عمران خان اور پی ٹی آئی پر جب بھی کوئی تنقید کی‘ بہت سنگِ ملامت سہنے پڑے۔ جب کبھی ان کے فیصلوں پر اعتراض کیا‘ مخالف جملوں سے جھولی بھر کر لوٹا۔یہ بھی نہیں سوچا کہ اسی قلم سے ان کی مدح سرائی بھی بہت کی گئی تھی۔ بہرحال یہ تو لکھنے والے کا مقدر ہے۔ میں نے اپنے کالم کا عنوان ''دل سے دل تک‘‘ اس لیے رکھا تھا کہ صرف دل کی بات کہی جائے خواہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے‘ خواہ ایک دل سے نکلے اور صرف ایک ہی دل اسے قبول کرے۔ لیکن بات مصلحت کی نہیں‘ دل کی ہو گی۔ ایک بار یہ طے ہو گیا تو داد‘ بے داد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہرحال غالب کی طرح آج میرا دل ایک بار پھر طوافِ کوئے ملامت کے لیے نکلنا چاہتا ہے۔
یہ دعویٰ کرنے والے تو بہت ہیں کہ ملک اور ریاست ہمیشہ ملکی سیاست سے بالاتر ہیں‘ ہر سیاسی مصلحت‘ دائو پیچ اور مفاہمت و مخالفت پر فائق۔ اداروں پر حملہ نہیں کرنا چاہئے اور انہیں مجروح نہیں کرنا چاہئے‘ اختلاف بھی ہو تو ایک سرخ لکیر عبور نہیں کرنی چاہئے کہ یہ ملک پر حملہ ہو گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ عملاً اس اصول کی پیروی کون سی سیاسی جماعت کرتی ہے۔ درست تو یہ ہے کہ مقتدرہ ہو یا سیاسی جماعتیں‘ یہاں سب ایک سے ہیں۔ لیکن اس وقت ہم بات سیاسی جماعتوں کی کر رہے ہیں کہ کسی بڑے اختلاف میں ان کا کردار کیا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتی رہی لیکن ایسا تھا نہیں۔ بھٹو خود ایوب خان کے بنائے ہوئے تھے۔ پھر کئی ادوار گزرے۔ چند سال پہلے تک آصف زرداری نے ڈھکے چھپے انداز میں مقتدرہ کو دھمکیاں بھی دیں‘ لیکن سرخ لکیر کبھی عبور نہیں کی۔ اور اب تو وہ مقتدرہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ اسی ہم آہنگی کے تحت پی ڈی ایم بنی تھی اور اسی کے تحت موجودہ بندوبست میں پیپلز پارٹی شریک ہے۔ کئی سال سے پیپلز پارٹی کا لب و لہجہ اور انداز بالکل بدل چکا ہے۔ بہرحال گزشتہ تیس‘ چالیس سال کے کسی بھی دور میں یہ سرخ لکیر عبور نہیں کی گئی۔ اس طرزِ عمل نے پارٹی کو زندہ رکھا۔ (ن) لیگ نے 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا اور نواز شریف نے مقتدرہ مخالف بیانات بھی بہت دیے لیکن عملاً نواز شریف‘ شہباز شریف اور دیگر بڑے رہنمائوں کے بیچ اداروں سے مفاہمت یا مخالفت کے جو اختلافات تھے‘ اس نے (ن) لیگ کو کبھی مقتدرہ مخالف جماعت نہیں بننے دیا۔ ویسے بھی وقتی مصلحتوں کو سامنے رکھنے میں نظریہ کہیں دور جا پڑتا ہے۔ پی ڈی ایم سے لے کر موجودہ بندوبست تک‘ (ن) لیگ وقتی مصلحتوں کے پیشِ نظر ہر جگہ طاقتور حلقوں کے ساتھ چلتی رہی اور اسی طرح اقتدار حاصل کرتی رہی۔
عمران خان نے طویل جدوجہد کے بعد تحریک انصاف کو ٹیک آف کی پوزیشن تک پہنچا دیا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ کام کسی اور کے بس کا نہ ہوتا۔ لیکن 2013ء کے انتخابات کے لگ بھگ انہوں نے امپائر سے مل کر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اسی مدد سے وہ وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہ اس کرسی پر تھے‘ سرخ لکیر عبور کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ان کی کمر سے ہاتھ ہٹا لیا گیا۔ خان صاحب اس کا تصور نہیں کر رہے تھے۔ کرسی کھینچ لیے جانے کا تجربہ ان کے لیے پہلا تھا۔ اس وقت بہترین حکمت عملی یہ ہوتی کہ وہ قومی اسمبلی میں رہ کر مقابلہ کرتے اور آہستہ آہستہ چند سیٹوں کا فرق مٹا کر دوبارہ برسرِ اقتدار آجاتے لیکن وہ اس خیال میں رہے کہ ان کے نکلنے سے اسمبلی بے جان ہو جائے گی اور جو اسمبلیاں وہ توڑیں گے‘ اس پر آئین کے تحت انتخابات 90 دن میں ہو جائیں گے۔ خان صاحب کی خود پسندی اور خود رائی مشہور ہے‘ یہی نہیں ان کا جذبۂ انتقام بھی مشہور ہے۔ وہ اپنے مخالف کو معاف کرنے اور تدبیر کے ساتھ قابو کرنے کی خوبی سے عاری ہیں۔ اگرچہ تین سالہ دورِ حکومت میں ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا‘ لیکن وہ پھر بھی شخصی طور پر مقبول ترین رہنما تھے اور ان کی سٹریٹ پاور کو اکٹھا کرنے کی طاقت بھی موجود تھی۔ انہی کیفیات میں انہوں نے وہ زبان استعمال کرنا شروع کی‘ وہ الزامات لگانا شروع کیے جو کسی مدبر سے ممکن نہیں ۔ انہوں نے وہ فیصلے کرنا شروع کیے جو کسی بھی دانشمند سے بعید ہیں۔ پی ٹی آئی نے خان صاحب کی رہنمائی میں وہ سرخ لکیر عبور کر لی جو نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ریاست مخالف ہر کوشش سے وہ خود کو نقصان پہنچاتے گئے۔ شوکت ترین کی وہ آڈیو کال یاد کریں جو انہوں نے آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے دینے کے لیے کی تھی۔ خان صاحب کو بہت مشورے دیے گئے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں نہ توڑیں‘ اور اس بیانیے سے بھی اجتناب کریں جو ٹکرائو کا بیانیہ ہے لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی۔ تحریک انصاف میں ایسے کئی لوگ موجود تھے جو ماضی میں مقتدرہ کے منظورِ نظر رہے تھے۔ وہ معاملات مفاہمت کی طرف لے جا سکتے تھے۔ پرویز الٰہی اور شیخ رشید محض دو نام ہیں‘ لیکن خان صاحب اڑے رہے۔ اس بیانیے کا پی ٹی آئی کو بے پناہ نقصان ہوا اور تمام تر فائدہ ان کے مخالفوں کو پہنچا۔ بعد میں معتدل بیانات بھی اس تاثر کو ختم نہیں کر سکے۔ ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ مقتدرہ نے ان کی حمایت سے تو ہاتھ کھینچا ہی تھا‘ اس ناقابلِ برداشت بیانیے سے اس کے نزدیک یہ بھی طے ہو گیا کہ ان کے ساتھ مستقبل میں بھی نہیں چلاجا سکتا۔ اس کا مزید نقصان پی ٹی آئی کو حالیہ انتخاب میں ہوا اور اب منظر یوں بنا کہ صدر آصف زرداری‘ وزیراعظم شہباز شریف‘ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب‘ مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ‘ سرفراز بگٹی وزیر اعلیٰ بلوچستان‘ علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ کے پی۔ لے دے کر فی الوقت کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی‘ باقی جگہ تحریک انصاف اپوزیشن میں بیٹھے گی اور عدالتوں نے داد رسی نہ کی تو بیٹھی ہی رہے گی۔ تو کیا برا تھا اگر خان صاحب مارچ 2022ء میں‘ دو سال کیلئے مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور دو صوبوں میں حکمرانی کرتے؟ کیا وہ صورت اس سے بہتر نہیں تھی؟ کیا برا تھا کہ جس جے یو آئی (ایف) سے اب مذاکرات اور یک نکاتی ایجنڈے پر بات کر رہے ہیں‘ اس وقت ہی کر لیتے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ یہ ملاقات پارٹی کی نوجوان قیادت کے اصرار پر ہوئی ہو گی۔ خان صاحب سے بعید لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور جے یو آئی سے متعلق اپنے سابقہ بیانات بدل سکیں۔
اور اب میں بیرسٹر گوہر کا بیان پڑھتا ہوں کہ ہم اسمبلیوں میں رہ کر جدوجہد کریں گے‘ ہم ان سے نہیں نکلیں گے۔ میں شیرافضل مروت کا بیان پڑھتا ہوں کہ اگر ہم اسمبلیوں سے استعفے نہ دیتے اور پنجاب‘ کے پی کی اسمبلیاں نہ توڑتے تو 9 مئی سے بچا جا سکتا تھا تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ تحریک انصاف نے ماضی سے سبق حاصل کیا ہے۔ مگر اس کے بعد میں آئی ایم ایف کے نام خان صاحب کا تازہ خط پڑھتا ہوں اور کڑھتا ہوں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر امریکہ ہے‘ جسے خان صاحب بار بار اپنا مخالف بنا چکے ہیں۔ اس خط کا فائدہ ہونے والا نہیں لیکن اگر ہو بھی تو یہ بیان مخالفوں کے نہیں ملک کے خلاف جائے گا۔ کیا عجیب ذہن ہے جو امریکہ کیلئے تو کہتا ہے کہ اسے پاکستانی سیاست میں مداخلت کی جرأت کیسے ہوئی‘ کیا ہم غلام ہیں؟ اور آئی ایم ایف کو پاکستان سیاست میں گھسیٹنے کیلئے خط بھیجتا ہے۔ خان صاحب اب اس عمر میں اپنی عادتیں اور مزاج بدلنے سے رہے۔ خان صاحب کے لیے تو بس یہی دعا ہے کہ وہ جیل سے بھی نکل آئیں اور اپنے خول سے بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved