تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-10-2013

ہمارے ابن بطوطہ

ہمارے پاکستانی لیڈران نے بیرونی دورے کرنے میں خاصی مہارت حاصل کرلی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان قومی اتحاد یعنی پی این اے کی تحریک کے ستائے ہوئے بھٹو صاحب نے اپنے دورِ حکومت کے آخری ایام میں مشرق وسطی کے چھ سات ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ صدرضیاء الحق بڑے تواتر سے سعودی عرب جاتے تھے۔ صدر مشرف اور ان کے وزیراعظم شوکت عزیز میں تو گویا بیرونی دوروں کا مقابلہ تھا۔ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد کے ایک حالیہ کالم کے مطابق شوکت عزیز نے بیرونی دوروں کی سنچری مکمل کی۔ وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سنبھالے چار ماہ ہوئے ہیں‘ وہ چار بیرونی دورے فرما چکے ہیں اور پانچویں دورے میں مصروف ہیں۔ نہ جانے کیوں ہمارے لیڈروں کا پاکستان میں دل ہی نہیں لگتا۔ ویسے میں خود بھی ایسے دوروں سے مستفید ہو چکا ہوں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ دو مرتبہ سعودی عرب گیا۔ صدر مشرف کے ساتھ شیخ زاید بن سلطان آل النہیان کی تدفین کیلئے ابوظہبی گیا۔ پھر شوکت عزیز صاحب کے ہمراہ آنجہانی فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی آخری رسوم کیلئے قاہرہ جانا ہوا اور وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے ساتھ عمرہ کے لیے سعودی عرب کا سفر نصیب ہوا۔ میرے یہ دورے بطور ایڈیشنل سیکرٹری مڈل ایسٹ تھے کیونکہ کسی نہ کسی سینئر ڈیسک آفیسر کو حاکموں کے ساتھ جانا پڑتا ہے اور چونکہ اکثر حاکم فارن آفس کا بریف پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے لہٰذا چلتا پھرتا بریف ان کے ہمراہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ صدر ضیاء الحق بڑے تواتر سے سعودی عرب جاتے تھے۔ بقول ان کے وہ اپنی روحانی بیٹریاں چارج کرانے جاتے تھے۔ ویسے اس حقیقت کا میں گواہ ہوں کہ ان کے دور میں پاک سعودی تعاون عروج پر تھا اور سعودی لیڈر انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ صدر ضیاء الحق کے آخری چار سالوں میں میری پوسٹنگ سعودی عرب میں تھی۔ اس پوسٹنگ میں بھی مرحوم کا بالواسطہ حصہ تھا لیکن وہ قصہ پھر کبھی سہی۔ صدر ضیاء الحق جب عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ جاتے تھے تو سعودی حکام اکثر ان کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولنے کا حکم دیتے تھے حالانکہ یہ سعادت ہر حکمران کو میسر نہیں آتی۔ اس سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ صدر غلام اسحاق خان مرحوم 1988ء میں صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تقریباً دو سال بعد عمرہ کرنے آئے۔ میں ابھی سعودی عرب میں ہی تھا۔ صدر کے ساتھ ان کے ذاتی سٹاف میں ایک ریٹائرڈ آنریری کپتان تھے۔ ہم عمرہ کیلئے روانہ ہوئے تو کپتان صاحب میرے ہم سفر تھے۔ میں نے راستہ میں ان سے پوچھا کہ ضیاء صاحب تو ہر ماہ دو ماہ بعد عمرہ کیلئے آتے تھے ۔غلام اسحاق صاحب نے آنے میں پورے دو سال لگا دیئے۔ کہنے لگے کہ یہ سوال ہم نے بھی صدر صاحب سے پوچھا تھا۔ جواب ملا کہ اول تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس کی بخشنے کی طاقت انسان کی گناہ کرنے کی سکت سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسرے میں اپنی نفلی عبادت کیلئے حرم شریف میں موجود مسلمانوں کیلئے باعث زحمت نہیں بننا چاہتا۔ یاد رہے کہ عمرہ نفلی عبادت ہے اورجب صدر یا وزیراعظم عمرہ کرتے ہیں تو عام لوگوں کو طواف میں دقت ضرور ہوتی ہے اس لئے کہ وہاں سکیورٹی کی خاطر وفد کے گرد حفاظت کیلئے دائرہ بنایا جاتا ہے۔ بیرون ملک دوروں کا شوق زرداری صاحب کو بھی کم نہ تھا۔ موصوف دبئی تو تھوڑے تھوڑے عرصے بعد جاتے ہی رہتے تھے لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ 2010ء میں آدھا ملک سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا کہ موصوف فرانس میں اپنے عالی شان مکان میں نظر آرہے تھے۔ اس بے حسی کا بدلہ آخرکار قوم نے مئی 2013ء کے انتخاب میں لے لیا۔ یہی جمہوری نظام کی خوبی ہے کہ عوام ناکام حکمرانوں سے بدلہ لے سکتے ہیں۔ زرداری صاحب ایک درجن مرتبہ چین گئے۔ ان دوروں سے ملک کو کیا حاصل ہوا کسی کو علم نہیں۔ پچھلے ماہ مجھے چین جانے کا موقع ملا۔ وہاں کئی تھنک ٹینکوں Think Tanks سے دوطرفہ تعلقات پر سیرحاصل گفتگو کا موقع ملا۔ ایک ملاقات میں چینیوں نے یہ کہا کہ گوادر کاشغر اقتصادی اور انرجی شاہراہ کے بارے میں صدر مشرف کے زمانے میں سوچا گیا تھا ۔ کسی نے دوطرفہ تعاون کے سلسلے میں زرداری صاحب کی کوششوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ کئی بیرونی دورے محض سعئی لا حاصل ثابت ہوئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک دورہ وزیراعظم نواز شریف نے 1991ء میں کیا۔ خلیج کی جنگ زوروں پر تھی۔ صدام حسین نے کویت پر جارحیت کی اور ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ کویت کو آزاد کرانے کیلئے کئی ممالک سے مدد مانگی گئی۔ کویت کو آزاد کرانے میں امریکہ پیش پیش تھا۔ مجھے وہ مناظر یاد ہیں جب امریکی خواتین سپاہی ریاض میں گھوم پھر رہی ہوتی تھیں۔ بڑی مشکل سے امریکیوں کو سمجھایا گیا کہ یہاں خواتین کا ننگے سر پھرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ بری طرح منقسم تھا۔ صدام نے چونکہ امریکیوں کو للکارا تھا لہٰذا ہماری جذباتی قوم کا ہیرو تھا۔ بے شمار پاکستانیوں نے نومولود بیٹوں کا نام صدام حسین رکھا۔ پاکستانی حکومت نے فوجی دستے روانہ تو کردیئے لیکن حکومت کا فیصلہ بہت غیر مقبول تھا۔ پاکستانی سپاہ کے قائدجنرل اسلم بیگ Strategic Defiance کی باتیں کر رہے تھے اور بادی النظر میں صدام حسین کے حامی لگ رہے تھے جب امریکی فوجیں کویت میں داخل ہوئیں تو غاصب صدام حسین دم دبا کر بھاگ گیا۔ حکومت پاکستان اپنے عوام کو صحیح صورتحال سمجھانے میں ناکام رہی۔ حالانکہ پورا میڈیا حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ ابھی پرائیویٹ چینل شروع ہی نہیں ہوئے تھے اور اخبارات بھی حکومتی اشتہاروں کے مرہون منت تھے۔ ایسے دوروں میں حکمرانوں کے تصرف میں بڑا جہاز ہوتا ہے۔ ہم کتنے بھی غریب نہ ہو جائیں خاندان مغلیہ کی ’’عظیم روایات‘‘ کے امین ہیں۔ بڑے بڑے وفد لے کر جاتے ہیں حالانکہ امریکہ جیسی سپرپاور صرف آٹھ لوگوں کو سرکاری مہمان کا درجہ دیتی ہے اور اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کا تو پورا خرچ آنے والوں کا اپنا ہوتا ہے۔ کاش ہمیں کوئی بتائے کہ وزیراعظم کی حال ہی کی نیویارک یاترا قوم کوکتنے میں پڑی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکمرانوں کے بیرون ملک دوروں کا بھی آڈٹ کیاجائے کہ کل کتنا خرچ ہوا اور کیا فوائد حاصل ہوئے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved