تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     06-03-2024

سی ایچ آتما : حیدر آباد سندھ سے بمبئی تک

سندھ کی سرزمین میں ایک عجیب طرح کا سحر اور مدھرتا ہے۔ کیسے کیسے لوگ اس سرزمین سے اُٹھے اور اپنی شہرت کی چاندنی سے ایک عالم کو مسحور کیا۔ انہیں میں ایک جگمگاتا نام سی ایچ آتما کا ہے جس نے گائیکی کی دنیا میں اپنی منفرد اور سحر انگیز آواز سے ایک عالم کو اپنا اسیر کیا۔ سی ایچ آتما کی پیدائش 1923ء میں حیدر آباد ‘ سندھ کے ایک ہندو گھرانے میں ہوئی۔ اس گھرانے کے سربراہ حشمت رائے چینانی تھے۔ حشمت رائے چینانی ایک کامیاب وکیل تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ موسیقی کے رسیا بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کی فضا میں موسیقی کا اثر تھا۔ والد وکالت کے سلسلے میں کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ تب کراچی نسبتاً خاموش اور کھلا کھلا شہر تھا جہاں شام ڈھلے سمندر کی ہوائیں شاموں کو دلفریب بنا دیتیں۔
اس زمانے میں کراچی کا ایک مشہور سینما گھر سٹار سینما تھا۔ اُس کا قیام 1917ء میں عمل میں آیا تھا ۔یہ سینما سی ایچ آتما کے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ تب سی ایچ آتما کی عمر چودہ برس تھی ۔ وہ کراچی کی شاموں میں سمندر کی ہواؤں کا ہاتھ پکڑ کر گیت گنگناتا یہاں سے وہاں بے مقصد گھومتا رہتا۔ ایک روز وہ سٹار سینما کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔ اس نے سینما ہال سے باہر آتی آواز سنی ۔ وہ آواز نہ تھی کوئی جادو تھا ۔ یہ فلم میں چلنے والا ایک گیت تھا جس کے بول تھے ''اک بنگلہ بنے نیارا‘‘ وہ کھڑا ہو کر یہ گیت سننے لگا۔ جب گانا ختم ہوا تو سی ایچ آتما کو یوں لگا جیسے اسے وہاں کھڑے کھڑے ایک زمانہ بیت گیا ہے۔ بعد میں اسے پتہ چلا کہ یہ گیت اپنے زمانے کے معروف گلوکار کندن لال سہگل نے گایا تھا ۔ یہ سہگل کی آواز سے اس کا پہلا تعارف تھا پھر تو وہ ہمیشہ کے لیے اس آواز کا اسیر ہو گیا۔
اب سی ایچ آتما نے والد سے گرامو فون ریکارڈ لانے کی فرمائش کی جو والد نے پوری کر دی۔ پھرا س نے ہارمونیم خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ والد نے اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دی۔ کے ایل سہگل اس کے دل و دماغ پرچھایا ہوا تھا۔ وہ سہگل کے گیت گاتا۔ وہی لہجہ‘ وہی انداز ویسی ہی آواز۔ ایک روز اس نے اپنی بہن شیلا سے کہا ‘تم دوسرے کمرے میں بیٹھو اور جب میرے کمرے سے تمہیں گیت کی آواز آئے تو تم بتانا کہ یہ کے ایل سہگل کی آواز ہے یا میں گا رہا ہوں۔ انہیں دنوں سی ایچ آتما کو لاہور آنے کا اتفاق ہوا جہاں اس کی خالہ رہتی تھی۔ لاہور میں اس نے جب سہگل کے گیت اپنی آواز میں گائے تو لوگ چونک اُٹھے۔ اب اسے باقاعدہ محفلوں میں گانے کی دعوت دی جاتی جہاں وہ کے ایل سہگل کے مشہور گیت سناتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت لاہور کے گلی کوچوں میں پھیلنے لگی۔ اس شہرت نے اس وقت کی معروف ریکارڈ نگ کمپنی HMVکے دروازے پر دستک دی۔ یوں HMV کے زیراہتمام اوپی نیئر کی موسیقی اور سی ایچ آتما کی مدھر آواز کے ملاپ نے ایک ایسے سدا بہار گیت کو جنم دیا جس کے بول تھے ''پریتم آن ملو‘‘۔ اس گیت کی خاص بات سی ایچ آتماکی آواز کی گمبھیرتا تھی۔ گیت کی ریکارڈنگ کے بعد سی ایچ آتما واپس کراچی چلے گئے۔ پھر وہی کراچی کی خوبصورت سمندر کی نم ہواؤں سے مہکتی شامیں ۔ 1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہو گئی تو سی ایچ آتما کا خاندان بھی انہی میں شامل تھا جو کراچی چھوڑ کر سرحد پار پونے (Pune) شہر میں جا آباد ہوئے۔ یہاں سب کچھ نیا تھا۔ نیا ماحول‘ نئے لوگ ‘نئے مسائل۔ اب سی ایچ آتما کی بے فکری کی عمر گزر چکی تھی۔ اب اُسے نوکری کی تلاش تھی۔ تب اسے Himalayan Air Lineمیں ریڈیو آپریٹر کی ملازمت مل گئی‘ جس کے لیے اُسے کلکتہ جانا پڑا۔
اب ملازمت کے دن رات شروع ہو گئے اور اسے فارغ وقت کم ملتا تھا لیکن موسیقی سے محبت تو اس کے خون میں شامل تھی۔ وہ باقاعدگی سے ریاض کرتا تھا۔ وہ رہتا تو کلکتہ میں تھا لیکن اس کا دل بمبئی شہر میں اٹکا ہوا تھا جو فلمی دنیا کا مرکز تھا ‘جہاں نامور موسیقار اور گلوکار رہتے تھے ۔ ایک دن اس کے دل میں ایک دیرینہ خواہش نے سر اُٹھایا کہ وہ اپنے محبوب گلوکار کے ایل سہگل سے ملاقات کرے لیکن پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ کے ایل سہگل تو ایک معروف گلوکار ہے‘ اس سے ملاقات کیسے ممکن ہو گی۔ سی ایچ آتما ٹینس کھیلنے کا شوقین تھا اور اس کھیل میں اس کا ایک ساتھی افتخار تھا جو کے ایل سہگل کو اچھی طرح جانتا تھا۔ افتخار نے سی ایچ آتما کو کے ایل سہگل کے نام ایک تعارفی خط دیا اور یوں ایک دن سی ایچ آتمابمبئی میں کے ایل سہگل کے گھر جا پہنچا ۔ دستک دینے پر سہگل کا چھوٹا بھائی باہر آیا اور بتایا کہ سہگل گھر پر نہیں ہیں۔ سی ایچ آتما مایوس ہو کر واپس مڑنے ہی لگا تھا کہ اندر سے آواز آئی ''کون ہے‘‘ یہ کے ایل سہگل کی آواز تھی ۔بادلِ ناخواستہ سہگل کا بھائی سی ایچ آتما کو اندر لے گیا اور ایک کمرے میں بٹھایا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک شخص کمرے میں داخل ہوا۔ سی ایچ آتمانے سہگل کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس شخص کا سراپا دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ یہی اس کا محبوب گلوکار کے ایل سہگل ہے۔ کے ایل سہگل اس کے لیے محض ایک گلوکار ہی نہیں تھا بلکہ ایک گرو تھا جس کی آواز اسے موسیقی کے گلی کوچوں میں کھنچ لائی تھی۔ سہگل کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر سی ایچ آتما اُٹھ کھڑا ہوا۔ سہگل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سی ایچ آتمانے افتخار کا دیا ہوا خط سہگل کے حوالے کیا۔ ان کے پاس پڑھنے والی عینک نہیں تھی۔ انہوں نے خط الٹا پکڑ لیا‘ سہگل کے بھائی نے اس کی طرف اشارہ کیا تو سہگل نے ہنس کر خط کو ایک طرف رکھ دیا اور ہنستے ہوئے کہنے لگے ‘گولی مارو خط کو یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے۔ سی ایچ آغا نے جواب دیا ''آتما‘‘۔ سہگل نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا ‘تم تو چندن ہو۔ تم گاتے بھی ہو؟
سی ایچ آتما گھبرا گیا اور جلدی سے بولا''جی نہیں‘‘۔ سی ایچ آتما اپنا کیمرہ ساتھ لے کر گیا تھا۔ اس نے کہا ‘کیا میں آپ کی تصویر لے سکتا ہوں؟ سہگل نے ہنستے ہوئے کہا ‘اس حالت میں کیا تصویر لو گے۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ پتہ چلا ایک پامسٹ سہگل سے ملنے آیا ہے۔ پامسٹ نے سہگل کا ہاتھ دیکھنے کی خواہش کی تو سہگل نے کہا ‘میرا ہاتھ دیکھ کر کیا کرو گے۔ میر ا تو ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا اڑتے گھوڑے پر۔ یاد رہے کہ یہ رنجیت پکچر کا بینر تھا۔ سہگل نے پامسٹ سے کہا ‘میرا ہاتھ دیکھ کر کیا کرو گے ہاں اس نوجوان کا ہاتھ دیکھو۔ پامسٹ نے سی ایچ آتماکا ہاتھ دیکھا پھر سر اٹھا کر سہگل کو دیکھا اور کہنے لگا ‘یہ تو ایک کلاکار کا ہاتھ ہے۔ سہگل نے حیرت سے کہا ‘لیکن یہ لڑکا تو کہتا ہے یہ گاتا نہیں۔ پامسٹ نے اپنا سر جھٹکا‘ د وبارہ سی ایچ آتما کا ہاتھ دیکھا اور پورے یقین سے کہنے لگا ‘سہگل صاحب یہ لڑکا جھوٹ بول سکتا ہے لیکن میرا علم غلط نہیں ہو سکتا۔ اب کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی تھی جس میں سی ایچ آتما کو اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved