اللہ رحمن و رحیم کی زمین پر ملک بن گئے‘ ریاستوں کا وجود قائم ہو گیا۔ ان ریاستوں کے حکمران بن گئے‘ جو بادشاہ اور شہنشاہ کہلانے لگ گئے۔ انسانی تاریخ میں ایک ایسی ہستی بھی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئی جس نے اپنے لیے حکمرانی کا کوئی لفظ پسند نہ کیا۔ یہ عظیم ہستی اللہ کے آخری رسول محمد کریمﷺ کی ہستی ہے۔ آپﷺ نے اپنے زمانے کو ''نبوت و رحمت‘‘ قرار دیا۔ پھر انسانی تاریخ نے دیکھا کہ نبوت و رحمت کی حکمرانی ماں کی مامتا سے کہیں بڑھ کر مہربان تھی؛ چنانچہ حضور کریمﷺ کی پُررحمت حکمرانی کو سامنے رکھ کر ہی انسانوں نے کہنا شروع کیا کہ ''ریاست ہو تو ماں جیسی‘‘۔
چھ مارچ کو بلاول بھٹو زرداری اہلِ پاکستان کو آنسو بہاتے ہوئے دکھائی دیے‘ جب وہ عدالت میں کھڑے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بارے میں 44 سالہ پرانے مقدمے کی سماعت میں شریک تھے۔ جونہی چیف جسٹس آف پاکستان نے 9 رکنی بنچ کی متفقہ رائے سنائی کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مقدمے میں بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا‘ شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا‘ آئین اور قانون کو سامنے نہیں رکھا گیا‘ عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تو بلاول بھٹو زرداری نے ضبط کے بندھن کو بہت باندھنے کی کوشش کی اور کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے مگر کہاں تک؟ فطری تقاضا کہاں تک روکا جا سکتا ہے۔ نانا کے ساتھ ماں بھی بہت یاد آئی مگر ریاست کے ایک ستون نے شفقت کا ہاتھ تو سر پر رکھا۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ محترم بلاول بھٹو کے غم اور خوشی میں سب اہلِ درد شامل ہیں۔ وزیراعظم محترم شہباز شریف صاحب نے بھی سپریم کورٹ کی رائے کو سراہا ہے۔ محترم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے قلم کے ساتھ ایسا ہاتھ بلاول بھٹو کے سر پر رکھا ہے جو تاریخی پُرشفقت ہاتھ بن گیا ہے۔ اس ہاتھ کی عظمت اس لیے بھی ہے کہ اس میں عملدرآمد کی عملیت نمایاں ہے۔
حضورﷺ کا دستِ شفقت دیکھیں تو (مسند احمد: 1840) کے مطابق کبھی یہ ہاتھ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے سر پر پھرتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی حضرت انسؓ کے رخسار پر پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کا ہاتھ مبارک ریشم سے بڑھ کر نرم‘ برف جیسا ٹھنڈا اور کستوری جیسا خوشبو دار تھا۔ لوگو! ثابت ہوا کردار کے رنگ دستِ شفقت میں نمایاں ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ! حضورﷺ کے مبارک اسوہ اور کردار کا رنگ حضورﷺ کے دست مبارک سے عیاں ہے۔
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کا ہاتھ ہم نے ایک بچی کے سر پر دیکھا۔ اس میں عملیت کا پہلو یہ تھا کہ اس بچی کی مظلومانہ فریاد کے مطابق اس کو حق مل گیا۔ جنرل عاصم منیر نے اے ایس پی شہر بانو کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہجوم کے بلووں کا کلچر ملیامیٹ ہو گا۔ محترم شہباز شریف نے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی ایک رکن پارلیمان ثوبیہ شاہد کے سر پر ہاتھ رکھا۔ محترمہ کے ساتھ بدتمیزی کا جو رویہ اختیار کیا گیا‘ اس کا مداوا کیسے ہو گا۔ محترم شہباز شریف صاحب یقیناً مداوا کرنے کا سوچ رہے ہوں گے کیونکہ جب انہوں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا تب وہ وزیراعظم نہ تھے۔ محترمہ مریم نواز نے ایک سرکاری ادارے کے معائنے کے موقع پر ایک لڑکی کا سرک جانے والا دوپٹہ اُس کے سر پر لوٹا دیا۔ یہ میسج تھا وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے کہ دوپٹے کو عزت دی جائے گی۔ جی ہاں! سب کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جائے گا تو ہی ریاست ماں جیسی کہلا سکے گی۔ اللہ کرے کہ آنے والے دن ہم ایسے ہی دیکھ سکیں۔ ویسے ماں کیا نعمت ہے‘ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں وصیت کر دی ہے (کہ وہ دیکھے کیسے) اس کی ماں کمزوری در کمزوری کی حالتوں میں اسے (شکم میں) اٹھائے پھرتی رہی‘ پھر دو سال اس کو دودھ پلایا۔ (اے ماں کے شکم میں پرورش پانے اور اس کے سینے سے چمٹنے والے) میرا بھی شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی (عمل اور کردار سے) شکریہ ادا کر۔ (یاد رکھ!) واپس میرے پاس ہی آنا ہے‘‘ (لقمان: 14)۔ قارئین کرام! میں کہتا ہوں کہ جو انسان بھی غسل کرنے لگے تو اپنی ناف کی جانب توجہ ضرور کرے کہ اس کی پیدائش کے موقع پر یہاں سے ایک عضو کاٹا گیا تھا جسے آنول کہا جاتا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر یا دائی نے اسے کاٹا تھا۔ یہ عضو رحمِ مادر کی دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا تھا یعنی یہ ایسا پائپ تھا جو ماں کے خون کی شریانوں سے خون لیتا تھا اور بچے کے سارے جسم کی رگ رگ میں پہنچا دیتا تھا۔ اس کا دل اسی سے دھڑکتا تھا۔ اس کے کان‘ آنکھیں‘ زبان اور دل‘ سب میں یہی خون دوڑ کر اس کی نشو و نما کر رہا تھا۔ ہاتھ بن رہے تھے‘ ٹانگیں بن رہی تھیں۔ جن پاؤں کے ساتھ آج یہ دوڑتا ہے‘ ہاتھوں میں قلم تھام کر لکھتا ہے‘ کمپیوٹر اور موبائل کے کی بورڈ کو استعمال کرتا ہے‘ ان ہاتھوں اور انگلیوں میں اسی ماں کا خون دوڑ رہا ہے۔ سر میں کنگھی کرے تو اسے سوچنا چاہیے کہ ان زلفوں کی آبیاری ماں ہی کا خون کرتا تھا۔ اسی پائپ کے ذریعے بچے کو آکسیجن ملتی تھی۔ ارے! تیرا ناک کام نہیں کرتا تھا‘ پھیپھڑے چالو نہیں ہوئے تھے۔ ماں کے خون سے آکسیجن ملتی تھی اور زندگی قائم تھی۔ اس زندگی کا جس نے نظام بنایا اس کا شکر کر۔ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا کر اور ماں کو کسی دم نہ بھولا کر۔ اللہ اللہ! اس ناف کے ساتھ ایسا پائپ تھا کہ جو پیدائش تک پھیپھڑوں‘ گردوں اور جگر کا کام کرتا تھا‘ یعنی شکمِ مادر میں ماں کا سانس بھی بچے کا سانس تھا۔ اسی کا جگر تھا جو بچے کا جگر تھا۔ اسی پائپ میں گردے تھے‘ یہ پائپ آلودگی کی صفائی کا کام کرتا تھا یعنی بچہ اپنی ماں کے جسم کا ایک عضو تھا۔
اللہ اللہ! جب پیدائش کا وقت قریب آتا ہے تو یہی پائپ ماں کی اینٹی باڈیز کو بچے کے جسم میں تیزی کے ساتھ منتقل کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ بچے کی قوتِ مدافعت تیز ہو جائے۔ اس نے اب ایک اور جہان میں آنا ہے تاکہ وہاں کے جراثیموں کا مقابلہ کر سکے۔ ماحول کا سامنا کر سکے۔ اب اس پائپ سے لیکٹوجن بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ہارمون ہے‘ ماں کی جانب سے اس کی سپلائی تیز ہو گئی ہے۔ ایسٹروجن کی سپلائی بھی بخوبی جاری ہے۔ پروجیسٹرون کی برآمد بھی بخوبی ہو رہی ہے۔ ماں کی طرف سے ہر طرح کا سامان دھڑا دھڑ منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ جب یہ بچہ یا بچی ایک نئی دنیا میں قدم رکھے تو اسے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ اللہ! یہ آنول ایک ایسا ہارمون بھی پیدا کرتی ہے جو ماں کے دودھ کی پیداوارکو روکتا ہے۔ یہ اس لیے روکتا ہے کہ اگر دودھ کی پیداوار شروع ہو جائے تو باقی سامان کی سپلائی میں سستی رونما ہو جائے گی۔ لہٰذا ابھی اس کی ضرورت نہیں۔ جونہی نومولود دنیا میں آتا ہے‘ آنول کاٹ دی جاتی ہے کیونکہ اب بچے کے سارے اعضا نئی دنیا میں اپنے افعال سرانجام دینے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ دودھ کی پیداوار شروع ہو چکی ہے لہٰذا اب بچہ اپنی ماں سے خوراک حاصل کرنے لگ گیا ہے۔ دو سال تک یہ پھر ماں کے دودھ پر پرورش پا رہا ہے اور یہ دودھ ماں کے خون سے ہی تیار ہو رہا ہے۔ بدبخت ترین ہے وہ جو ماں کو فراموش کرتا ہے۔ بقول قاری عمر جٹھول‘ اگر ریاست ایسی ہو جائے تو سبحان اللہ! ماں سے چند درجے کم بھی ہو جائے تو میرا‘ تیرا پاکستان خوشحال ہو جائے‘ لہلہا اُٹھے۔ صدقے قربان اپنے حضور رحمت دو عالمﷺ پر کہ آپ کی حکمرانی کا جس ریاست نے لطف اٹھایا‘ مدینہ منورہ کی وہ ریاست ماں سے کہیں اوپر تھی۔ وہ جس قدر اوپر تھی‘ اے حکمرانانِ پاکستان! ہمیں اس سے دس درجے کم تر دے دو۔ بہت بہت شکریہ!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved