یہ کوئی فلمی سین نہیں ہے لیکن فلمی سین جیسا ہی ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں۔ یہ بھی فرض کر لیں کہ تھوڑے فاصلے پر آپ کا مخالف بھی پہاڑی پر چڑھ رہا ہے۔ مزید فرض یہ کریں کہ کوہ پیمائی کے دوران ایک ایسا لمحہ آ جاتا ہے کہ آپ کی اوپر چڑھنے والی حفاظتی رسی ٹوٹ جاتی ہے یا پھر آپ کے مخالف کی رسی ٹوٹ جاتی ہے اور دونوں کو اپنی جان بچانے کیلئے ایک ہی رسی پر لٹکنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب آپ کیا کریں گے؟ اُس رسی پر لٹکے لٹکے ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑیں گے‘ ایک دوسرے کے مخالف سمت میں زور لگائیں گے‘ ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کریں گے یا باہمی جدوجہد کرکے کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہونے کا قصد کریں گے؟
آپ کے ذہن میں جو بھی جواب ابھرے‘ اس جواب میں ہی اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ اپوزیشن کو وزیراعظم شہباز شریف کا تجویز کردہ میثاقِ مفاہمت قبول کر لینا چاہیے یا نہیں۔ معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ معاشرت‘ درآمدات و برآمدات اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے پاکستان کی جو موجودہ صورتِ حال ہے‘ کیا اسے اس رسی سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی جس کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں لٹکے ہوئے ہیں ‘ اور ساتھ میں عوام بھی‘ جو تشویشناک نظروں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے یہ نئے ناخدا آپس میں لڑ کر پہلے سے شکستہ رسی کو مزید کمزور کرتے ہیں یا باہمی مفاہمت کے طرزِ عمل سے معاملات کو کسی محفوظ و مامون منزل کی جانب لے جاتے ہیں ؟
خاکسار کی رائے لی جائے تو یہ عرض کروں گا کہ جس طرح زندگی موت کا مسئلہ درپیش ہو تو حرام بھی جائز ہو جاتا ہے‘ اسی طرح ملک کو شدید اور گمبھیر نوعیت کے مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کا ایک پیج پر آنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے‘ یعنی اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں کہ دونوں مل بیٹھیں ‘ سر جوڑیں ‘ سوچ بچار کریں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کا کوئی مشترکہ و متحدہ حل نکالیں۔ شاخِ نازک پہ آشیانہ ہے‘ اب یہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کی مرضی ہے کہ آپس میں لڑ کر اسے تباہ و برباد کر دیں یا پھر مفاہمت کے تحت اس کی شکستگی کو ختم کرنے کا قصد کریں۔ میری رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کو اگر میثاقِ مفاہمت کل وقتی قابلِ قبول نہیں ہے تو اسے جزوی طور پر اور جُز وقتی ہی قبول کر لینا چاہئے کہ ملک و قوم کو کچھ تو سکھ کا سانس میسر آئے‘ حالات میں کچھ تو بہتری آئے۔ نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں میں جو اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ‘ اس کے اثرات و نتائج ایک سال کے بعد عوام تک پہنچنا شروع ہوں گے۔ تو کیا خیال ہے‘ ایک سال کے لیے میثاقِ مفاہمت قبول کرنے میں کوئی مضائقہ ہے یا پھر دو برسوں کے لیے‘ تاکہ ملک اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے‘ مالی لحاظ سے مستحکم ہو سکے۔
حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں اس کا اندازہ یونائیٹڈ انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کی پچھلے سال منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کو اپریل 2023ء سے جون2026ء تک 77.5 بلین ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں اور 350 بلین ڈالر والی معیشت کے لیے یہ بہت بڑا بوجھ ہے۔ اس مدت کا ابھی ایک سال گزرا ہے‘ کچھ قرضے ادا کیے گئے ہوں گے‘ لیکن زیادہ تر ابھی ادا کرنا باقی ہیں۔ زیادہ تر قرضے چین کے اقتصادی اداروں ‘ پرائیویٹ کریڈیٹرز اور سعودی عرب کے ہیں۔ چین اور سعودی عرب سے ہم کئی بار قرضے ری شیڈول کرا چکے ہیں ‘ اس لیے ممکن ہے کہ مزید گنجائش نہ بچی ہو۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2024-25ء میں پاکستان کی ڈیٹ سروسنگ 24 بلین ڈالر کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے۔ ان میں 8 بلین ڈالر لانگ ٹرم ڈیٹ ری پیمنٹس کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ 14 بلین ڈالر شارٹ ٹرم ڈیٹ ری پیمنٹس کے کھاتے میں۔
اس سے اگلے سال (2025-26ء) میں بھی کم و بیش اسی مقدار میں غیر ملکی قرضے واپس کرنے ہیں۔ درآمدات و برآمدات کی بات کی جائے تو اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پچھلے تین برسوں میں (بارِ دگر یاد رہے کہ یہ رپورٹ 2023ء میں سامنے آئی تھی) برآمدات 164 بلین ڈالر رہیں جبکہ اسی عرصے میں درآمدات کا حجم 170 بلین ڈالر رہا۔ اگلے تین برسوں میں بھی اقتصادی ماہرین درآمدات و برآمدات کے حوالے سے صورت حال میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہونے کی امید نہیں کر رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اگلے تین برسوں میں بڑھتا ہی رہے گا جس کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں پہلے ہی بھاری مقدار میں قرضے واپس کرنے ہیں‘ جب مجبوری میں مزید نئے قرضے لینا پڑیں گے تو ظاہر ہے کہ قرضوں اور ان کی ادائیگی کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ اس صورتِ حال کے ازالے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قومی جی ڈی پی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے جبکہ جی ڈی پی میں اضافے کے لیے کاروباری‘ تجارتی‘ زرعی اور صنعتی سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سروسز کے شعبے کو بھی مہمیز دینا ہو گی۔
اس حقیقت سے کون ناآشنا ہو گا کہ تجارتی و صنعتی سرگرمیاں وہاں فروغ پاتی ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو‘ اور سیاسی استحکام کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہوں‘ یعنی معاملہ گھوم گھما کے وہیں آ جاتا ہے کہ میثاقِ مفاہمت‘ میثاقِ معیشت اور میثاقِ جمہوریت پر سب کو رضامند ہونا پڑے گا‘ ورنہ بھوک اتنی بڑھ جائے کہ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ پاکستان کے بدخواہ تو ابھی سے بہت کچھ کہہ اور سن رہے ہیں‘ یہ چہ میگوئیاں تبھی بند ہوں گی جب حکمران (حکومت اور اپوزیشن) ہم آہنگ ہوں گے۔
ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا خمیازہ ماضی میں تقریباً سبھی بھگت چکے‘ اب بھی اگر ایک دوسرے کو گھسیٹنے اور حکومت نہ کرنے دینے کا ہی فیصلہ کیا گیا تو نتائج یقینا ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس لیے سب کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر رواں دواںرکھنے کا جو موقع ملا ہے‘ اسے اپنی اپنی انائوں کو پروان چڑھانے کے لیے ضائع بالکل نہیں کیا جانا چاہیے‘ ورنہ وہی بات کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اگر کچھ خلاف معمول ہوا تو معاملات کے بالکل ہی ہاتھ سے نکل جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب تو مقتدر حلقوں کے پاس سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی جیسے متبادل بھی موجود ہیں کہ جن کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں تھی‘ ان کی بیورو کریسی میں کسی قسم کی کوئی جڑیں بھی نہیں تھیں اور نہ ہی حکمرانی کا کوئی تجربہ تھا‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ڈِلیور کیا اور ایسا ڈِلیور کیا کہ نئی مثالیں قائم کر دیں۔ اگر موجودہ سیٹ اَپ نہیں چل سکے گا تو پھر لانے والے اسی سیٹ اپ کو دوبارہ لے آئیں گے جو بارہ ماہ کامیابی سے حکومت کرکے رخصت ہوا ہے۔ گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کے حوالے سے اب گیند موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں‘ اناؤں پر قائم رہتے ہیں یا ملک اور قوم کے بارے میں بھی کچھ سوچتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved