دنیا کی آبادی 8ارب 9کروڑ 40لاکھ کے ہندسے کو چھو رہی ہے اور اس میں خواتین کی تعداد مردوں سے بس تھوڑی سی ہی کم ہے۔ سٹیٹسٹکس ٹائمز ڈاٹ کام کی ورلڈ جینڈر ریشو 2023ء کے مطابق دنیا میں ہر 101.016 مردوں کے مقابلے میں 100خواتین موجود ہیں۔ ورلڈ جینڈر ریشو کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ 1964ء تک دنیا میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ تھی۔ تقریباً برابر ہونے کے باوجود دنیا پر زیادہ تر حکمرانی مردوں کی رہی۔ شاید اس کی وجہ مردوں کا جسمانی طور پر طاقتور ہونا تھا کہ سلسلۂ جہاں گیری و جہاں بانی میں اکثر جنگیں لڑنا پڑتی تھیں اور شو آف پاور کی بھی اپنی اہمیت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ طالع آزمائی کے نتیجے میں حالات کے جبر کے تحت یا جدید دور میں جمہوریت کے حوالے سے جب کبھی خواتین کو اقتدار سنبھالنا پڑا‘ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور خود کو بہترین حکمران منوایا۔
دنیا میں خواتین کی حکمرانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کم و بیش اتنی ہی قدیم جتنی نسلِ انسانی کی تاریخ ہے۔ انسانی تاریخ طویل ہے‘ لیکن اس تاریخ کے ابتدائی ادوار تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ یعنی ان ادوار کے بارے میں تاریخ میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ تاریخ میں پہلی (ریکارڈڈ) خاتون حکمران کوبابا (Kubaba) کو قرار دیا جاتا ہے۔ وہ 2400 قبل مسیح میں سومر (Sumer) کی ملکہ تھی۔ سومر کی سلطنت اس علاقے میں تھی جہاں آج کل عراق واقع ہے۔ سوبیک نیفیرو (Sobekneferu) 1800 قبل مسیح میں مصر کے علاقے پر حکمران رہی۔ ہاٹشیپسٹ (Hatshepsut) 1479 قبل مسیح میں مصر میں حکمران رہی۔ ووسریٹ (Wosret) نے 1191 تا 1189 قبل مسیح میں مصر پر حکومت کی۔ ٹیوتا (Teuta) 231سے 227قبل مسیح تک بلکان جزیرہ نما کے مغرب میں آرڈیائن سلطنت پر حکمران رہی۔ شناخداکھتو (Shanakdakhete) 170 تا 150 قبل مسیح میں کُش کے علاقے میں حکمران تھی۔ آج کل اس علاقے میں سوڈان واقع ہے۔ کلوپیترا (Cleopatra) سے تاریخ میں دلچسپی رکھنے والا کون ناواقف ہو گا‘ اس نے 51قبل مسیح میں مصر پر حکومت کی تھی۔
قرونِ وسطیٰ کی بات کریں تو امالاسونتھا (Amalasuintha) آف اوستروگوتھس(Ostrogoths)‘ آسٹریشیا کی ملکہ برون ہلدا (Brunhilda) مایا تہذیب کی کوئین یول اکنال (Yohl Ik'nal)‘ چین کی ملکہ وو زیتیان (Wu Zetian)‘ ٹسکینی کی میتھلڈا (Matilda)‘ ایتھنز کی آئرین (Irene of Athens)‘ ہندوستان کی رضیہ سلطانہ‘ پولینڈ کی ملکہ جیڈویگا (Jadwiga)‘ سپین کی ملکہ ازابیل (Isabel) اور دیگر متعدد نام سامنے آتے ہیں۔ 1500ء سے 1800ء کے تین سو سالوں میں انگلینڈ کی ملکہ میری‘ زازاؤ کی ملکہ آمینہ (یہ علاقہ اب نائیجیریا میں شامل ہے)‘ انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اور ملکہ این‘ روس کی کیتھرین‘ روس ہی کی آنا ایوانوونا (Anna Ivanovna)‘ ماریہ تھریسا آف آسٹریا (Maria Theresa) کے نام آتے ہیں۔ اور بھی کئی نام ہیں‘ جگہ کی قلت کے باعث چیدہ نام ہی لکھ سکا ہوں۔ موجودہ دور میں بھی بہت سی خواتین حکمران نظر آتی ہیں‘ جیسے سری لنکا کی سرماوو بندرا نائیکے‘ بھارت کی اندرا گاندھی‘ برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر‘ جرمنی کی اینجلا مرکل‘ پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور اب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف۔
اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلے بھی خواتین حکمران بنتی رہی ہیں اور نامساعد حالات پر قابو پاتی رہی ہیں‘ چنانچہ مریم نواز اگر توجہ دیں تو صوبے کا بکھرا ہوا شیرازہ منظم اور مرتب کرنا ان کے لیے چنداں مشکل نہ ہو گا۔ مریم نواز نے شروعات اچھی کی ہے۔ وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وہ سیدھی اپنے آفس پہنچیں اور فوراً کام شروع کر دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کتنی پُرعزم ہیں۔ انہوں نے خواتین اور بچوں کے حقوق کی بات کی اور کہا کہ میرٹ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اگلے روز انہوں نے صوبے میں گلیوں کی مرمت کے پروجیکٹ کا اعلان کیا اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ادارہ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہیلتھ کارڈ بحال کر دیے جائیں گے اور 12ہفتوں میں ایئر ایمبولنس سروس شروع کی جائے گی۔ ذہین طلبا کو عالمی معیار کی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوائی جائے گی‘ پنجاب میں کم از کم پانچ آئی ٹی سٹیز بنائی جائیں گی‘ طلبہ کو لیپ ٹاپ‘ ٹیبلٹ فراہم کیے جائیں گے اور سکالرشپس دیے جائیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کسانوں کو رعایتی نرخوں پر جدید مشینری فراہم کی جائے گی اور اس سلسلے میں وَن ونڈو آپریشن شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ صاف ستھرا پنجاب سکیم کے تحت اضلاع کے درمیان مقابلے کا رجحان پیدا کیا جائے گا جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔
نئی وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے اور عوام کے لیے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ اس میں عوامی زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس پیکیج پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ صوبے کے مسائل حل نہ ہوں اور عوام کو وہ ریلیف نہ ملے جس کے وہ اب تک منتظر نظر آتے ہیں۔ مریم نواز اگر اپنے اس منشور پر پوری طرح عمل کرنا چاہتی ہیں ‘ تو اس کے لیے انہیں اپنے گرد ایسے لوگوں کو اکٹھا کرنا اور ایک ایسی ٹیم بنانا ہو گی جو اپنے کام کے ساتھ‘ عوام اور صوبے و ملک کے ساتھ‘ مخلص ہوں اور ہمہ وقت کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ حقیقت اب ایک عالم گیر سچائی کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ اچھی بیوروکریسی ہی گڈ گورننس کو یقینی بناتی ہے۔ ٹیم اچھی ہو گی تو پنجاب حکومت کارکردگی میں گزشتہ حکومتوں سے آگے نکل سکتی ہے‘ لیکن اگر اچھی ٹیم مرتب نہ ہو سکی تو گڈ گورننس کا خواب خواب ہی رہے گا۔
تاریخ کے ایک دور میں جھانکتے ہیں۔ برصغیر میں مغل سلطنت 1526ء سے 1761ء تک قائم رہی یعنی کم و بیش 235 سال۔ اس سارے عرصے میں بابر سے بہادر شاہ ظفر تک 19 فرمانروا حکومت کرتے رہے‘ لیکن آج بھی بہترین حکمرانی کے حوالے سے نام لیا جاتا ہے تو اکبرِ اعظم کا۔ اکبر‘ اس کے پیشروؤں اور اس کے جانشینوں کے درمیان کیا فرق ہو سکتا ہے‘ یہ فرق ہے نو رتنوں کا۔ مشیر باقی بادشاہوں کے بھی ہوں گے‘ لیکن اکبر نے اپنے ارد گرد بہترین اور نابغہ روزگار دماغ اکٹھے کیے اور طویل عرصے تک کامیابی سے حکمرانی کرتا رہا۔ یہی مشورہ مریم نواز کے لیے بھی ہے۔ اچھی ٹیم کا مطلب ہو گا بہترین پرفارمنس اور بہترین پرفارمنس ہی دراصل گڈ گورننس ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved