سینیٹر مشاہد حسین سید ملک کی وہ قابل شخصیت ہیں جن پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔ ایسے افراد ہماری سیاست میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔وہ جس فصاحت و بلاغت کے ساتھ بات کرتے ہیں اُس سے خود اعتمادی‘ فراست اور گہرا علمی ذخیرہ نمایاں نظر آتا ہے۔ متعدد سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ملک کے اندر اور باہر انہیں سننے کا موقع ملا‘ جس جرأت سے پارلیمان کے اندر انہوں نے کلمۂ حق کہااور ملک و قوم کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے مفاہمت‘ ہم آہنگی‘ افہام و تفہیم اور سب سے بڑھ کر جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں‘ شاید ہی کسی نے اس جذبے اور سنجیدگی سے ایسا کیا ہو یا کر سکے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ موروثی سیاستدانوں‘ جاگیرداروں اور گدی نشینوں کو ہم نے اپنے بچوں‘ رشتہ داروں اور خاص درباریوں کو کلیدی عہدے دیتے دیکھا ہے۔ مشاہد حسین صاحب تو ایک نظریے سے سیاست میں گئے تھے جو بے لوث خدمت‘ پاکستان کی سلامتی‘ وقار اور دنیا میں ایک مقام پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ان کے آباؤ اجداد ملک کے معتبر ادبی اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کررکھی تھیں۔ آج جنہوں نے ہمارے اس تاریخی ورثے پر قبضہ کرکے اپنی سیاست چمکائی ہوئی ہے‘ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ''منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘۔ ان کی دیانتداری‘ صاف گوئی اور ان کی سینیٹ میں آخری تقریر اپنی سادگی اور اختصار میں پاکستان کو آگے لے جانے کے تمام اسرار و رموز سموئے ہوئے ہے لیکن یہ بند کمروں میں بیٹھ کر سیاسی مالِ غنیمت تقسیم کرنے والوں کو کیوں کر راس آئے گی۔ایک بات انہوں نے معنی خیز انداز اور جچے تلے الفاظ میں آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے کی ہے کہ نیا باب کھلا ہے اور اب شفایابی کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ سب کو آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں۔ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات چیت کس کے ساتھ ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مسندِ اقتدار جن کے سپرد ہو چکی ہے وہ تو مجسمِ خود سپردگی ہیں۔ مکالمہ ہونا ہے تو ان کے ساتھ جن کے ساتھ تناؤ اور کشیدگی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ دوسرے فریق کو بھی لچک دکھانے کا مشورہ دیں گے۔ مگر یہ بات انہوں نے جمہوریت اور نظریۂ قیامِ پاکستان کے سیاق و سباق اور قائداعظم کی شخصیت اور ان کے افکار کی روشنی میں کی ہے۔ وہ نہ جاگیردار تھے‘ نہ گدی نشین مولوی‘ نہ جنرل بلکہ جمہوریت پسند اور آئین اور قانون کی بالادستی کے علم بردار تھے۔ تاریخی تقریر کا مکمل احاطہ کرنا تو یہاں ممکن نہیں‘ مگر اس کی روح اور جذبہ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور جمہوریت پر پُرزور یقین اور اعتماد رکھتے اور اسے تحریک پاکستان اور قائداعظم کی میراث خیال کرتے ہوئے موجودہ تناظر میں ملک کو نفرتوں اور انتقام کی سیاست سے نکالنے کیلئے مشعلِ راہ سمجھتے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں‘ ہم نے ہمیشہ اُنہیں معاشرے اور ریاست کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو جوڑتے‘ کشمکش اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کرتے اور انتہائی اہم قومی امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرتے دیکھا ہے۔ تاہم مشاہد حسین جیسے دانشور اور سیاسی رہنما دور دور تک نظر نہیں آتے۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارا ملک ان سے استفادہ نہ کر سکا۔ کسی مغربی جمہوری ملک میں ہوتے‘ جہاں جمہوری عمل سے لوگ آگے آتے ہیں‘ موروثیت سے نہیں‘ تو ذہانت‘ قابلیت اور فطری استعداد انہیں کسی اعلیٰ مقام تک لے جاتی۔ ہم جاگیردارانہ معاشرے کے المیوں کو سمجھتے ہیں کہ یہاں کسی کا کردار‘ اعلیٰ تعلیم اور فکری صلاحیت معیار نہیں‘ صرف اور صرف خونی رشتے ہیں۔ اس لیے تو ہمیں نئی مدبرانہ قیادت نصیب نہیں ہوئی اور جاگیرداری سیاست کے گول کنویں میں نسل در نسل سفر کرتے چلے آرہے ہیں۔ جو معاشرہ اور سیاسی لوگ تاریخ سے نابلد ہوں‘ انہیں کیسے سمجھائیں کہ جمہوری عمل سے سیاسی قیادت اُبھرتی اور ملکوں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتی ہے۔ کسی بھی ملک میں اہل لوگوں کی کمی نہیں ہوتی۔ وادیٔ سندھ کا موجودہ پاکستان تو تاریخی طور پر تخلیقی اعتبار سے زرخیز رہا ہے‘ صرف اور صرف نظام کی خرابیاں انہیں فیصلہ ساز اداروں اور سیاسی مقام سے دور رکھتی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر مشاہد حسین صاحب کو تین مختلف کرداروں اور اداروں میں قریب سے دیکھا ہے۔ ہم جامعہ پنجاب کے شعبۂ سیاسیات میں اکٹھے استاد تھے۔ وہ تازہ تازہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کرکے آئے تھے۔ پُرکشش جادوئی شخصیت تو تھی ہی‘ زبان و کلام کی مہارت سے جلد ہی جامعہ میں مقبولیت حاصل کرلی۔ بے دھڑک حق بات کرتے۔ ان کے وسیع مطالعہ اور حالاتِ حاضرہ پر دسترس کے سب قائل تھے۔ ایسے کرشماتی استاد ہم نے کم دیکھے ہیں۔ جنرل ضیاالحق صاحب کا زمانہ آیا تو حق گوئی تو وہ نہیں چھوڑ سکتے تھے‘ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کئی سیمیناروں میں تقریر کے دوران میری طرف اشارہ کرکے کہہ چکے ہیں کہ ہم اکٹھے نکالے گئے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جامعہ پنجاب نے جنرل صاحب کو آئین ردی کی ٹوکری میں پھینکنے اور جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے فوراً بعد ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تو پوری جامعہ میں ہم تقریباً 21استاد تھے جنہوں نے ایک احتجاجی مراسلے پر دستخط کیے۔ اس کے بعد بھی وہ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ جن دس‘ بارہ اساتذہ کو یونیورسٹی سے نکالا گیا‘ مشاہد حسین اُن میں سرفہرست تھے۔ سوچیں نقصان کس کا ہوا‘ کسے فائدہ ہوا اور کیا حاصل ہوا۔
میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آیا تھا تو وہ ''مسلم‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ اس اخبار میں ان کے حکم کی تعمیل میں لکھنے کی ابتدا کی تھی جو تقریباً 40سال جاری رہی۔ انہوں نے اپنے اداریوں سے ''مسلم‘‘ کو ان برسوں میں جو شناخت اور مقبولیت دی‘ وہ اتنے کم عرصے میں شاید ہی کسی اور جریدے کو نصیب ہوئی ہو۔ وہاں بھی حق گوئی اور بے باکی کی قیمت ادا کرنا پڑی لیکن دیکھا ہے کہ اپنے نظریے اور بنیادی پیشہ ور فرائض میں کبھی مصلحت پسندی کو آڑے نہ آنے دیا۔ آج پاکستان کے سینیٹ میں شاید اُن کا آخری دن ہو۔ ان کی تقریر کا متن اور معنویت کا جب ذہن میں خیال آتا ہے تو لگتا ہے کہ ان کی سیاسی زندگی کی تقریباً تین دہائیاں صدا بصحرا نہیں تو کچھ اس سے مختلف بھی نہیں گزریں۔ انہوں نے تو اس دشتِ بے آب و گیاہ میں اس امید سے قدم رکھا تھا کہ ان کے علم و دانش کی برکت‘ اعلیٰ انسانی اقدار‘ بے داغ کردار اور محنت پاکستان کو ایک جمہوری‘ ترقی پسند‘ روشن خیال اور قوموں کی صف میں اعلیٰ مقام کی حامل ریاست بنائیں۔ جوہر کی شناخت تو جوہری ہی جانتے ہیں اور وہ جو سیاسی جوہری ہیں اور طاقتور حلقے ہیں‘ ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ باصلاحیت نوجوان قافلوں کی صورت ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ لیکن مشاہد اور ان کے دیگر معاصر کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ خواب ادھورے ہیں لیکن خواب تو ہیں۔ ایسے نابغہ روزگاروں کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر ہوگی‘ آج نہیں تو کل۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved