اس مریضانہ کیفیت اور ایذا پرستانہ مزاج سے کبھی اپنی بنی نہیں جو ہمہ وقت مایوسی اور بے دلی پھیلانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اگر کسی قلمکار کے ہاتھ میں قدرت نے قلم تھما دیا ہو اور وہ سمجھے کہ یہ ایسا خنجر اور ایسا نشتر ہے جس سے مجھے نئے زخم بھی لگانے ہیں اور پرانے زخموں کو کچوکے بھی دینے ہیں، تو اس کی مرضی‘ لیکن قلم اس لیے نہیں۔ روز روز یہی کچھ ہو تو آخر میں لوگ انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد زندگی کی رنگا رنگی بھی پھیلی ہوئی ہے اور بدنمائی بھی‘ ہم لوگ روزملک‘ معاشرے اور قوم کی خوبیاں بھی دیکھتے ہیں اور خامیاں بھی۔ صرف دیکھتے ہی نہیں‘ ان سے عملاً روزگزرتے بھی ہیں۔ ہمیں گلاب کے پھولوں سے لدی ٹہنیاں بھی اپنی طرف بلاتی ہیں اور اسی راہ میں کوڑے کے ڈھیربھی ملتے ہیں۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کون سی چیزکا تذکرہ ہمیں زیادہ محبوب ہے۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ ہمارے قلم سے گلاب کی مہک آئے یا تعفن پھوٹتا رہے۔ قلم کا کام متوازن اور موزوں انداز میں خرابیوں کی نشاندہی ضرور ہے لیکن یہ فریضہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔ ان گلابوں کا ذکر اور گلاب کھلانے والوں کی تحسین پھر کس کے ذمے ہے؟یہ فرض کون ادا کرے گا؟بیشمار جاننے والوں کو دیکھتا ہوں‘ پڑھتا ہوں‘ کڑھتا ہوں اور خاموش ہورہتا ہوں کہ ان کا مزاج بدلنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ احساس تکلیف ضرور دیتا ہے کہ ان کی نگاہ سیاہ پر ہی کیوں پڑتی ہے‘ سفید پر کیوں نہیں ؟انہیں وہ باتیں اور وہ خبریں نظر کیوں نہیں آتیں جو امید افزا ہیں اور جو بلا کی تپش میں ایک خوشگوار جھونکا بن سکتی ہیں؟ آپ اتفاق کریں گے کہ کچھ قلمکاروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں کے سالہا سال کے ریکارڈ میں کوئی امید افزااور رجائی خبریا تحریر ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ انکا مزاج انہیں اجازت ہی نہیں دیتا کہ لوگ کسی بات پر خوش ہوسکیں۔ حالانکہ لو کے جھونکوں کے بیچ قوم کو اچھی خبروں اور خنک ہوا کی شدید ضرور ت ہے۔
کچھ ایسی ہی خبریں آئیں اور عام طو رپر بے توجہ گزر گئیں۔ کچھ سیاسی حوالوں سے اورکچھ دفاعی حوالوں سے۔ ان حالات میں اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ ہنگامہ آرائی اور الزامات کے گرد و غبار کے بیچ بہرحال انتقالِ اقتدار ہوگیا۔ نگران حکومت ختم ہوئی اور پنج سالہ اقتدار شروع ہوگیا۔ عارف علوی الوداعی گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے اور آصف زرداری خیر مقدمی گارڈ آف آنر کے ساتھ ایوانِ صدر میں بیٹھ گئے۔ حکومت فارم 45 کی تھی یا فارم 47 والی‘ یہ الگ بحث ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خواہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی مفاہمت اور میثاقِ مفاہمت کی باتیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے کر رہی ہوں لیکن سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی کی فوری اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ طے ہے کہ سیاسی انتشار اور بحران کے ساتھ ملک معاشی گرداب سے نہیں نکل سکتا۔ موجودہ حالات میں بہرحال ملک کو ایک مستقل حکومت اور سیاسی استحکام کی شدید ضرورت تھی۔ اس لیے تمام تحفظات کے باوجود اسے اچھی خبر ہی کہنا چاہیے۔ سیاسی گردو غبار نے ماحول ایسا مکدر کیا ہوا ہے کہ دفاعی حوالوں سے کچھ اچھی خبریں بھی نظر انداز ہوکر رہ گئیں حالانکہ ان خبروں کو پڑوسی ملک میں خاصی توجہ ملی اور کافی مضامین اور تبصرے تحریر ہوئے۔ دو جنوری 2024ء کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاک فضائیہ کا دورہ کیا اور چین کی مدد سے تیار کردہ جدید جے 10 سی طیارے کی فضائیہ میں شمولیت کے موقع پر یہ اعلانات بھی کیے گئے کہ عنقریب چین میں بنا ہوا ایف سی 31 سٹیلتھ طیارہ بھی پاک فضائیہ میں شامل کیا جائے گا۔ یہ طیارہ جدید ترین ففتھ جنریشن ہوگا جو امریکہ ایف 35 کے برابر یا اس سے بہتر صلاحیتوں کا حامل ہوگا۔ سٹیلتھ ٹیکنالوجی یعنی ریڈار پر نظر نہ آنے کی صلاحیت اسے زیادہ خطرناک بناتی ہے۔ پاک فضائیہ نے روایتی حریف بھارتی فضائیہ سے خود کو ہمیشہ برتر رکھا ہے اور یہ مانا بھی گیا ہے۔ بھارتی فضائیہ نے جب فرانسیسی رافیل جو 4.5 جنریشن کا طیارہ ہے‘ اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا تو یہ توازن بگڑ گیا تھا۔ پاکستان اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے دفاع پر بہت بڑی رقم خرچ نہیں کرسکتا‘ اس لیے چین کی مدد سے جے ایف 17 طیارے ملک میں تیار کیے گئے جو کامیابی سے نہ صرف ملکی دفاع کا کام کر رہے ہیں بلکہ فروری 2024ء میں آزر بائیجان نے بھی پاکستان سے یہ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔اور 1.6 ارب ڈالر کا یہ معاہدہ پاکستان کا اب تک سب سے بڑی دفاعی سامان کی فروخت کا معاہدہ ہے۔ اس میں طیاروں‘ ایمونیشن‘ میزائل اورفنی تربیت کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اب جو یہ ایف سی 31 سٹیلتھ طیارے کا اعلان سامنے آیا ہے اس پر بھارت کے دفاعی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے بلکہ کئی سال قبل‘ 2015ء میں بھی ایئر مارشل (ر) بی کے پانڈے نے اپنے ایک آرٹیکل میں اس کا تفصیلی تذکرہ کیا تھا۔ ان طیاروں کی خریداری کا معاملہ ابھی مستقبل کا ہے لیکن بہرحال یہ ملک و قوم کیلئے اچھی خبر ہے۔
دفاعی حوالے ہی سے ایک اچھی خبر فتح ٹو میزائل سسٹم ہے۔ 400کلو میٹر تک اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے والے اس میزائل سسٹم نے بھی بین الاقوامی خبروں میں کافی توجہ حاصل کی۔ یہ سسٹم بیک وقت کئی میزائل داغ سکتا ہے اور سیٹلائٹ سے منسلک ہونے کی وجہ سے اس میں ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔ یہ فلیٹ ٹراجیکٹری میزائل ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اسے ریڈار پر دیکھنا اور بروقت تباہ کرنا کافی مشکل ہوگا جبکہ بلیسٹک میزائل کے داغنے سے لے کر ہدف پر گرنے تک اتنا وقت ہوتا ہے کہ اسے دیکھا اور تباہ کیا جا سکے۔ کہا جارہا ہے کہ بھارتی ایس 400میزائل سسٹم کیلئے پاکستانی فتح ٹو مؤثر جواب ہو گا۔ 6 مارچ 2024ء کو‘ یعنی اسی ماہ آرمی چیف نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلاکا دورہ کیا اور پاکستان میں تیارہ کردہ جدید ترین حیدرٹینک کی نقاب کشائی کی گئی۔ اس تقریب میں چینی سفیر اور چینی سرکاری کمپنی نورینکو کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے اشتراک سے تیار کردہ یہ جدید ترین ٹینک طاقتور فائر پاور‘ میدانِ جنگ میں تیزی سے نقل و حرکت اور جدیدریڈار سسٹم کا حامل ہے۔ اسے فوجی شمولیت میں کچھ وقت لگے گا لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ دو‘ تین سال کے اندر یہ عسکری استعمال کیلئے دستیاب ہو گا۔ اور یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ دفاعی سامان کی فروخت میں یہ ٹینک بھی شامل ہو جائے گا۔ یہ خبریں اس بات کی نشاندہی ہیں کہ ادارے ملکی دفاع سے غافل نہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول سے بھی۔ یہ انہی کی نہیں پوری قوم کی کامیابی ہے۔ 9 مارچ کو یہ خبر پڑھ کر بھی دل خوش ہوگیا کہ ایک پاکستانی سینیٹر کو آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک پارلیمنٹری بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ کے پی سے تعلق رکھنے والے فیصل سلیم رحمن اس اعزاز کے حامل پہلے پاکستانی ہیں۔ فیصل نے کہا ہے کہ وہ اس بورڈ میں پاکستانی معاشی مسائل کو اجاگر کریں گے اور بہتر طور پر پاکستان کی ترجمانی کر سکیں گے۔ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک پارلیمنٹری نیٹ ورک میں 140 ممالک کے پارلیمنٹیرینز کوشامل کیا جاتا ہے۔ اس کا صدر دفتر پیرس‘ فرانس میں ہے۔ اس نیٹ ورک کی سرگرمیاں اور مقاصد 12 رکنی بورڈ متعین کرتا ہے۔ فیصل سلیم رحمن اس بارہ رکنی بورڈ میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کا بھی اعزاز ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارے کچھ تجزیہ کاروں‘ کالم نگاروں کی نظر سے اچھی خبر یں نہیں گزرتیں۔ ماہرینِ بصارت کہتے ہیں کہ رنگوں کے اندھے پن کے مریض بعض رنگ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ انہیں ہررنگ ایک ہی یا چند رنگ کی صورت نظر آتے ہیں۔ اور اگر کسی کو سب رنگ نظر بھی آتے ہوں لیکن وہ جان بوجھ کر انہیں سیاہ دکھاتا ہو تو پھر؟ پھر یہ بصری نہیں‘ ذہنی مرض ہے‘ نفسیاتی عارضہ ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں مزاج ہے۔ اور حضور! ایک عمر کے بعد مزاج بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔
کیا کرے چاند‘ کیا کرے سورج
کور چشمی کا کیا علاج میاں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved