے سکولوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ انگریزی میں لکھی ہوئی درسی کتب پڑھائیں۔ ابتدا میں یہ ہدایت صرف چند سکولوں کے لیے تھی لیکن 2011ء میں پنجاب میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں تمام سکولوں کو انگریزی میں کتب استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس وقت اُردو سے انگریزی میں تبدیلی کے لیے یہ دلیل دی گئی تھی کہ طلبہ پرائیویٹ سکولوں کا رُخ اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا یونیفارم اچھا ہوتا ہے اور وہاں کمپیوٹر کی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ ماہرینِ تعلیم کا اس وقت بھی خیال تھا کہ یہ عجلت میں کیا گیا غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔ 2009ء سے 2020ء تک طلبہ ذہنی طور پر اس پالیسی سے ہم آہنگ ہو گئے تھے پھر اچانک 2019ء میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ 2020ء سے ایک بار پھر ساری کتابیں اُردو میں ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی یکساں نصاب کا ڈول ڈالا گیا اور پرائمری سطح پر ساری کتابیں اُردو میں لکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر صوبوں کا شدید ردِعمل سامنے آیا اور اب اُردو کتابوں کو انگریزی زبان میں پھر سے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اُردو زبان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے سات دہائیوں میں اُردو کو ثروت مند زبان بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ دوسری طرف انگریزی ایک طاقتور زبان کے طور پر ابھری ہے جو نہ صرف اچھی ملازمت کے حصول کے لیے بلکہ اعلیٰ سطح کی تعلیم کے عمل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے کیونکہ تحقیقی معلومات کا بڑا حصہ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابوں اور جریدوں میں ملتا ہے۔ سکول کی درسی کتابوں کو اُردو میں منتقل کرنا اسی طرح کا عاجلانہ فیصلہ ہے جس کی نظیر ہمیں ماضی میں بار بار ملتی ہے۔ یہاں یہ بات تحقیق طلب ہے کہ وہ پالیسی ساز جو قوم کے بچوں کو کتابیں اُردو زبان میں منتقل کرنے کی خوش خبری دے رہے ہیں‘ ان کے اپنے بچے کہاں اور کن سکولوں میں پڑھتے ہیں؟ اور کیا وہاں کتابیں اُردو میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved