جناب آصف علی زرداری نے صدارتی معرکہ جیت لیا ہے۔ اپنے حریف محمود خان اچکزئی کو اُنہوں نے بھاری اکثریت سے شکست دی ہے۔ وہ دوسری بار یہ منصب سنبھالیں گے۔ اس سے پہلے پاکستان کے کسی صدرِ مملکت کو دو بار منتخب ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق‘ جنرل پرویز مشرف کا عرصۂ صدارت طویل رہا لیکن ان کا یہ منصب کسی باقاعدہ انتخاب کا نتیجہ نہیں تھا۔ ایوب خان نے پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل سکندر مرزا کو زبردستی ایوانِ صدر سے نکال باہر کیا اور اُن کی جگہ خود سنبھال لی۔ اپنی مرضی کا آئین بنوایا اور اپنی مرضی کا ریفرنڈم کرا کر بلامقابلہ اپنے آپ کو صدر ڈکلیئر کر دیا۔ ایک میعاد پوری ہوئی تو پھر میدان میں اُترے۔ سامنا محترمہ فاطمہ جناحؒ سے ہوا۔ اُنہیں شکست دے کر وہ ایک بار پھر صدر کہلانے لگے لیکن ان کے خلاف تحریک چلی تو ایوانِ صدارت انہی کے نامزد کردہ کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے ان سے خالی کرا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ یحییٰ خان نے اپنی مرضی کا آئین بنوانے کے لیے انتخابات کرائے‘ نتیجتاً جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ کر گیا۔ جنرل یحییٰ خان طاقت کے بل پر آئے تھے‘ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرکے رخصت ہوئے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ان ہی کے وفادار جرنیلوں نے اُنہیں چلتا کیا‘ اور ان کی جگہ نئے پاکستان کے ''موجد‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو لا بٹھایا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب بھی وصول کر لیا تھا۔ سرزمینِ بے آئین کو صدارتی طرز کا ایک عبوری دستور دیا۔ اس کے بعد 1973ء کا دستور قومی اسمبلی سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ دور اندیشی کا مظاہرہ یوں کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرکے اتفاقِ رائے سے دستور بنایا جو آج تک موجود ہے‘ اسے منسوخ کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔ اس میں طرح طرح کی ترامیم کرکے اس کا حلیہ بدلا جاتا رہا لیکن بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ قائم رہا۔ اب تبدیلی در تبدیلی کے بعد جو کچھ بھی ہے‘ اس پر وسیع تر اتفاقِ رائے موجود ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو صدر سے وزیراعظم بن گئے لیکن حکومت کی گاڑی دستور کی پٹڑی پر نہ چلا سکے۔ اپوریشن کا جینا حرام کیا‘ اور1977ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کا ریکارڈ قائم کر کے بذریعہ مارشل لاء ایوانِ اقتدار سے نکالے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے اُنہیں بذریعہ عدالت تختۂ دار پر لٹکا دیا اور خود ریفرنڈم کے ذریعے بلامقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ کم و بیش گیارہ سال اپنا ڈنکا بجانے کے بعد ہوائی حادثے کا شکار ہوئے تو اُن کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے سنبھالی۔ اُنہیں بعدازاں باقاعدہ منتخب کر لیا گیا۔ یوں فضل الٰہی چودھری کے رخصت ہونے کے کئی سال بعد مملکت کو دستور کے تحت منتخب صدر ایک بار پھر نصیب ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آئین میں ترامیم کرکے صدر کو بااختیار بنا چکا تھا۔ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار اُس کے پاس تھا‘ سو غلام اسحاق خان نے پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے اُنہیں اقتدار سے نکال باہر کیا۔ نتیجتاً انہیں ایوانِ صدارت خالی کرنا پڑا۔ نواز شریف اسمبلی سپریم کورٹ نے بحال کر دی تو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا ایوان گتھم گتھا ہو گئے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے بیچ بچاؤ کرایا۔ صدر اور وزیراعظم دونوں نے ایک دوسرے کی چھٹی کرا کر نئے انتخابات کا ڈول ڈالا۔ نتیجے میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو دوبارہ ملک کو نصیب ہو گئیں۔ انہوں نے سردار فاروق احمد خان لغاری کو ایوانِ صدر میں لا بٹھایا۔ ان کا انتخاب بھی دستوری طور پر عمل میں آیا۔ انہوں نے احسان یوں چکایا کہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی تحلیل کرکے انہیں ایوانِ اقتدار سے باہر نکال دیا۔ ان کی جگہ نواز شریف منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو پر لگائے جانے والے کرپشن کے گھناؤنے الزامات نے ان کی لٹیا ڈبو دی اور پیپلز پارٹی چند سیٹوں پر سکڑ گئی۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے وزیراعظم نواز شریف نے صدر کے پَر کتر ڈالے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار اس سے واپس لے لیا‘ اور سردار لغاری نہ ادھر کے رہے‘ نہ اُدھر کے... بال و پر کے بغیر ایوانِ صدر میں دِن گنتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی جگہ جسٹس(ر) محمد رفیق تارڑ نے سنبھال لی۔ نواز شریف کی نگاہِ انتخاب ان پر اس طرح پڑی کہ وہ خود ہکا بکا رہ گئے۔ ایوانِ صدر وزیراعظم کا دعا گو رہا‘ یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف سے پالا پڑ گیا۔ وزیراعظم نے اُنہیں عہدے سے برطرف کیا تو ان کے حامی جرنیلی جتھے نے وزیراعظم کو ''برطرف‘‘ کر ڈالا۔ ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی نذر ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف بذریعہ طاقت‘ بذریعہ ریفرنڈم اور بعدازاں بذریعہ دھونس صدارت کے منصب سے چمٹے رہے‘ یہاں تک کہ انہیں عدالت اور سیاست نے مل کر نکال باہر کیا۔
آصف علی زرداری صدرِ پاکستان بنے‘ یوسف رضا گیلانی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی‘ پیپلزپارٹی کا جھنڈا ایک بار پھر اونچا ہوا۔ آئین میں ترمیم کے لیے وسیع تر اتفاقِ رائے ممکن بنایا گیا اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خود مختاری میں ایسا اضافہ کیا کہ اُن سے بھی سنبھالا نہیں جا رہا۔ صوبے تو مالا مال کر دیے گئے لیکن بلدیاتی اداروں کے قیام و استحکام کے لیے کوئی آئینی پیش رفت نہیں کی گئی نتیجتاً پاکستان کی جمہوریت اپنی جڑوں سے محروم ہے۔ آصف علی زرداری کا عہد پورا ہوا تو مسلم لیگ(ن) نے سید ممنون حسین کو اُن کی جگہ لا بٹھایا۔ نواز شریف وزیراعظم بن گئے لیکن انہیں پانامہ سکینڈل میں اُلجھا کر بذریعہ سپریم کورٹ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان وزیراعظم بنوائے گئے‘ انہوں نے ڈاکٹر عارف علوی کو ایوانِ صدارت میں لا بٹھایا۔ عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو وہ بے قابو ہو گئے۔ اسمبلیوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے‘ اور اب زندانوں کی سیر کر رہے ہیں۔ 2024ء کے انتخابات میں انہوں نے طاقت کا شاندار مظاہرہ کرکے سب کو حیران کر دیا ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی ابتلا کے ایام میں ان کے ساتھ کھڑے رہے لیکن ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش میں گرتے اور سنبھلتے رہے۔ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش۔
آصف علی زرداری نے دوسری بار صدر بن کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو لاکھڑا کیا تھا۔ اچکزئی کے بارے میں عمران خان ماضی میں جو کچھ کہتے رہے وہ اس سے کم نہیں تھا جو آصف علی زرداری کے بارے میں شہباز شریف کہتے رہے۔ ان بے احتیاطیوں کو رکھیے ایک طرف‘ آصف علی زرداری سے اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ وسیع تر قومی مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں گے۔ پیپلز پارٹی اس وقت وفاق میں قائم مخلوط حکومت کی جان اپنی مٹھی میں بند کر چکی ہے۔ زرداری کی طاقت ان کی فراست اور سیاست میں ہو گی‘ وہ پاکستان کی سیاست اور معیشت دونوں کو توانا کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کھپے کا نعرہ ایک بار پھر لگا سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری‘ شہباز شریف اور عمران خان‘ سب پاکستان کی ضرورت ہیں‘ کوئی ہے جو ان تینوں کو یہ بات سمجھا دے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved