تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     21-10-2013

امریکی خواب کی تلاش

زیادہ تر امریکی ادب تارکین ِ وطن کے معاملات کا جائزہ لیتا ہے۔ ہمیں اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ، اس کی دریافت کے بعد،بیرونی دنیا سے کشتیاں بھر بھر کر لوگ آگئے اور یہاں سکونت اختیا رکرلی۔ آئرش، جرمن، اٹالین، انگریز ، روسی ، یہودی اوریورپ کی دیگر اقوام نے لاکھوںکی تعداد میں اس نئے دریافت ہونے والے برِاعظم کا رخ کیا ، جبکہ افریقہ کے لاکھوں افراد کو بطور غلام امریکہ لایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، سب نے کہانیوں، نظموں اور ڈراموںکی صورت میں اپنے تجربات کا اظہار کیا۔ آہستہ آہستہ یہ تمام اقوام امریکی معاشرے میں ضم ہوگئیں ۔ ان کی نسلی اور قومی شناختیں ختم ہوگئیں اور وہ تمام کے تمام امریکی بن گئے، یا کم از کم وہ امریکی پہلے تھے اور جرمن یا انگریز یا اٹالین بعد میں۔ ان کے رسومات اور رواج سب باہم مدغم ہوکر امریکی تہذیب کے خدوخال میں شامل ہوگئے۔ امریکہ میں مسلمان تارکین ِ وطن نسبتاًبعد کے دور میں آئے اور تاحال وہ امریکی معاشرے میں ضم نہیںہوپائے ہیں، یعنی وہ مسلمان پہلے ہیں اور امریکی بعد میں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے امریکی ہمسایوںکے رسوم و رواج اپنا کر ان کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکیں، 9/11 کا واقعہ پیش آگیا۔ اس سے پہلے وہ امریکہ میں بسنے والی بہت سی مذہبی اقلیتوں میںسے ایک تھے ، لیکن راتوں رات اُنہیں امریکی معاشرے کے دشمن کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اگرچہ مسلمانوںکی حالت ِ زار کی عکاسی کرنے کے لیے کچھ کتابیں لکھی گئیں لیکن اُنہیں زیادہ تر فلموں اور کتابوں میں دہشت گردوں کے طور پر ہی پیش کیا گیا۔ درحقیقت آج بھی امریکی صدر مسٹر اوباما پربہت سے امریکی الزام لگاتے ہیں کہ وہ مسلمانوںکے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس سے اسلام کے بارے میں امریکی معاشرے میں پھیلے ہوئے خدشات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’’The Domestic Crusaders ‘‘ میں مصنف نے اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ امریکہ میں مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ وجاہت علی کا لکھا ہوا یہ کھیل لند ن کےTara Theatre میں پیش کیا گیا۔ اس میں ایک خاندان کی تین نسلوں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ حاکم کا خاندان ہے جو کیلی فورنیا میں آباد پاکستانی خاندان ہے۔ اس کا کردار ارنسٹ اگنیٹس (Ernest Ignatius) نے ادا کیا ہے۔ خاندان کے سربراہ کے طور پر وہ دیگر اہل ِ خانہ کے درمیان مصالحت کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کا بیٹا سلمان ایک محنتی انجینئر ہے۔ وہ ڈرامے میں غصے میں دکھائی دیتا ہے کیونکہ اُسے ایک ترقی، جو اس کے خیال میں اُس کا حق تھی، سے محروم رکھا گیا ہے۔ تاہم اس کی جگہ پر جس کو ترقی دی جاتی ہے وہ کوئی سفید فام امریکی نہیں بلکہ لمبی داڑھی والا ایک مسلمان ہے۔ سلمان کی بیٹی فاطمہ قانون کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اس نے سرپر سکارف لیا ہو اہے اور اُسے اپنی اسلامی شناخت پر فخر ہے، تاہم اس کا بھائی صلاح الدین ایک سٹاک بروکر ہے اور اُسے اپنے اسلامی تشخص سے کوئی سروکار نہیںہے۔ سب سے چھوٹابھائی غفور میڈیکل کا طالبِ علم ہے اور اس کی بھی چھوٹی چھوٹی داڑھی ہے۔ ان کی والدہ کا نام کلثوم ہے۔ غفور کی اکیسویں سالگرہ پر اہل ِ خانہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس اجتماع میں آہستہ آہستہ ان کے اختلافات سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ غفور اعلان کرتا ہے کہ وہ طبی تعلیم چھوڑ کر پڑھانے کی طرف آرہا ہے۔ گویا وہ ڈاکٹر کی بجائے استاد بننے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ یہ سن کر اُس کے والدین غصے میں آجاتے ہیں۔ اس کی والدہ کہتی ہے کہ جب ’’وہ ‘‘ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُسے بہت فخر تھا کہ اُس کا بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے اور اب اُسے اپنے رشتہ داروں کے سامنے سبکی اٹھانا پڑے گی۔ سلمان کا ردِ عمل اس سے بھی جارحانہ ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غفور نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اُس سے مشورہ کیوں نہیںکیا۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ وہ (غفور) اُس کا بیٹا ہے اور وہ اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔ غصے میں آکر وہ غفور کے تھپڑ رسید کرتاہے۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھ جاتی، صلاح الدین مداخلت کرتے ہوئے اپنے بھائی کا دفاع کرتا ہے۔ جب والدین اور بچے چلے جاتے ہیں تو سلمان کلثوم کو بتاتا ہے کہ اُسے ترقی سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ کئی سالوں سے محنت سے کام کرتا رہا ہے اور وہ اپنے باس کا وفادارتھا۔ کلثوم کہتی ہے کہ پھر وہ ملازمت چھوڑ دے، لیکن وہ انکار کردیتا ہے ۔ وہ تلخی سے کہتا ہے کہ اُس کے مالکوں کو علم ہے کہ وہ ملازمت نہیں چھوڑے گا۔ یہاں ہمیں اس کی خامیوں کا علم ہوتا ہے۔ سلمان بتاتا ہے کہ یہاں امریکہ میں زندگی کتنی دشوار ہے اور یہ بات اس کے بچے نہیں جانتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا علم نہیںہے کہ ان کے والدین نے یہاںکن حالات کا سامنا کیا تھا۔ وہ کہتا ہے۔۔۔’’ یہ کیا جانتے ہیں؟ آج انہیں کہو کہ کسی غیر اسلامی ملک میں جائیں اور خالی ہاتھوں سے چند دوست طالب علموں کے سہارے کوئی کمیونٹی تشکیل دینے کی کوشش کریں۔ جب ہم یہاںآئے تھے تو ہم چند افراد تھے اور ہم نے نہایت مشکل حالات میں زندگی بسر کی۔ بعض اوقات ہمیں حلال گوشت لینے کے لیے دو ریاستوں کاسفر کرنا پڑتاتھا۔ ہم نے پیسے اکٹھے کیے تاکہ ایک متروک شدہ دکان کو مسجد میں تبدیل کرکے عبادت کرسکیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات درست ہوتے گئے لیکن جب یہ ٹاور گرے(9/11 کی طرف اشارہ ہے) تو سمجھ لو ان کے ساتھ ہم بھی گر پڑے۔ ‘‘ایک موقع پر ان کا دادا حاکم انہیں بتاتا ہے کہ تقسیم ِ ہند کے وقت وہ ایک نوجوان آدمی تھا۔ اُس وقت اس نے انتقاماً بہت سے ہندوئوں کو ہلاک کیا تھا کیونکہ اُنھوںنے اُس کے دوست مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اس پر تمام بچے ششد ر رہ جاتے ہیں۔ تاہم سلمان سر ہلاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ لوگ شدید جذباتی تنائو کے عالم میں انتہا ئی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس کھیل کا ہدایت کار جتندر ورما ہے۔ اس میں بہت عمدہ طریقے سے مسلمانوں کے امریکی زندگی کے تجربات کی عکاسی کی گئی ہے۔ تاہم اس کے مکالمے معیاری نہیںہیں۔ زیادہ تر اداکار ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے ناظرین سے مخاطب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کھیل میں ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کے ناظرین بہت سی باتوں کو سمجھتے تھے۔ ڈرامہ نویس اس بات کا ادراک نہ کرسکا کہ امریکی باشندوں کی نسبت اہل ِ برطانیہ مسلمانوں کی بہت سے رسومات اور عقائد سے واقف ہیں،چنانچہ اُنہیں دہرانے سے گریز کیا جاسکتا تھا کیونکہ یہ ڈرامہ لندن میں پیش کیا جارہا تھا۔ ڈرامے کے بعد ہونے والی گفتگو میں میرے انگریز دوستوںنے اس خامی پر تنقید کی ۔ جہا ں تک اداکاری کا تعلق ہے تو کلثوم اور صلاح الدین کے کردار ٹھیک تھے لیکن سلمان کا کردار ادا کرنے والے اداکار نے بلاضرورت بہت سی جگہوں پر غصے کا اظہار کیا۔ دراصل مجھے اپنے میزبان کی بات دھیان سے سننی چاہیے تھی۔ کہا گیاتھا کہ اس کھیل میں داخلہ مفت ہے ۔۔۔ اسے لندن میں امریکی سفارت خانے کی معاونت حاصل تھی۔ یقینا، جب کسی کھیل کو کوئی حکومت سپورٹ کرے تو پھر اس کا معیار ایسا ہی ہوسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved