انتخابات کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا جائے‘جو الزامات بھی لگائے جائیں‘اور ان کے جو بھی جوابات دیے جائیں‘تحریک انصاف المعروف سنی تحریک کے رہنما جو بھی آگ اُگلیں اور ان کے مخالف اس پر جو بھی تیل(یا پانی) چھڑکیں‘ گااڑی چل پڑی ہے۔اسمبلیوں نے کام کا آغاز کر دیا ہے۔اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں‘ اور چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں بھی سیاسی پرندے چہچہا رہے ہیں۔وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہو چکا‘وزیراعظم کا انتخاب ہونے کو ہے۔پنجاب میں مریم نواز شریف ہماری تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں جبکہ سندھ میں سید مراد علی شاہ نے تیسری بار وزارتِ اعلیٰ کے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔بلوچستان میں سرفراز بگٹی بلامقابلہ صوبائی حکومت کے سربرا ہ منتخب ہو گئے ہیں‘ان کے مقابل کوئی آیا ہی نہیں۔نگران وزیر داخلہ کے منصب سے مستعفی ہو کر وہ بذریعہ پیپلزپارٹی انتخابی اکھاڑے میں اُترے‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئے۔ وہ اپنی سوچ اور اپنی آن رکھتے ہیں اُنہیں ملک بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا‘اور ان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی سیادت علی امین گنڈا پور کے ہاتھ میں ہے۔ عمران خان کی نگاہِ انتخاب اُن پر ٹھہری اور وہ وہاں پہنچ گئے جہاں پہنچنے کا پختہ ارادہ رکھنے والے پرویز خٹک چاروں شانے چت پڑے ہیں۔ عمرانی ریلا انہیں بہا کر لے جا چکا ہے‘اور خیبرپختونخوا پر عمرانی پرچم اتنا اونچا اُڑ رہا ہے کہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ حریف ِ اول یعنی ''اہل ِ کتاب‘‘ ان کے45 فیصد کے مقابلے میں 15فیصد ووٹ حاصل کر سکے ہیں‘ان کے حصے میں حزبِ اختلاف کی قیادت بھی نہیں آ پائی۔انتخاب کا یہ نتیجہ البتہ برآمد ہوا ہے کہ عمران خان اور حضرت مولانا کے درمیان فاصلے کم ہو گئے ہیں‘ دونوں ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے بجائے مل جل کر انہیں نشانہ بنانے کی فکر میں ہیں‘ جن کے چلائے ہوئے تیروں سے دونوں گھائل ہوئے ہیں۔
ایاز صادق ایک بار پھر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو چکے ہیں‘ان کے مقابلے میں تحریک انصاف(سنی کونسل) نے اپنا امیدوار کھڑا کر کے انتخاب بااعتبار بنا دیا۔وزارتِ عظمیٰ کا منصب شہباز شریف کے حصے میں آ رہا ہے‘عمر ایوب خان ان کے مقابلے میں ہیں لیکن وہ اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا یہ کہیے کہ انہوں نے اس کی کوشش ہی نہیں کی۔اس وقت قومی اسمبلی تین بڑی جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی۔دو مل کر ہی اکثریت بنا سکتے ہیں۔پیپلزپارٹی کی کوشش کے باوجود عمران خان نے اس سے سلسلۂ جنبانی کی ضرورت محسوس نہیں کی‘جس سے واضح ہو گیا کہ ان کی جماعت کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہے۔صدارتی انتخاب کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ امیدوار بن کر ایوانِ صدر میں دوبارہ رونق افروز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان نے محمود اچکزئی کو کھڑا کر کے ''گرینڈ الائنس‘‘ بنانے کا اشارہ دے دیا ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے حوالے سے ابھی تک معاملہ طے نہیں ہوا۔ تحریک انصاف(سنی کونسل) کو اگر یہ نشستیں نہ مل پائیں تو پھر ہنگامہ کھڑا ہو گا۔الیکشن کمیشن کھلی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر چکا ہے‘ چند روز میں اس کا اعلان ہو گا تو پتہ چلے گا کہ ملکی سیاست کو زلزلے کا ایک اور جھٹکا لگنا ہے یا نہیں۔
گاڑی جو چل پڑی ہے‘ اب کوشش کرنی چاہیے کہ یہ پٹڑی سے اُترنے نہ پائے کہ اس ہی سے ان سب لوگوں کا مستقبل وابستہ ہے جو اس پر سوار ہیں۔ حالات کو ہموار رکھنے کے لیے جہاں عمران خان کو اقدام سازی کرنا ہوگی‘ وہاں ان کے حریفوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف ملک کی بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔اس نے کُل ڈالے گئے ووٹوں کا ایک تہائی سے کچھ زائد حصہ حاصل کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور آزادامیدوارمل کر دو تہائی کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اگر الگ الگ ہوں تو پلّہ ہلکا ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو انتخابات میں کسی اجتماعی نشان کے بغیر حصہ لینا پڑا۔اس کے تمام تر امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اُترے اور انہیں الگ الگ نشان الاٹ کئے گئے۔ ایسا اس لئے ہوا کہ الیکشن کمیشن کے اطمینان کے مطابق اس کے داخلی انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم نہیں کیا‘ نتیجتاً جو صورت حال پیدا ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور الیکشن کمیشن کے خلاف تحریک انصاف کے سوشل میڈیا مہم بازوں نے خوب غصہ نکالا‘ تحریک انصاف کے ذمہ داران بھی گرجتے برستے رہے‘ان کو اپنے کیے دھرے کی سزا ملی ہو یا اس کا سبب کچھ اور ہو‘ جو مشکل پیدا ہوئی اس کا انکار مشکل ہے۔انتخابی مہم کے دوران بھی تحریک انصاف کے متعلقین و متوسلین کو رکاوٹیں درپیش رہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور انہیں جو شکایات پیدا ہوئیں‘ وہ انبار در انبار ہیں۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ جس صورت حال سے دوچار ہوئے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ مقدمات جس طرح چلائے گئے اور سزائیں جس طرح سنائی گئیں۔وہ سب کچھ جسد ِ سیاست پر ایک گہرے زخم کے طور پر موجود ہے۔ یہ الگ بات کہ سب کچھ اُلٹا پڑ گیا‘ ووٹر خوفزدہ ہونے کے بجائے مشتعل زیادہ ہوا اور یوں تحریک انصاف کا پروانۂ مظلومیت (Victim Card) پروانۂ کامرانی بن گیا۔
انتخابی نتائج کا تقاضا ہے کہ تحریک انصاف کاجماعتی تشخص بحال ہو‘اس کے رہنمائوں نے انٹراپارٹی انتخابات ایک بار پھر کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ اس کے نتیجے میں اس کے ارکان کو منتخب ایوانوں میں اپنی جماعت کے بینر تلے کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ عورتوں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر اس کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے‘ اگر عدالت سے ریلیف نہ مل سکے تو قانون سازی کر کے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ تحریک انصاف کے جو رہنما اور کارکن جیلوں میں ہیں ان کی رہائی کا راستہ بھی کشادہ ہونا چاہیے۔ عمران خان کے خلاف جن مقدمات کا فیصلہ ہوچکا ہے‘ ان کی اپیلوں کی جلد سماعت ہو اور جو زیر سماعت ہیں‘ ان میں اُن کی ضمانتیں منظور کرائی جائیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے‘حکومت کی طرف سے دائر کئے جانے والے کسی مقدمے میں اگر اس کے وکیل ضمانت کی مخالفت نہ کریں تو عدالت بآسانی ایسی درخواست منظور کرلیتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جن انتخابی حلقوں میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں‘ ان کے حوالے سے دائر شکایات کی فوری طور پر سماعت ہو ‘غیر ضروری التوا کسی بھی صورت مفید نہیں ہوگا۔ انتخابی عذرداریوں کی سماعت کے لیے پنجاب میں الیکشن کمیشن کی طرف سے مانگے گئے9 جج صاحبان کے بجائے صرف دو کی فراہمی اضطراب میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔اس الجھن کو سلجھانا ازحد ضروری ہے۔
ہمارے جمہوری مستقبل کی حفاظت کے لیے لازم ہے کہ معاملات سڑکوں پر نہیں ایوانوں میں طے ہوں‘ ایک دوسرے کے ساتھ کشادہ دلی کے ساتھ معاملہ کیا جائے اور جو ہو چکا ‘ سو ہو چکا‘ اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘ اسے دہرانے کی نہیں۔ جو گاڑی چل پڑی ہے‘ اسے چلتے رہنا چاہیے۔ بریک لگے نہ پٹڑی سے اُترنے پائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved