کل ہم نے جعفر طاہر کی معرکہ آرا اور تاریخ ساز تصنیف ''ہفت کشور‘‘ کے حوالے سے چار ملکوں ( ترکی‘ مصر‘ عرب اور عراق) کے متعلق بات کی تھی۔ کتاب کا پانچواں باب ایران کے بارے میں ہے۔ جعفر طاہر نے قدیم تاریخ سے لے کر عہدِ جدید تک ایران کی تاریخ کو دلچسپ انداز میں نظم کیا۔ ایران حسن و جمال کا‘ پھولوں اور چشموں کا‘ قالینوں اور توشکوں کا اور شاعروں اور محبوبوں کا ملک ہے۔ جعفر طاہر کا اس سلسلے میں حُسنِ بیان دیکھیے ؎
دشت در دشت یہ آہو روِشانِ پُرکار
یہ طلسمات سے معمور ختن کیا کہنے
باغ در باغ نسیمِ طرب و بادِ شمال
یہ فرو فالِ حسینانِ چمن کیا کہنے
تاک در تاک مچلتے ہوئے شیریں چشمے
مسکراتے ہوئے یہ کوہ و دمن کیا کہنے
آج تک تیرے حسینوں کا نہیں کوئی جواب
اے ستاروں کے بہاروں کے وطن کیا کہنے
فردوسی کا شاہنامہ ایرانی ثقافت کی جان ہے۔ رستم و سہراب کا قصہ فردوسی نے بے مثل انداز میں بیان کیا ہے۔ جعفر طاہر نے اس کا ذکر کیسے کیا ہے‘ ملاحظہ کیجیے ؎
یہ فردوسیٔ نامور کی زبانی؍
سنو داستانِ جنون و جوانی
عجب قصّۂ حسرت و درد ہے یہ؍ نرالی انوکھی ہے ساری کہانی
سمجھ لو کہ سہراب وہ نوجواں تھا؍ کوئی جس کا مدِّمقابل نہ ثانی
مگس کی طرح اس کے آگے زمانہ؍ کئی پہلوانوں کے پِتّے ہوں پانی
مگر باپ کو اپنے دیکھا نہیں تھا؍ ستم اس پہ احباب کی چھیڑ خانی
ہوا باپ کی جستجو میں روانہ؍ نہ تصویر دیکھی نہ مانگی نشانی
پھرا شہر در شہر اس آرزو میں؍ مہ و سال صحراؤں کی خاک چھانی
ملا باپ سے تو نہ پوچھو محبّو؍ پیامِ قضا بن گئی پہلوانی
الٰہی یہ کیا ہو گیا دو گھڑی میں؍ زمیں ہو گئی خون سے ارغوانی
وہ سینے میں رستم کا خنجر گڑا ہے؍ دریغا جوانی! دریغا جوانی
ایران سعدی اور حافظ کی سرزمین ہے ؎
یہ سعدی کے پُر نور کوچے‘ گلستاں کے اوراق‘ یہ بوستان و بہاراں
انہی شاہراہوں پہ کھیلا ہے وہ شہر یارِ غزل‘ وہ شہیدِ نگاراں
وہ سعدی کہ جس کا سخن آج بھی محفل و مدرسہ کے لیے آبرو ہے
حسینوں کا زیور‘ فقیروں کی دولت‘ تو مستوں کو صہبائے خوش کا سبو ہے
یہاں تجارتی کارواں آتے تھے اور ریشم و کمخواب سے لے کر گھوڑوں اور قالینوں تک‘ دنیا کی ہر شے یہاں بیچی اور خریدی جاتی تھی۔ پھر جعفر طاہر ترک خدوخال کا ذکر کرتے ہیں جو رومان پرور دریچوں کے پیچھے جام و سبو سے کھیل رہے ہیں۔ قباؤں میں بجلیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ نقابوں کے اندر شعلوں جیسے رخسار ہیں۔ پھر عمر خیام کی بات کرتے ہیں جو حسن و جوانی کے اسرار سے آگاہ تھا اور زندگی کے بھید جس پر کھلتے تھے۔ اس کی رباعیاں عمرفانی کا نوحہ ہیں اور لمحۂ موجود سے حَظ اٹھانے کی تلقین کرتی ہیں۔ قلیان و قہوہ کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ پائلیں چھنکتی ہیں۔ شبنم برستی ہے۔ غمِ دو جہاں کو اس ماحول میں بھلا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ مشہد میں امام رضا کے مقدس روضہ کا ذکر کرتے ہوئے دست بستہ ہو جاتے ہیں۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اب سامنے اور ہی آستاں ہے۔ یہاں زمانہ باادب ہو کر حاضر ہوتا ہے۔ یہاں آنسوؤں سے وضو کیا جاتا ہے۔ یہاں کا ایک ایک ذرہ مقدس ہے۔ پھر وہ اصفہان نصف جہان کا قصیدہ کہتے ہیں جس کے باغات‘ محلات‘ قصر و ایواں اور عمارتوں کے ستون پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ جہاں حیران کر دینے والے مینار اور محراب ہیں۔ جہاں شہزادیاں چاندنی راتوں میں چوگان (پولو) کھیلتی ہیں۔ کہیں سرو و چنار کی چھاؤں ہے اور کہیں ستارہ جبیں نازنینیں دکھائی دیتی ہیں۔
شیر شاہ سوری نے جب ہمایوں سے تخت و تاج چھین لیا تو ہمایوں نے ایران کا رُخ کیا۔ اس کا پہلا پڑاؤ ہرات تھا۔ اس وقت شاہ طہماسپ صفوی ایران کا حکمران تھا۔ قزوین اس کا دارالحکومت تھا۔ طہماسپ نے ہمایوں کا ہرات میں فقید المثال استقبال کرایا۔ ہرات کے گورنر کو اس نے اس ضمن میں جو ہدایات دیں‘ ابو الفضل نے ''اکبر نامہ‘‘ میں یہ ہدایات نقل کی ہیں جو تیرہ صفحات پر مشتمل ہیں۔ ہمایوں کا وفادار مشیر بیرم خان طہماسپ کے دربار میں پہلے پہنچ چکا تھا۔ بیرم خان اور طہماسپ کے درمیان جو گفتگو ہوئی‘ اسے جعفر طاہر نے منظوم ڈرامے کی شکل دی ہے۔ یہ ڈرامہ بھی بہت دلچسپ ہے۔
جعفر طاہر نے جب یہ شہکار کتاب لکھی‘ اُس وقت مشرقی پاکستان‘ پاکستان کا حصہ تھا۔ پاکستان کے باب میں انہوں نے مشرقی پاکستانی ثقافت کا بھر پور تذکرہ کیا ہے۔ وہ ڈھاکہ کی ململ کا‘ باریسال کے چاول کا‘ منشی گنج کے کیلے کا‘ سلہٹ کے مالٹے کا‘ رنگ پور کے تمباکو کا‘ کُمیلا کے حقے کا اور پبنہ کے ٹیکسٹائل کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کا ذکر کرتے ہیں جب مسلمان ہندو اکثریت اور انگریز سامراج کے درمیان پِس رہے تھے۔ ؎
چھا گئی اس ملک پر یہ رات کیا؍ نور کا انجام ہے ظلمات کیا
مٹ گئی دلّی‘ اوَدھ برباد ہے؍ لُٹ گئے بازار کیا محلات کیا
گلشنِ اسلامیاں پامال ہے؍ باغ ہی باقی نہیں تو پات کیا
اس طرف سیّد اٹھا‘ حالی اٹھا؍ سر سلیم اللہ خاں کی بات کیا
کفر و دیں کے درمیاں اب ٹھن گئی؍ بنتے بنتے لیگ ملّت بن گئی
پاکستان کے باب میں ایک خاص تخلیق طویل بحر کی ایک نظم ہے جو جعفر طاہر کے شاعرانہ کمال کا مظہر ہے۔ صرف ایک شعر یہاں نقل کیا جاتا ہے ؎
گُل و گلزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی مَے
طبلک و چنگ و مزامیر و دف و بربط و الغوزہ و طاؤس و گجر نادیہ طنبورہ و نَے
پھر پاکستان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎
تیرے نخل و نوا‘ تری آب و ہوا‘ ترے کھیت ہرے‘ تری گود بھرے
تری ریگِ تپاں کا جو آئے بیاں‘ روئے خَلق پہ مخملِ خواب چمکے
یہ اس عظیم ادبی عجوبے کی چند جھلکیاں تھیں۔ کل ہم نے اس حسرت کا اظہار کیا تھا کہ کاش کوئی پبلشر اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھائے۔ جہاں تک سرکاری ادبی اداروں کا تعلق ہے‘ ان سے یوں تو امید رکھنا عبث ہے مگر حسنِ اتفاق سے اس وقت دونوں بڑے اداروں کے سربراہ ادب کے خیر خواہ ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم مظہر محقق اور ادیب ہیں اور ادب دوست بھی۔ اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف بھی میرٹ پر کام کرتی ہیں! کیا عجب ان دونوں اداروں میں سے کوئی ایک ہمت کرے اور اس نایاب ادب پارے کو از سرِ نو شائع کر دے!! بقول فراز ؎
دیکھ یہ میرے خواب ہیں‘ دیکھ یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved