عید قرباں گزر گئی مگر اس بار ذہن کی جھیل پر ایک پتھر کی طرح چند سوال چھوڑ گئی۔ کچھ چھوٹے چھوٹے واقعات ایسے ہوئے جنہیں لکھنا تو غیر ضروری ہوگا لیکن ان واقعات سے اٹھنے والے سوالات اور تاثرات شاید ہم سب کے لیے فوڈ فار تھاٹ ہوں۔ ویسے تو ہمارا سماجی کلچر ہی بن چکا ہے کہ جہاں بیٹھو حکومت اور حکمرانوں کی برائیاں کرتے رہو۔ حکمرانوں کی کرپشن اور بددیانتی کی داستانوں پر ہم لمبی چوڑی تقریریں کر سکتے ہیں۔ ایک مثالی حکومت اور حکمران کی خوبیاں بھی ہمیں یاد ہوں گی لیکن جب بات فرد کی ذمہ داری کی ہو تو ہم یہ بوجھ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں اور ذمہ داری کسی دوسرے کے سر پر ڈال دیتے ہیں۔ میڈیا بھی فرد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر میڈیا پر بھی صبح شام صرف حکومت‘ حکمران اور سیاسی چال بازیاں ہی زیر بحث رہتی ہیں۔ اخلاقیات کیا چیز ہے؟ فرد کی ذمہ داری کیا ہے؟ معاشرے کے سلجھائو میں فرد کا کردار کیا ہے؟ اس پر نہ تو پروگرام ہوتے ہیں اور نہ پرائم ٹائم میں ایسے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ معاشرے کو سدھارنے اور تبدیلی لانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے‘ یہ جانے بغیر کہ معاشرہ خود فرد ہے۔ فرد اس کی پہلی اکائی ہے۔ ہر شخص اپنا محاسبہ کرے‘ خود کو اخلاقی طور پر درست کرے تو معاشرہ خودبخود صحیح ڈگر پر گامزن ہو جائے گا۔ ہم بحیثیت مسلمان مذہبی تہوار بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ عید قرباں پر بھی دیکھا گیا کہ مہنگائی کے باوجود لوگ قربانی کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ قربانی کے جانور خریدے گئے۔ ان کی ٹہل سیوا ہوئی اور پھر عید کے روز قربانی کا فرض ادا ہو گیا تو ایسا لگا کہ ساتھ ہی لوگوں نے اپنی ذمہ داری کا لبادہ ہی اتار پھینکا۔ اللہ کے نام اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرنے والوں نے گوشت ڈیپ فریزروں میں ڈالا یا پھر اپنے ہی لذتِ کام و دہن کا اہتمام کیا جو یقینا عید کی خوشی کا حصہ ہے‘ لیکن گوشت کا جو حصہ مستحقین تک جانا چاہیے وہ صحیح لوگوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ پیشہ ور گداگروں اور خانہ بدوشوں کی ٹولیاں صبح سے شام تک بوریوں میں گوشت اکٹھا کر لیتی ہیں لیکن وہ جو سفید پوش ہیں اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے کسی کے دروازے پر نہیں جا سکتے‘ ایسے لاکھوں گھرانے‘ عید کی شام تک بے بسی سے گوشت آنے کا انتظار کرتے رہے۔ ایسے ہی اس بار یہ خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر مستحقین اور سفید پوش لوگوں تک اللہ کی طرف سے قربانی کا گوشت پہنچانے کا انتظام فرد سے لے کر ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔ یوں حسّاس اور باعزت سفید پوش لوگوں کو کسی فرد کے دروازے پر نہیں جانا پڑے گا‘ ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے گی اور ایک پابندی بھی ہوگی کہ ہر قربانی کرنے والا شخص ایک حصہ ضرور مستحقین کے لیے وقف کرے۔ اسی طرح اپنے گھر کے باہر کی خوب صورت گرین بیلٹ کے اطراف آلائشوں اور اوجھڑیوں کے ڈھیر دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اب دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی قربانی کرنے کے لیے مخصوص جگہ پر سلاٹر ہائوس یا ذبح خانے قائم کیے جائیں اور لوگ اپنے گھروں میں قربانی کرنے کی بجائے ان سلاٹر ہائوسوں میں جائیں۔ ہمارے ہاں لوگ قربانی کر کے اپنے گھر کے پورچ کو دھو کر گلی اور سڑک پر خون اور آلائشیں پھینک دیتے ہیں۔ صفائی ہمارا آدھا ایمان ہے مگر اس کے باوجود افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان اگر آمادہ ہو بھی جائیں تو صفائی ستھرائی کو اپنے گھر کی چار دیواری تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ گھر سے باہر کی صفائی کی ذمہ داری کا تصور بھی ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا۔ یہاں تو روزانہ گھروں سے کوڑا اٹھانے والے اہم ورکر کو مہینے کے بعد سو پچاس دیتے ہوئے‘ لوگوں کی جان نکلتی ہے۔ کسی نے بڑی اچھی بات کی کہ ہم انہیں کوڑے والا کہتے ہیں حالانکہ یہ تو صفائی کرنے والے ہیں۔ کوڑے والے تو ہم ہیں۔ بھلا ہو‘ ضلعی حکومت کا جن کے ورکرز عید کے تینوں دن جانفشانی سے لوگوں کا پھیلایا ہوا کوڑا اٹھاتے رہے۔ اگر یہ لوگ بھی ذمہ داری نہ اٹھاتے تو یہ شہر آلائشوں اور گند میں دب جاتا۔ ان ورکرز کی بے حد تحسین کی ضرورت ہے۔ تنخواہ وہ یقینا لیتے ہیں مگر کتنی؟ میرا خیال ہے جو کام وہ کرتے ہیں اور ہمارے ماحول کی صفائی اور خوب صورتی میں جتنا ان کا کردار ہے وہ چند ہزار روپوں سے کہیں زیادہ تحسین کے مستحق ہیں‘ لیکن ہم میں سے کسی نے بھی کبھی اپنے اردگرد کام کرنے والے ان بے نام لوگوں کی شاید ہی کبھی تعریف کی ہو۔ ہم تو ان کے نام بھی کم ہی جانتے ہیں کیونکہ ہم انہیں کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ہمارے نزدیک فرد کی اہمیت اس کے عہدے‘ رتبے اور سٹیٹس سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس بڑوں سے ہی چھوٹوں میں منتقل ہوتا ہے۔ چند روز پہلے ایک ایسی بچی سے ملاقات ہوئی جو شاید پانچویں یا چھٹی کی طالبہ ہو۔ خوشحال گھرانے سے تعلق ہے۔ اس کی عمر کی ایک بدقسمت لڑکی اس کے گھر کام کرتی ہے۔ اس عمر میں یہ بچی اتنی Bossy ہے کہ ڈر لگتا ہے آگے جا کر یہ اپنے زیر اثر کمزور ملازموں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ کام کرنے والی ملازمہ بچی ہر ہر لمحہ اپنی ننھی مالکن کے جبر اور نفرت کا شکار ہوتی ہے۔ سچی بات ہے کہ سب کچھ دیکھنے کے بعد سوائے پیار سے سمجھانے کے میں کچھ نہ کر سکی کیونکہ یہ تربیت کا معاملہ ہے۔ آج کے دور میں فرد کی بہترین اخلاقی تربیت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ پوری دنیا کا بھانت بھانت کا کلچر‘ ٹی وی سکرین کے ذریعے بیڈ روموں میں امڈ آیاہے۔ اگر والدین ہی اخلاقیات اور انسانیت کے بنیادی سبق سے عاری ہوں گے تو پھر بچوں کی تربیت آئی پیڈ‘ کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز ہی کریں گے۔ ہمیں اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تبدیلی ہماری ذات سے شروع ہوگی۔ اگر معاشرہ اور حکومتیں بددیانت ہیں تو یہ ہماری ہی ذات کا عکس ہیں۔ معاشرہ ہمارا آئینہ ہے۔ میڈیا کو بھی سیاست کے موضوع سے ہٹ کر ا خلاقی قدروں اور فرد کی انفرادی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے حوالے سے اہم پروگرام کرنا ہوں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کا دائرہ اثر‘ پڑھے لکھوں سے لے کر ان پڑھ افراد تک پھیلا ہوا ہے اس لیے اس کا کردار بہت اہم ہے۔ اخلاقی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ استاد‘ والدین‘ علماء‘ سماجی سائنسدان‘ عمرانیات کے ماہر‘ میڈیا پرسن‘ سیاستدان‘ سب کو اس تحریک کا حصہ بننا ہوگا۔ مختصر یہ کہ سماج کی ہر سرگرمی اور حکومت کے ہر اقدام سے لے کر فرد کے ہر عمل تک اخلاقی قدروں کی پاسداری ضرور ہونی چاہیے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص‘ معاشرے کے سفید پوش‘ بے وسیلہ اور کمزور افراد کا خیال رکھے تو ہم نہ صرف مذہبی تہواروں کو اس کی صحیح روح کے ساتھ منائیں گے بلکہ زندگی کے ہر ہر پہلو میں سدھار اور سلجھائو کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بس ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved