تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-10-2013

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

بجلی، کار، ہوائی جہاز، موبائل فون ، اعضا کی پیوند کاری، آبدوزیں اور ایٹم بم… پچھلی ڈیڑھ دو صدیاں انسانیت کے چالیس ہزار برس پہ حاوی ہیں ۔ آدمی وہی رہے گا لیکن زندگی اب ایک بار پھر بدلنے والی ہے: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کرنے والے ’’انجینئر‘‘آغا وقار کو بے نقاب کرنے والوں میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن پیش پیش تھے ۔ وہ توانائی کے نئے ذرائع گنواتے ہیں ۔ 2035ء تک امریکہ اپنی 50فیصد ضروریات چٹانی تیل اور گیس سے پوری کررہا ہوگا۔ میتھین، دنیا کے تیل، کوئلے اور گیس کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ۔ کرّہ ارض پہ پڑنے والی سورج کی روشنی دیگر تمام ذرائع سے 5000گنا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کا بہت قلیل حصہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اس سلسلے میں زیادہ باکفایت (Efficient)مشینری ایجاد کی جا رہی ہیں ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ کرّہ ارض پر اب اس تجربے کی تیاری ہے ، جس کے ذریعے سورج اور دوسرے ستارے حرارت پیدا کرتے ہیں ۔ ہائیڈروجن کے دوایٹموں کو کئی ملین سینٹی گریڈ تک حرارت پہنچا کر نیوکلئیر فیوژن کا وہ عمل دہرانے کی کوشش، جس میں ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسی ہلکی ترین گیسز بھاری عناصر میں بدلتی ہیں اور غیر معمولی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ستاروں کے مرکزمیںجنم لینے والے یہی بھاری عناصرہمارے جسم کے بنیادی اجزا ہیں ۔اس لحاظ سے انسان ستاروں کی باقیات ہے ۔ توانائی کے نئے ذرائع تیل اور گیس کی جگہ سنبھال لیں گے اور مشرقِ وسطیٰ کے عیاش ماتم کریں گے ۔ انسانیت کے مستقبل کے لیے نینو ٹیکنالوجی کس قدر اہم ہے، صرف ایک مثال کافی ہے ۔ سرنج کے ذریعے ایک خوردبینی کیمرہ جسم میں داخل کیا جائے گا۔دورانِ خون کے اندر، یہ جسم کے تمام اعضا کا سفر کرے گا۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں ، بیمار بافتوں ، بے قاعدگیوں اور میٹابولزم کی سطح کا جائزہ‘ خرابی کی نوعیت اور شدت کو ظاہر کرڈالے گا۔ ہر جاندار نظر نہ آنے والے خلیات سے بنا ہے ۔ ان کی موت اور نئے خلیوں کی پیدائش کا عمل جاری رہتاہے ۔یہ ٹیکنالوجی اس عمل میں نقائص دور کرنے میں مددگار ہوگی اور یہ مریض کو نئی زندگی فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ طب ہی نہیں،نینو ٹیکنالوجی سب کچھ بدل ڈالے گی ۔ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے اب اشیائے ضرورت گھر میں تیار کی جائیں گی ۔ایک ایسی مشین ، جسے خام مال اورڈیزائن مہیا کر دیا جائے تو کپڑوں سے لے کرپستول اور خلائی راکٹ کے پرزوں تک ،ہر چیز سستے داموں تیار ہو سکتی ہے ۔ زراعت سے طب تک، مختلف شعبوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ صنعت میں اجارہ داریوں کا خاتمہ ہوگااورکاروبار کی نوعیت بدل جائے گی۔ برطانیہ اور بلجیم کے سائنسدانوں پروفیسر پیٹر ہگز اورفرانسوا اگلرٹ کو اس برس طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا ہے ۔ نصف صدی قبل انہوںنے \"خدائی ذرّے \"کا تصور پیش کیا تھا اور 2012ء میں وہ درست ثابت ہوا۔ اسے چاند پہ انسانی قدم جتنی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ اس سے بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ ہگز بوسون یا خدائی ذرّہ مادے کو کمیت حاصل کرنے میں مدد دیتاہے ۔اس کی عدم موجودگی میں بگ بینگ(Big Bang)کے بعد مادہ وزن حاصل نہ کر پاتا اور روشنی کی رفتا ر سے بہہ جاتا۔ سادہ الفاظ میں اسی ذرّے کی وجہ سے کائنات اپنی موجودہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ خدائی ذرّے کی تلاش میں اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اور صرف پچھلے دو برس میں 8ہزار سائنسدان خوار ہوتے رہے ۔ 27کلومیٹر لمبی ایک سرنگ میں ایٹم کے ننھے ذرّات کو روشنی کی رفتار سے ٹکرا کر تخلیقِ کائنات کا ماحول پیدا کیا گیا۔نصف صدی تک سرمایے اور ذہانت کے اشتراک نے خدائی ذرّہ ڈھونڈلیا ہے لیکن خدا کی تلاش ابھی باقی ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پہ کوئی بھی تحریرپروفیسر سٹیفن ہاکنگ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔نظریاتی فزکس میں آئن سٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان اور ایک مایہ ناز کاسمالوجسٹ ۔ایک طرف ایسی فتوحات اور دوسری طرف محتاجی ۔ حرکت تو درکنار، کمپیوٹر کی مدد کے بغیر وہ ایک لفظ بھی بول نہیں سکتا۔50برس تک اس بیماری سے جنگ‘ جو 95فیصد افراد کو چندبرسوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔ کائنات میں زندگی کی تلاش کے ضمن میں وہ اہم سوالات اٹھاتے ہیں ۔ مثلاً قریب ہے کہ انسان خود اپنے ارتقا پہ اثر انداز ہونے لگے ۔ جن مخلوقات کی تلاش میںہم دوسرے سیارے کھنگال رہے ہیں ، اگر وہ ہم سے ہزاروں برس آگے ہوں تو ان کے مقابل ہم غار کے انسان کہلائیں گے ۔ اگر وہ اربوں آئینوں کی مدد سے اپنے سورج کی تمام تر حرارت سے مستفیض ہونے کے قابل ہوں ؟ اگر وہ توانائی کی ایک تیزترین شاہراہ تشکیل دے چکے ہوں ؟ انسان ہی کی طرح اگر وہ باقی مخلوقات کا استحصال کرنے والے ہوں ؟ ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ وہ ہم تک آپہنچیں تو یہ ایسا ہی ہوگا، جیسے براعظم امریکہ کی دریافت مقامی باشندوں ( ریڈ انڈینز ) کے لیے بہت منحوس ثابت ہوئی ۔ پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کے انتباہ سے ایک عجیب خیال جنم لیتاہے ۔ خدا سات زمینوں کا ذکر کرتاہے اور بگ بینگ سمیت ہر خدائی دعویٰ بالآخر درست ثابت ہوتا چلا جارہا ہے ۔کیا دو ذہین مخلوقات کی ملاقات زندگی کی اس داستان کا کلائمیکس ہو سکتاہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved