جنہوں نے حکومتیں بنانا تھیں‘ اُن کی بن چکیں۔ انتخابات سے قبل‘ بلکہ اس سے بھی قبل سولہ ماہی اتحادیوں کے اقتدار کے دوران کچھ لوگوں کو اندازہ تھا کہ جو لوگ حکومت سے باہر ہو چکے ہیں‘ اُنہیں بہت عرصہ وہیں رہنا پڑے گا جہاں وہ ہیں‘ اور کرسی دوبارہ اتحادیوں کے پاس ہی جائے گی۔ اسی لیے اتحادی ملک کی تقدیر بدلنے یا ا س سے کھیلنے کے لیے ایک دفعہ پھر اسلام آباد کی پہاڑیوں پر قائم ایوانوں میں بیٹھ چکے ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہے کہ مولانا ناراض ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی فی الحال کابینہ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ اور خاندانی سیاست سے زیادہ واقفیت رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وقت آنے پر سب واپس آجائیں گے۔ ابھی وہ دیکھیں گے کہ شہباز شریف صاحب کے پاؤں جمتے ہیں یا نہیں۔ حسبِ خواہش پنجاب میں بھی (ن) لیگ کی حکومت قائم ہو گئی ہے‘ اور پنجاب کی نئی وزیراعلیٰ سیاسی گدی کی بقا کے لیے صرف اور صرف عوام کی خدمت اور اپنے چچا جان کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے صوبے کو بلندیوں کی طرف لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ بھی خبر رکھنے والوں کو معلوم تھا کہ اصل حکومت تو پنجاب کی ہے‘ اور اگر مرکز اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ اکٹھے ایک ہی جماعت کے پاس رہیں تو پھر ملک کی ترقی کے لیے سب شاہراہیں کھل جاتی ہیں۔ پنجاب کی کابینہ کا بھی اعلان ہو چکا۔ نام دیکھ کر آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سب اپنے اپنے کاموں کے ماہر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ کبھی اپنے پڑوسی پنجاب کی کابینہ کے وزرا کی علمی صلاحیت‘ تجربہ اور کارکردگی اور جن کو ہمارے پنجاب کی نئی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے‘ کا کچھ موازنہ کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ سماجی‘ معاشی اور صنعتی ترقی اور زراعت کے میدانوں میں دونوں پنجابوں میں کیا فرق نظر آتا ہے۔ یہ لکھتے ہوئے کپڑوں کی دھلائی کے پاؤڈرکا اشتہار ذہن میں گھوم رہا ہے کہ فرق صاف ظاہر ہے۔
لوگ جو بھی کہتے رہیں‘ لیکن آخر شریف خاندان میں کوئی بات تو ہے کہ چالیس سال سے پنجاب پر حکومت کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام پر لگاتے ہیں‘ عوام کو کھلاتے ہیں تو پھر لوگ کیوں نہ بار بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں۔ ہم چونکہ اقتدار کے پجاریوں میں سے ہیں‘ اس لیے کسی انتخابی دھاندلی اور لوگوں کے ووٹ کے بارے میں ہمیشہ کی طرح خاموش رہیں گے۔ بلکہ اپنی کمزوریوں کے پیشِ نظر سیاسی خاندانوں کی موروثیت کو جمہوریت کی روح خیال کرتے ہوئے فیصلہ سازوں کی انتخابی حکمت عملی کو سراہتے رہیں گے۔ پنجاب میں تو پہلے بھی (ن)لیگ کی حکومت رہی ہے‘ اس لیے جو بھی ماضی میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں‘ وہ عوام سے آپ پوچھ سکتے ہیں۔ ایک احتیاط البتہ لازم ہے کہ کوئی بھی بات کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔ خوا ہ مخواہ خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ بھی آپ کسی سے پوچھنے کی ہمت نہ کیجیے گا کہ گزشتہ انتخابات میں آپ نے ووٹ کس جماعت کو دیا تھا۔ حالیہ الیکشن نتائج کے بعد پاکستان کی سیاست سے واقفیت نہ رکھنے والوں کو یہی لگے گا کہ پاکستان کے عوام دو موروثی سیاسی گھرانوں کی محبت میں اتنے مبتلا ہو چکے ہیں کہ نسل در نسل اور بار بار انہیں منتخب کرتے ہیں۔ ان کا 45 سالہ اقتدار کچھ بیکار وقفوں کے بعد پاکستان کی تاریخ کا روشن باب ہے تو پھر عوام ان کی خدمات‘ ترقی کا معیار اور اعلیٰ انسانی اقدار کو تسلیم کیوں نہ کریں۔ ضروری ہے کہ جو لوگ دھاندلی کا واویلا کررہے ہیں‘ سڑکوں پر کچھ احتجاج کرنے کے لیے نکلتے ہیں‘ خاموشی سے گھروں میں بیٹھ جائیں اور اتحادی حکومت پلس کو پاکستان کی ترقی اور اپنی فلاح و بہبود کا موقع دیں۔2013ء میں شریف خاندان اقتدار میں آیا تھا تو بانی تحریک انصاف کے اسلام آباد کے ایک چوک میں دیے گئے ایک دھرنے سے پانچ سال تک ملک کی ترقی رُک گئی تھی۔ یہ سوال کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ پنجاب میں تو کوئی ایسا دھرنا نہیں تھا‘ اور نہ ملک کے دیگر حصوں میں‘ تو پھر ہم آگے کیوں نہ بڑھ سکے۔ سولہ ماہ میں جو ہوا اور پھر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہوتے ہوئے بھی دنیا کی سب سے بڑی کابینہ‘ ہمارے خیال میں جو کچھ پی ٹی آئی کی حکومت نے ساڑھے تین سال کے عرصہ میں کیا تھا‘ اس کے برے اثرات ختم کرنے کے لیے انتہائی ضروری تھی۔
ابھی تو شروعات ہیں۔ حکومتیں نئی بھی ہیں اور نہیں بھی۔ نئی اس لیے کہ ہر نئے انتخابات کے بعد ظاہر ہے نئی حکومت تشکیل پاتی ہے‘ اور نئی اس لیے نہیں کہ سب چہرے اور مہرے پہچانے ہوئے ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ عوام انہیں دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔ مزید ان کے فرموداتِ عالیہ‘ بلند بانگ دعووں اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی ترکیبوں پر کان نہیں دھرتے۔ ان کے سرکاری اور غیرسرکاری گماشتوں کی باتیں سنیں اور ان کی خوشامد کی موسیقی پر سردھنتے رہیں۔ ہم چونکہ پاکستان کے سیاسی کھیل کے دیرینہ تماش بین ہیں‘ اس لیے آئندہ کی کسی حکومت کی کارروائیوں‘ کرتبوں اور ہاتھ کی صفائی کا اندازہ اس بات سے لگاتے ہیں کہ میڈیا میں کرتبوں کی صفائی پیش کرنے کے لیے اور وزیروں اور مشیروں کی صفوں میں کون شامل ہے اور کس کس کو سرخ جھنڈی دکھا کر اگلی باری کے لیے انتظار کرنے پر راضی کر لیا گیا ہے۔ ابھی تک جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق سابق روایات برقرار ہیں۔ جو لوگ خبروں‘ پریس کانفرنسوں کی وزارتیں سنبھالیں گے‘ ان کی سنہری باتوں‘ فلسفوں‘ توجیہات اور زبان و کلام کی تندی پر غور کرتے رہیں‘ آپ کی تسلی ہوتی رہے گی۔
دوسرے بڑے سیاسی خاندان کی بادشاہت کا جغرافیہ اس بار سندھ سے بڑھ کر بلوچستان تک جا پہنچا ہے۔ اچھی بات ہے کہ یہ دونوں ساحلی صوبے معدنیات اور وسائل سے مالا مال ہیں۔ پھر اٹھارہویں ترمیم کی عنایات سے اربوں‘ کھربوں کے ترقیاتی اور غیرترقیاتی فنڈز سے لبریز خزانہ مضبوط اور تجربہ کار ہاتھوں میں ہو تو سندھ اور بلوچستان کی قسمت کیوں نہیں بدلے گی‘ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ ان دوصوبوں کے موروثی‘ قبائلی‘ سیاسی خاندانوں اور ان کے ترجمانوں کی باتیں مان لیں تو ترقی در ترقی ہوتی رہی ہے۔ لوگوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اس لیے تو صبح صبح قطاروں میں کھڑے ہوکر ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو بھاری بھرکم اکثریت کے ساتھ جتوا دیا ہے۔ آپ سب کو چاہیے کہ حق و سچ کی بات مان لیں اور مخالفین کے اس پروپیگنڈا کو رَد کر دیں کہ یہ جیتے نہیں‘ جتوائے گئے ہیں۔ اس کھوج میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں کہ آخر الیکشن کمیشن‘ جس کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا‘ کو موروثیت اور ایسے سیاسی گھرانوں کی باریوں سے محبت کیوں ہے۔ نتائج کو مان لیں تو عوام کو بھی محبت ہے۔
خیبرپختونخوا کی بات کیا کرنی‘ وہاں تو عوام نے تیسری بار غلطی کر ڈالی‘ اور اس دفعہ تو ماضی کی نسبت کئی گنا بڑی‘ کہ الیکشن کمیشن کی حساب کتاب کی مشین بھی خراب ہو گئی۔ سب تجربہ کار‘ بڑے بڑے خاندانی سیاست دانوں نے ان کی روایتی خدمت سے اس صوبے کو محروم رکھا۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ جو حکومتیں دیگر صوبوں اور مرکز میں بنی ہیں‘ وہ ماضی کی طرح پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالیں گی اور اس کام میں وہ رات دن ایک کر دیں گی۔ مسئلہ ان کا نہیں‘ عوام اور ملک کا ہے کہ وہ ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved