ہمارے پڑوسی ملک ’’جمہوری اسلامی ایران‘‘ کا دستور اختیار اور اقتدار کی مختلف سطحوں (Layers)پر مشتمل ہے ۔عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب اسمبلی کو ’’شورائے اسلامی ‘‘کا نام دیاگیاہے اورقانون سازی کا اختیار اسی ’’شورائے اسلامی‘‘ کو حاصل ہے ۔لیکن اُس کے اوپر ایک ’’شورائے نگہبان‘‘ (Guardian Council)ہے ۔یہ بارہ ارکان پر مشتمل ہے ،اُن میں سے چھ علمائے مُجتہدین ہیںاور چھ ماہرینِ آئین وقانون ۔اِس کونسل کا کام اِس اَمر کی نگرانی کرناہے کہ کوئی قانون مذہب اور دستور کے خلاف نہ ہو ،لہٰذا جو قانون اِس ادارے کی نظر میں مذہب یا دستور کے خلاف ہے ، وہ اُسے نظرِ ثانی کے لیے واپس شورائے اسلامی کے پاس بھیجے گی ۔اختلاف حل نہ ہونے کی صورت میں آئین وقانون کی تعبیر اور تشریح کے حوالے سے شورائے نگہبان کی رائے حرفِ آخر ہوگی ۔ یہی شورائے نگہبان صدر سے لے کر ہر سطح کے انتخابی اُمیدواران کے چناؤکی منظوری کے لیے چھلنی اور فلٹر کا کام کرتی ہے ۔اِس ادارے کی کلیئرنس کے بغیر کوئی اُمیدوار انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہمارے دستور کے آرٹیکل 62اور 63کی طرح اندھا ،گونگا اور بہرا تطہیری نظام نہیں ہے ۔یہ ایک دانا وبینا اور ناطق تطہیری نظام ہے جس کی آنکھیں ،کان ،زبان اور دماغ ٹھیک ٹھیک کام کررہے ہیں ۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی مُنتظمِ اعلیٰ صدر ہوتاہے ،لیکن امریکی صدر کی طرح ایرانی صدر پر بھی تحدید وتوازن (Check & Balance)کا نظام موجود ہے ۔ملک کا سپریم لیڈر ’’رَہبرِ مُعَظّم‘‘ ہوتاہے جو ریاست وحکومت کے روزمرہ معاملات میں دخل انداز نہیں ہوتا، لیکن سب سے طاقتور منصب ہے۔ فقہ جعفریہ میں بارہویں امام، امامِ مہدیِ مُنتَظَر یا امامِ غائب نے اپنے ظہور (Appearance) کے بعد اسلام کو غالب کرنا تھا ،لیکن امام کے غِیاب اور ظَہور کے درمیان جو زمانۂ فَترت (Meantime)ہے‘ اُس میں اسلام کیسے نافذ ہو؟ انقلابِ ایران کے قائد امام خمینی نے ’’ولایتِ فقیہ‘‘ کا تصور پیش کیا کہ اِس مُدت میں اپنے عہد کا سب سے بڑا مذہبی روحانی لیڈر یعنی ’ ’ ولی ِفقیہ‘‘قوم کی رہنمائی کرے گا اور اُس کے بارے میں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ’’مُلہَم مِنَ الاِمَام‘‘(Inspired by Imam)ہوگا ،یعنی وہ امامِ مُنتَظر کے رُوحانی تَصرُّف اور فیض سے قوم کی رہنمائی کرے گا ۔امام خمینی کے بعد آج کل ’’آیت اللہ سید علی خامنہ ای‘‘ اِس مَنصب پر فائز ہیں ۔ جب ایرانی دستور پر عمل درآمد شروع ہواتو مختلف مواقع پر اختیار واقتدار کے مراکز میں تَعطُّل (Deadlock)پیداہوگیا ،اِس تَعَطُّل کو دور کرنے کے لیے ایک نیا آئینی ادارہ ’’مَجمَعِ تَشخِیصِ مَصلِحتِ نظام ‘‘ تشکیل دیا گیا کہ کسی بھی تَعَطُّل کی صورت میں اِس ادارے کی رائے حرفِ آخر ہوگی۔ روس یا بعض دیگرممالک میں اِس مقصد کے لیے معمول کے عدالتی نظام سے الگ ایک آئینی عدالت ہوتی ہے ،جو کسی بھی دستوری تَعطُّل اور اداروں کے تَصادم کو حل کرنے کے لیے حرفِ آخر ہوتی ہے ، اِبہام دور کرتی ہے اور ایسی تعبیر وتشریح کرتی ہے کہ دستور پر عمل درآمد جاری رہے اور ادارے اپنی حدود میں رہیں ۔ ہماری پارلیمنٹ نے قومی انتخابات کے لیے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں قائدِ ایوان اور قائدِ حِزبِ اختلاف کے اِتفاقِ رائے سے ایک عبوری غیر جانبدار نگران وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کا تصور پیش کیا تاکہ قومی انتخابات کی شَفّافیت اور غیر جانبداری شک وشبہ سے بالاتر ہو اور اس کا اعتبار اور ساکھ قائم رہے۔ لیکن نگران سیٹ اَپ بنانے کے موقع پر ڈیڈ لاک پیداہوگیا اور یہی ڈیڈ لاک ’’نیب‘‘ کا چیئرمین مقرر کرنے پر ہوا ،اور پھر لیپاپوتی سے کام لیا گیا۔ غلام اسحاق خان جب نگران صدر بنے تواُن سے کہاگیا کہ آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے آپ نے نگران وزیرِ اعظم مُقرر کیوں نہیں کیا؟ اُنہوں نے جواب میںپشتو کی ایک کہاوت سنائی کہ :’’کیا (معاذاللہ !)اللہ تعالیٰ ایساپتھرپیداکرسکتاہے جسے وہ خود نہ اُٹھاسکے ‘‘،یعنی جسے میں وزیرِ اعظم مُقرر کروں گا وہ میراہی کَٹھ پُتلی (Puppet)اور Yes Manہوگا تو اُس کے ہونے یا نہ ہونے سے فیصلوں اور اُن کے نفاذ میں جوہری تبدیلی نہیں آئے گی ۔ اورفوجی حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے والے اعلیٰ بیورو کریٹس کے لیے دستوری تقاضوں کی پاسداری کی چنداں اہمیت نہیں ہوگی ۔ یہ لمبی تمہید میں نے اِس لیے باندھی کہ ہمارے یہاں بھی ’’ مَصلحتِ نظام ‘‘ کا کوئی قابلِ عمل دستوری نظام (Mechanism)ہونا چاہیے جوکہ نہیں ہے ،اِسی لیے ہم بحرانوں سے نکل نہیں پارہے ۔ہمارے یہاں آج کل انتہائی سنگین مسائل یہ ہیں :(1) دہشت گردی اور بدامنی (2) توانائی کا بحران (3)معاشی بدحالی (4)قانون کی حکمرانی کا فقدان ۔ توانائی کے بحران یعنی Load Sheddingکا اِزالہ کرنے کے لیے بظاہر حکومت سرتوڑ کوشش کررہی ہے ،لیکن یہ کوششیں حکمرانوں کی توقعات کے برعکس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہیں ۔ اشیائے صرف میں کسی چیز کا بُحران اُس وقت پیداہوتاہے جب اُس کی طلب(Demand)،رَسَد (Supply)سے بڑھ جائے۔ ہمارے یہاں طلب اور رَسَد میں تَفاوُت یقیناً ہے ،لیکن حکومت دس ہزار میگا واٹ بجلی بھی پیدا (Generate)کرکے نیشنل گرِڈ میں ڈال دے، تب بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا ،کیونکہ جس جیب میں کئی سوراخ ہوں ،اُس میں آپ جتنے بھی پیسے ڈالتے چلے جائیں ،وہ کبھی بھی بھر نہیں پائے گا ۔ہمارے توانائی کے بُحران کی جَڑ بڑے پیمانے پر بجلی کے غیر قانونی کنکشن ہیں، کُنڈا سسٹم ہے، کئی علاقے ایسے ہیں جہاں قانونی کنکشن اور بلنگ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ،بعض علاقوں میں لوگوں نے ہمیں دکھایا کہ بجلی کی ترسیل کے ادارے کے بجائے پرائیویٹ لوگ ماہانہ بل وصول کررہے ہیں، جب کہ کُنڈا سسٹم ہے،میٹر کا نام ونشان نہیں ہے۔ حکومتیں مَصلحت کا شِکار ہیں ،سیاسی عزم اور قوّتِ فیصلہ سے محروم ہیں اور اپنے اپنے دائرۂ اَثر میں جرائم پیشہ اَفراد کی یا تو سرپرستی کررہی ہیں یا اُن پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں۔ ایسی صورتِ حال میں ہمیں بھی کسی ’’ مجلسِ تَشخِیصِ مَصلحتِ نظام ‘‘ کی اَشد ضرورت ہے ۔ضروری ہے کہ ہر علاقے میں نیشنل گرِڈ سے وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو بجلی کسی میگا میٹر کے ذریعے دی جائے اور آگے تقسیم اور وصولی کی وہ ذمہ دار ہو ۔بعض علاقوں میں یاکسی علاقائی امتیاز کے بغیر انتہائی کم آمدنی والوں کو بجلی بالکل مفت یا انتہائی سستی دینا بھی مقصود ہو تو باقاعدہ سسٹم کے تحت اور میٹر کے ذریعے دی جائے اور اُس کی حد مُتعیّن ہو‘ ورنہ انتہائی کوشش کے باوجود اِس حکومت کے پانچ سال بھی پورے ہوجائیں گے ،لیکن یہ بُحران حل نہیں ہوگا ،کیونکہ آبادی بڑھ رہی ہے ،شہروں اور دیہاتوں میں مکانات کی تعمیر زور شور سے جاری ہے اور طلب میں روزبروز اِضافہ ہورہاہے ۔جب تک نظامِ اقتدار (یعنی حزبِ اقتدار وحزبِ اختلاف ) میںشامل تمام ذمہ داران خلوصِ نیت سے یک سُو ہوکر اِس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے اور اپنے اپنے زیرِ اثر حکومتوں کو پابند نہیں کریں گے ،تو اِس مسئلے کی سنگینی اور شِدّت میں اِضافہ ہی ہوتارہے گا۔ سیاستدان تو ایک دوسرے کو لَعن طَعن کرکے اور ناکامیوں اور نامُرادیوں کا مَلبہ ایک دوسرے پر ڈال کر اپنی نفسانی تسکین کا انتظام کرلیں گے، مگر ملک وقوم کا کیا بنے گا ؟،اِس کے بارے میں سب کو سوچنا چاہیے ۔ یہ بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ مثلاً KESCکو پرائیوٹائز کرتے وقت بجلی کے سامان سمیت اسٹاک کیاتھا اورآج کیا ہے۔ اس ادارے کے مالکان نے یہاں کے وسائل ہی باہر منتقل کیے ہیں یا باہر سے کچھ وسائل لاکر سسٹم کو ترقی دی ہے ،ہمیں تویہ بھی بتایاگیا ہے کہ جہاں جہاں تانبے کی تاریں (Copper Wire)بجلی کی ترسیل کے نظام میں پہلے سے تھیں،اُنہیں اُتار کر اُن کی جگہ المونیم کی تاریں ڈال دی گئی ہیں، لہٰذا یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اداروں کی پرائیوٹائزیشن لوٹ مار کے لیے ہوتی ہے یا نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہوتی ہے ۔لہٰذا اشد ضروری ہے کہ اداروں کی پرائیوٹائزیشن سے پہلے آئینی اورقانونی ماہرین سے ان سے معاہدے کی دستاویز (Contract Deed)تیار کروائی جائے اور اُس میں قومی وملکی مفادات کے تحفظ کو اوّلین ترجیح دی جائے ،ورنہ جیساکہ انٹرنیشنل پاور پروجیکٹس کی Dealکے وقت بے تدبیری اور عجلت سے کام لیاگیا ،وہ بعد میں ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved