استصواب‘ ریفرنڈم اور انتخابات ساری دنیا میں تنازعات طے کرنے کا آزمودہ نسخہ سمجھے جاتے ہیں‘ معاشی‘ علاقائی اور جغرافیائی تنازعات سمیت۔ ریاست کے پاس قوم کے اجتماعی شعور پر مبنی فیصلے کرنے کا کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی ریاستی ضرورت کے پیش نظر وَن مین وَن ووٹ کا اصول معرضِ وجود میں آیا تھا۔ یہ اصول بننے سے پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں طویل اور خون ریز خانہ جنگی ہوئی۔ سلطنتِ برطانیہ میں اس سے بھی بدتر حالات تھے‘ جہاں کوئین آف انگلینڈ نے اپنی بہن Mary‘ دی کوئین آف سکاٹ لینڈ کا سر اپنے سامنے کٹوا ڈالا۔ گینگ آف نیویارک کے وار لارڈز لمبا عرصہ برسرِ اقتدار رہے۔ اِن کا اقتدار‘ وار لارڈز آف افغانستان کے دور سے لاکھوں درجے آگے کا خون آشام تھا۔ اِن دو بڑی طاقتوں نے حالات کو قابو میں لانے اور ملکی نظام کو شہریوں کی رائے کے مطابق چلانے کیلئے استصواب‘ ریفرنڈم اور انتخابات کا راستہ چنا تھا۔ سوشلزم اور کمیونزم بھی عام آدمی کے حق میں ریاستی طاقت منتقل کرنے کے سیاسی نظریے ہیں۔ ایسے نظریے یا ایسے سیاسی انتظام‘ جن کے اندر فیصلہ سازی چند افراد کے بجائے پبلک پارٹنر شپ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گورننس کے یہ کامیاب ماڈل آج بھی چین سے لاطینی امریکہ تک اور کیوبا سے شمالی کوریا تک بہت سی مستحکم ریاستوں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
دوسری جانب برصغیر پاک و ہند دورِ غلامی میں بھی انتخابی عمل سے ایک سے زیادہ مرتبہ گزرا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیئر اینڈ فری الیکشن‘ ریفرینڈم یا استصوابِ رائے کے ذریعے فیصلے کرنے کا طریقہ عام پبلک نے اپنے ذہن میں بٹھا لیا۔ دُور جانے کی کیا ضرورت ہے‘ تقسیمِ ہندوستان کے وقت پاکستان کا موجودہ جغرافیہ اسی ریاستی طرزِ فکر اور طرزِ حکمرانی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ بلوچستان استصواب بذریعہ جرگہ کے نتیجے میں اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بنا تھا۔ 1947ء میں وادیٔ مہران کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے سندھ اسمبلی نے استصوابی فیصلہ صادر کیا۔ یوں سندھ اور کراچی‘ بمبئی ریزیڈنسی کی ماتحتی سے نکل کر نئے ملک پاکستان میں آ شامل ہوئے۔ سابق NWFP کے نام سے صوبہ برٹش راج نے 1900ء میںتشکیل دیا تھا‘ جہاں پاکستان میں شامل ہونے کیلئے تاریخ ساز ریفرنڈم کرایا گیا جس میں ایک طرف مہاتما گاندھی اور سرحدی گاندھی متحدہ ہندوستان یعنی اکھنڈ بھارت کے حق میں مہم کی قیادت کرتے رہے جبکہ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان میں شمولیت کیلئے ریفرنڈم مہم کو لیڈ کیا۔ قائداعظم کامیاب رہے اور NWFP عوامی ووٹ کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہو گیا۔ پاکستان کی سیاسی اور قومی بدقسمتی کا آغاز قیامِ پاکستان کے پہلے چار سال کے اندر ہی شروع ہو گیا جب ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو برسرِ عام شہید کیا گیا۔ اُس کے بعد محسن بھوپالی کے بقول:
نیرنگیِٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
بربادی کی اِس داستانِ مسلسل کی دل دہلا دینے والی تفصیلات ہیں۔ یہ ایک انتہائی باوسیلہ ملک کے دلدل میں دھکیلے جانے کے سفر کی دلدوز داستان ہے۔
دلدلی سفرکا پہلا قدم: یہ قدم ایک ایسے شخص کے دور میں رکھا گیا جس کی خاندانی تاریخ بے وفائی کی بدبو سے لتھڑی ہوئی ہے۔ وہ بدبو جس کے بارے میں شاعرِ مشرق نے فرمایا تھا:
ننگِ آدم‘ ننگِ دین‘ ننگِ وطن
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ناقبول و ناامید و نامراد
ملّتی از کارشان اندر فساد
جنرل اسکندر مرزا‘ وردی سمیت اقتدار کا اس قدر شوقین تھا کہ جب اُسے گورنر مشرقی پاکستان لگایا گیا تو وہ اپنا نام ''گورنر جنرل اسکندر مرزا‘‘ لکھوایا کرتا تھا۔ اسکے دور میں بنگالی کہتے تھے کہ ہمارے اوپر انگریزوں کے اُس خاندانی غلام کو مسلط کیا گیا جو فرنگی راج سے زیادہ مظالم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اسکندر مرزا نے بنگالیوں کی تذلیل کی بنیاد ڈالی جس کی انتہا بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن کے دوران سامنے آئی۔ بنگال‘ ڈھاکہ سے چٹا گانگ تک مادرِ ملت کیساتھ کھڑا ہو گیا۔ 14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء تک‘ صرف 23 سال آٹھ ماہ کے عرصے میں ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے مارشل لاؤں نے پاکستان توڑ ڈالا۔
دلدلی سفر کا دوسرا قدم: اسکی ابتدا کا سراغ لگانا مشکل نہیں۔ مشرقی پاکستان میں سب سے پاپولر جماعت عوامی لیگ تھی‘ جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر پورے بنگال میں صدارتی الیکشن کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ عام جلسوں‘ انتخابی میٹنگز اور ٹرین مارچ میں شیخ مجیب اور مادرِ ملت کی لا تعداد تصویریں اور وڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح باچا خان نے NWFP‘ جی ایم سید نے سندھ میں اور اکبر بگٹی نے بلوچستان میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ان کا ساتھ دینے والے سارے غدار کہلائے۔ اکیلے شیخ مجیب نے 13 سال سے زیادہ وقت قید میں گزارا۔ وہ ایک مقدمے میں رِہا ہوتا تو اسے دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا۔ عوامی لیگ نے پاکستان کے اندر رہتے ہوئے جو آخری‘ پاکستان کی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اس میں 187 سیٹوں پر لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابی نتائج کا آفیشل اعلان کیا‘ جن میں دوسرے نمبر پر عوامی لیگ کی حریف جماعت ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ٹھہری‘ جسے صرف 86 سیٹوں پر کامیابی مل سکی۔ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مرتبہ بلایا گیا جہاں قومی اسمبلی کی بلڈنگ تھی۔ مگر یحییٰ خان اجلاس کینسل کرتا رہا۔
اب آئیے 8 فروری 2024ء کے سافٹ عوامی انقلاب کی جانب۔ ردِّ انقلاب کیلئے جو انتہائی غیر مناسب ریاستی طاقت استعمال ہو رہی ہے‘ اُس کی گہرائی کا اندازہ یوں لگائیں کہ بے رحمانہ طاقت کے ردّ میں مزاحمتی ادّب جنم لے رہا ہے۔ جبّار واصف ردِّ فاشزم میںکہتے ہیں۔
ہاتھوں میں تیرے جیت کی جعلی رسید ہے
اب اس سے بڑھ کے اور کیا ذلت مزید ہے
دولت کا اِس سے بد ترین مصرف ہو اور کیا
جو بھی ''بکاؤ‘‘ شخص ہے‘ تیری خرید ہے
لاشہ پھر اِقتدار کا ہم نوچیں کس طرح
سب کرگسوں میں اب یہی گفت و شنید ہے
''زَردار‘‘ بے سکون ہے ''بیمار‘‘ دربدر
ہائے ہوس یہ تخت کی‘ کتنی شدید ہے
دیتے تھے کل جو ''گالیاں‘‘ ملتے ہیں اب گلے
ماضی قریب یعنی اب‘ ماضی بعید ہے
کیا پھر وہ خاندان ہے پنجاب کا نصیب
کیا پھر اسی عذاب کی ہم کو وعید ہے
جس نسلِ نو کا تذکرہ کرتا تھا ایک شخص
آج اُس کے ہم قدم وہی نسلِ جدید ہے
سورج کو قید رکھنے کا انجام دیکھ لو
اب اُس کی روشنی کا زمانہ مرید ہے
واصفؔ ملائکہ سے کوئی اُن کی لے خبر
مٹی کی مورتوں کی تو مٹی پلید ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved