دو روز ہوئے جنم دن تھا اور اب پچھترویں سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ منانا کیا تھا جنم دن کو‘ بس یوں ہی گزر گیا۔ لیکن یہ احساس تو آتا ہے کہ بقیہ کے دن جو اپنے نصیب میں ہوں وہ کیسے گزریں گے۔ کچھ چیزوں کا تو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اب بھی کسی پھکی یا دوا کے بغیر دو وقت کا کھانا کھا لیتے ہیں۔ نیند بغیر کسی مدد کے آ جاتی ہے ‘ راحتِ شب کے اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ معمولی باتیں نہیں اور ان کی بنا پر آسمانوں کا جتنا بھی شکرادا کیا جائے کم ہے۔ زاہدوں اور شیوخ کی اجازت ہو تو یہ بھی کہتے چلیں کہ راہ ِالفت یا رسمِ الفت ... موزوں اصطلاح کیا ہوگی؟... پر بھی چلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اُلفت کی راہیں بند ہو جائیں توزندگی باقی کیا رہ جاتی ہے؟
جہاں تک پارسائی کے راستے ہیں اس حوالے سے اپنے آپ کو بدقسمت ہی کہیں گے کیونکہ ان پر چلنے کے اب تک مواقع میسر نہیں آئے۔ اس ضمن میں ہمارا حال تو غالب والا ہے ‘ کیا کہا اُنہوں نے؟ آ ہی جاتے راہ پر غالب ‘ کچھ دن اور اگر جیے ہوتے۔ یہ زندگی تو ایسے ہی گزرتی گئی ہے ‘ پارسائی کے راستوں پر چلنے کیلئے ایک اور زندگی درکار ہوگی‘ لیکن اگروہ غالب کو میسر نہ آئی تو ہم کم بختوں کو کہاں سے ملے گی۔ بہرحال دل میں ارمان تو رہ جائے گا‘ کہ ہم بھی کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوتے‘ نصیحتیں بکھیر رہے ہوتے‘ مصنوعی لبادہ کوئی اوڑھا ہوتا اور دیکھنے والے کہتے کہ کیا پارسائی کی منزلیں بزرگ نے طے کی ہوں گی۔لیکن اپنے کو جانتے ہوئے یہ شک بھی گزرتا ہے کہ پارسائی کا لباس پہنے ہوئے بھی آنکھ سے شرارت کی جھلک نہ جاتی۔ اور ہاتھ میں تسبیح بھی ہوتی توکوئی خوش نما چہرہ پاس سے گزرتا تو چپکے سے آنکھ اُس طرف ضرور جاتی۔ بہرحال حاصل نہ ہونے والی چیزوں پر کیا رونا؟ اب تو جو ہے وہ صحت میں گزر جائے ‘ کچھ شرارت کی نظر ہو جائے اور ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے بچے رہیں تو سمجھیں گے کہ خوش قسمتی اسی کا نام ہے ۔
ملک کی برآمدات کتنی ہونی چاہئیں اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں‘ ایسے موضوعات کے بارے میں معافی ہی مانگیں گے کہ یہ تو ثقیل اور بور قسم کے معاملات ہیں‘ جو ان بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں وہی اپنا سرکھپائیں۔ ہماری تمنا تو بس اتنی ہے کہ ہمارے معاشرے کا ماحول کچھ ہلکا ہو جائے ۔یہ کچھ زیادہ ہی بوجھل ہے۔ کھل کے بات یہاں ہو نہیں سکتی‘ انسان کی آرزوئیں تو ہوتی ہیں لیکن جس قسم کا ماحول بن چکا ہے ایسی آرزوؤں کو پردوں کے پیچھے ہی رکھنا پڑتا ہے۔ بے ایمانی اوربے حیائی کی کمی اس معاشرے میں نہیں لیکن منافقت اورچھپن چھپائی بھی اس معاشرے کا حصہ ہے۔ نمائش کچھ اور اصلیت کچھ ‘ یہ ہمارا خاصا بن چکا ہے اوراس وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہم چھوٹے رہ گئے ہیں۔ وہ جو چال یا نظر میں اک آزادی ہونی چاہئے وہ یہاں آپ کو نہیں ملے گی۔ یا تو ان مجبوریوں اور قدغنوں سے ہم نیک بن گئے ہوں پھر تو اور بات ہے۔ لیکن ہرخاتون اس معاشرے کی گواہی دے گی کہ جتنا گھور کے یہاں خواتین کو دیکھا جاتا ہے ایسا کہیں اور آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ بھوکے کو کھانا بھی مل جائے تو اُس کے ذہن سے بھوک نہیں جاتی‘ یہی ہماراحال دیگر معاملات میں ہے یعنی یہ frustationکا مارا معاشرہ ہے۔ اچھا بھلا ملک ہوا کرتا تھا لیکن پارسائی کی ایسی ہوائیں چلیں کہ ہر سبز اورجاندار پتہ مرجھا کے رہ گیا ۔
اس عمر میں ہم نے پھر الیکشن لڑنے کی جھَک ماری۔ وجہ کیا تھی؟ کچھ اور نہیں بس یہی کہ صفِ مظلوماں میں ہمارا نام بھی درج ہو جائے۔ معتوب جماعت کے ساتھ تھوڑا ہو رہا ہے؟ خواہ مخواہ کا کہیں نہ کہیں فیصلہ ہوا ہے کہ جماعت کو ختم کرنا ہے۔ ہمیں تو پتا نہیں شاید ورثے میں یہ چیز ملی تھی کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ لینن جیسا انقلاب تو لا نہ سکے لیکن ایک عادت سی پوری ہو گئی۔ معتوب جماعت کا نعرہ 'حقیقی آزادی‘ہے حالانکہ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کو اب تک اس بات کی صحیح سمجھ نہیں آئی کہ حقیقی آزادی کس بلاکا نام ہے۔ ہماری محرومیاں بہت اقسام کی ہیں : سیاسی اور معاشی تو ہیں ہی لیکن ان محرومیوں کے ساتھ اخلاقی اور نفسیاتی محرومیاںبھی ہیں‘ جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ باہر کے ملکوںمیں جائیں تو ہم جو اِس دیس کے باسی ہیں وہاں ہمیں آزادی کا کچھ مفہوم سمجھ آنے لگتا ہے۔ وہ ممالک ہیں تو مذہبی اس لحاظ سے کہ وہاں بڑا مذہب عیسائیت ہے لیکن سیاسی طور پر وہ سیکولر معاشرے ہیں۔ جن میں مذہب کو وہ فوقیت نہیں دی جاتی جو ہم بیشک مصنوعی طور پر ہی دیتے ہیں۔ یعنی ایک مذہبی معاشرے میں ہمیں آزادی کا وہ مفہوم نہیں ملتا جوکہ سیکولر ملکوں میں محسوس ہوسکتا ہے۔ تو پوچھنا بنتا ہے کہ اپنے معاشروں کو ہم صحیح طریقے سے ترتیب کیوں نہیں دے سکے؟ دیکھئے تو سہی کہ دکانوں اور مارکیٹوں سے لے کر عدالتی اور حکومتی نظام تک ہرطرف غلط کاریاں اور ذہنی گھٹیاپن کا مظاہرہ لیکن لبوں پر پارسائی کے ایسے ورد۔ ایسے معاشرے کو صحت مند تو نہیں کہا جاسکتا۔
ایک ہمیں کوئی یہ بات بتائے کہ اس ملک میں یہ شادی ہالوں کی بیماری کہاں سے پیدا ہوئی ؟ کسی نے کوئی تخمینہ لگایا ہے ان میرج ہالوں پر اورپھر شادیوں پر بطورِ قوم ہم کتنا پیسہ برباد کرتے ہیں؟ عالی شان قسم کے میرج ہال اورشادی تقریبات میں آپ جائیں تولٹکے ہوئے چہرے‘ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کھانے کا انتظار کررہے ہیں اور جب کھانا لگتا ہے تو ہم ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے کئی دنوں سے کھانے کو دیکھا نہیں۔ یہاں کی سیاست بھی ایسی ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ ہرجنازے اور فاتحہ خوانی اور ہرشادی پر آپ حاضری دیں گے۔ ایسے سیاستدان دیکھے جاسکتے ہیں جو ہاتھ میں فہرستیں پکڑے چار چار‘ پانچ پانچ شادیاں بھگتاتے ہیں اورپھر ہر جنازے پر بھی پہنچتے ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی فضول کام ہوسکتا ہے ؟لیکن آدھی سیاست ہماری اسی کام پر لگی ہوئی ہے۔ بھلا ہو ٹی وی پروگراموں کا کہ میں کہہ سکتا تھا کہ حضورضرور حاضر ہوتا لیکن ہفتے اتوار کو تو میں لاہور میں ہوں گا۔ اور یہاں زیادہ شادیاں ان دو دنوں میں ہی ہوتی ہیں۔
اب دن اپنے زیادہ چکوال میں گزارنے ہیں۔ کالم نویسی ہم پتا نہیں کب سے کرر ہے ہیں لیکن کالموں کا مجموعہ اب تک نہیں چھپ سکا۔ ارادے کی کمزوری ہے اورتو کوئی وجہ نہیں حالانکہ کئی دفعہ استدعا ہوئی کہ کتاب کی شکل میں کالم چھپنے چاہئیں۔ اس کام پر اب کچھ توجہ دینے کا ارادہ ہے۔ اس الیکشن میں ایک بات اچھی ہوئی کہ ہرا تو ہم دیے گئے لیکن مسافتِ الیکشن کی وجہ سے جو شامیں اسبابِ راحت کیلئے مخصوص ہوتی تھیں اُن میں کمی کرنی پڑی۔ یعنی مجبوریٔ حالات نے میانہ روی کی طرف مائل کر دیااور اس پر اب ہم کاربند رہیں گے۔ یعنی اعتدال کے فوائد ہمیں سمجھ آنے لگے ہیں۔اللہ کرے اس ارادے پر ہم پکا رہیں۔
کچھ سفر کرنے کا بھی ارادہ ہے‘ بہت عرصے سے ٹریولنگ نہیں کی‘ اب اس کمی کو پورا کرنا ہے۔ماسکو جانے کا بڑا دل کرتا ہے۔ الماتی یا قازقستان جانے کا بھی ارادہ ہے۔ ڈالر کچھ جیب میں ہوں ‘ لباس موزوں ہو اور روس اور چین کی سیر کی جائے۔کیا مزہ آئے گا۔ پر اکیلے جائیں گے‘ ساتھی تو مل ہی جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved