حکومتیں قائم ہو گئیں۔ وعدوں کا دور تمام ہوا۔ اب ایفائے عہد کا وقت ہے۔ لازم ہے کہ اہلِ اقتدار کو ان وعدوں کی طرف متوجہ کیا جائے‘ جو انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے۔
سب سے پہلے تو اس ہدایت کی تذکیر لازم ہے جو اس عالم کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی اور جس پر اہلِ حکومت کا ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے عہد کو پورا کرو۔ یہ بھی کہا: عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے خبردار کیا: جس کا عہد نہیں‘ ان کا کوئی ایمان نہیں۔ اس باب میں بہت سی آیات اور احادیث نقل کی جا سکتی ہیں‘ جو بتاتی ہیں کہ اللہ اور رسول اس بارے میں کتنے حساس ہیں اور دین میں وعدہ خلافی کتنا بڑا اخلاقی جرم ہے۔
تمام بڑی جماعتوں کو کسی نہ کسی صورت میں‘ اقتدار میں حصہ ملا ہے۔ سب نے اسے قبول کیا ہے۔ سب نے اس سسٹم کو اپنی حمایت فراہم کی ہے۔ اس لیے ان کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ یہ سسٹم کو کامیاب بنائیں۔ حلف اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو گواہ بنا کر اس نظام سے وفاداری کا عہد کیا گیا ہے۔ منتخب افراد کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اس نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ وعدہ خلافی ہو گی کہ اسی نظام سے وفاداری کا حلف اٹھایا جائے ا ور پھر اس کی ناکامی کے درپے ہوا جائے۔
مرکز اور پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت قائم ہو چکی۔ (ن) لیگ نے اپنے منشور میں کچھ وعدے کر رکھے ہیں۔ ایک وعدہ یہ کیا گیا کہ نوے دن میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا مطلب جمہوریت کی جڑیں مضبوط بنانا ہے۔ جمہوریت اقتدار کی مرکزیت کے بجائے اختیار کی تقسیم کی داعی ہے۔ اس لیے بلدیاتی نظام کی مضبوطی جمہوریت کی مضبوطی ہے۔ امید ہے کہ (ن) لیگ اپنے اس وعدے کو پورا کرے گی۔
(ن) لیگ نے اپنے منشورمیں 'خصوصی نگرانی اور عمل در آمد کونسل‘ کا بھی وعدہ کیا ہے۔ یہ کونسل حکومت کی سہ ماہی کارکردگی کی رپورٹ تیار کرے گی۔ یہ کونسل فوری طور پر بن جانی چاہیے جو جون میں اپنی پہلی رپورٹ پیش کر دے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ماضی میں اس نوعیت کے فورمز بنتے رہے ہیں مگر یہ اپنا تسلسل باقی نہیں رکھ سکے۔ یہ فورمز خود حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ہر وزیر کو یہ معلوم ہو کہ اس کی کارکردگی پر نظر رکھی جا رہی ہے تو پھر یقینا وہ اپنے فرائض کے بارے میں حساس ہو گا۔ میری تجویز ہو گی کہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے بھی پیش کیا جائے تاکہ لوگ اگلی بار ووٹ دیتے وقت اپنے نمائندے کی کارکردگی کو سامنے رکھیں۔
(ن) لیگ نے پاکستان کو موسمی اثرات سے محفوظ بنانے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔ ماحولیات اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ سموگ نے آدھے پنجاب کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ ماحولیات کے حوالے سے‘ سب سے اہم درختوں کی حفاظت اور پہاڑوں کی کٹائی کو روکنا ہے۔ اس کے ساتھ زرعی زمین کو محفوظ بنانا ہے۔ ریاست اور سماج اس وقت ہاؤسنگ سوسائٹیز کے یرغمال بن چکے ہیں۔ زرعی زمین تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ اسلام آباد کے پہاڑ تیزی سے میدانوں میں بدل رہے ہیں جہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر ریت‘ سیمنٹ اور بجری کے پہاڑکھڑے کیے جا رہے ہیں۔ کوئی قانون اور ضابطہ اس کو روکنے پر قادر نہیں۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت درختوں‘ پہاڑوں اور زرعی زمین کو بچا سکتی ہے؟
آبادی کا مسئلہ اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ملک کی آبادی بہت بڑھ چکی۔ یہ بات درست ہے۔ اس لیے بڑھتی آبادی کو موضوع بنانا چاہیے۔ (ن) لیگ نے اپنے منشور میں اس کو شامل کیا ہے۔ اب اس پر عمل درآمد کا وقت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آبادی کو کنٹرول کیے بغیر کوئی تعمیراتی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سڑکوں کی توسیع ہوتے دیکھی ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ اس توسیع کے بعد بھی رتی برابر فرق نہیں پڑا۔ ٹریفک اسی طرح جام رہتی ہیں اور وقت اسی طرح برباد ہوتا ہے۔ اس لیے آئندہ بھی محض سڑکوں کی توسیع سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے آبادی کو کسی ضابطے کا پابند کرنا لازم ہے۔ اسی کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ (ن) لیگ نے اس کو بہتر بنانے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔ اس کو بھی اولیں سطح پر مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کا آغاز سکولوں کے بچوں کے لیے بہتر ٹرانسپورٹ سسٹم سے کیا جانا چاہیے۔
تمام جماعتوں کے منشور پر اگر اسی طرح بات کی جائے توکالم کی طوالت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ آغاز ہی میں صرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اب تمام اہم جماعتوں کا امتحان شروع ہو چکا۔ عالمی ادارے (IPSOS) کا سروے بتا رہا کہ پاکستان کے54 فیصد افراد کو انتخابات کے نتائج پر اعتماد ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ عدم اعتماد کی شرح کے پی میں سب سے زیادہ ہے‘ جہاں پی ٹی آئی جیتی ہے۔ دوسرے صوبوں کی اکثریت انتخابات کو شفاف مانتی ہے۔ سیاسی جماعتیں جب اس نظام کا حصہ بن چکیں تو انہیں چاہیے کہ اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے‘ اب اسے کامیاب بنائیں۔ اس کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ کارکردگی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔ اس ملک کے عوام کی مشکلات میں کمی لائیں اور اسے سیاسی کارکردگی کا پیمانہ بنائیں۔
وزیراعظم شہباز شریف صاحب‘ اب عوام سے کسی وقت خطاب کریں گے۔ میرا مشورہ ہو گا کہ وہ سبر باغ دکھانے کے بجائے عوام کو پورا سچ بتائیں۔ وہ قوم کو بتائیں کہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے معیشت کی صورتِ حال کیا ہے؟ ہم نے پہلے سال کتنا قرض ادا کرنا ہے؟ عوام کو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب توقعات پورا نہیں ہوتیں۔ عوام کو توقع کے بجائے امید دلانی چاہیے۔
دو کام ایسے ہیں جو فوری طور پر کیے جانے چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے عوام کو یہ دکھائی دے کہ حکومتی سطح پر کوئی شاہ خرچی نہیں کی جا رہی۔ غیر ضروری پروٹول میں کمی جیسے اقدامات کیے جائیں۔ عوام کو زبانِ حال سے یہ پیغام ملے کہ حکومت کو ایک فرض سمجھا جا رہا ہے نہ کہ مراعات کے حصول کا ذریعہ۔ دوسرا یہ کہ انہیں ہر بات سچ سچ بتا دی جائے۔ وزیراعظم گورننس کو پہلی ترجیح بنائیں۔ مثال کے طور پر عام چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے دفاتر کے دھکے کیوں کھائیں؟ کاروبار کے لیے ون ونڈو آپریشن کیوں نہ ہو؟ وزیراعظم ہاؤس میں شکایات کے آن لائن ازالے کا نظام فوری طور پر بنا دیا جائے۔ ای گورننس کو ترجیح دی جائے۔
اسمبلی میں حکومت اپوزیشن کے احتجاج کو نظر انداز کرے۔ ترکی بہ ترکی جواب دینا ضروری نہیں۔ حکومت کا کام وعظ و نصیحت یا طعنہ زنی نہیں۔ اس کا کام شکایات کا ازالہ ہے۔ اگر اپوزیشن کی کوئی شکایت جائز ہے تو اسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔ عوام کو اندازہ ہو جائے گا کہ کون بلا وجہ احتجاج کر رہا ہے اور کون ان کے مسائل حل کر نا چاہتا ہے۔ کون فتنہ اٹھا رہا ہے ا ور کون نظام میں بہتری لانا چاہتا ہے؟
ابتدا ہی سے اگر سیاسی جماعتوں کو اپنے وعدے یاد رہیں اور ان کی نظر حسنِ کارکردگی پر ہو تو آنے والے پانچ برسوں میں استحکام آ سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے تین دن افراتفری میں گزر گئے۔ عوام منتظر ہیں کہ کب ان کے مسائل پر بات شروع ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved