بلند حوصلے انسان کے ارادوں کو پروان چڑھاتے ہیں لیکن مضبوط ارادے والا فرد تنہا ہو کر ایک حد تک ہی پہنچ سکتا ہے۔ اس کے برعکس اتحاد میں خوابوں کو ہم آہنگی سے جوڑ کر تعبیر ملتی ہے جہاں ہم غیر معمولی کاموں کو سرانجام دینے کیلئے تعاون کرتے ہیں۔ انفرادی کوششیں اتحاد کے پرچم تلے مل کر وہ مقصد بھی حاصل کر لیتی ہیں جو کبھی ناممکن سا لگتا ہے۔ تصور کریں کہ ایک پہاڑ ہے‘ جس کی چوٹی دھند میں گم ہے۔ یہ ایک دور اور مشکل مقصد کی علامت ہے۔ ایک تنہا کوہ پیما چاہے کتنی ہی مہارت اور عزم رکھتا ہو‘ دشوار گزار راستے اور بے رحم موسم اسے منزل سے دور لے جا سکتے ہیں۔ جب اس تنہا مسافر کی جگہ ایک ٹیم لے آئیں‘ ایک تجربہ کار رہنما‘ بے پناہ خوشی سے لبریز ساتھی اور آگے کا راستہ دیکھنے والی تیز نگاہ کا حامل انسان‘ تو وہ سب مل کر سامان کا بوجھ بانٹتے ہیں‘ جب شک گھیر لے تو حوصلہ بڑھاتے ہیں اور پہاڑ کے دشوار گزار راستوں کو مرحلہ وار عبور کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اتحاد کی اس خوبصورت تصویر میں‘ وہ چوٹی جو پہلے ناممکن سی لگتی تھی‘ اب ایک شاندار جشن گاہ بن جاتی ہے اور اجتماعی طاقت کی عظمت کی گواہی دیتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اتحاد کی طاقت جسمانی کارناموں سے آگے ہے‘ یہ جدت کو جنم دیتا ہے۔ اتحاد سے ایک ایسا اجتماعی شعلہ روشن ہوتا ہے جو نئی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔ جب مختلف نظریات اکٹھے ہوتے ہیں تو ایسے حل سامنے آتے ہیں جو کسی ایک ذہن کے لیے پوشیدہ رہ جاتے ہیں‘ یہ مشکلات کے سامنے لچک پیدا کرتا ہے، کیونکہ جب متحدہ محاذ ہوتا ہے تو کوئی بھی آفت برداشت کی جا سکتی ہے۔ بانٹے ہوئے بوجھ ہلکے لگتے ہیں اور ایک کمیونٹی کی بے لوث حمایت ہمت کی ایک طاقتور خوراک کا کام کرتی ہے۔
سیاسی منظر نامہ اپنے سامنے رکھ کر سوچیں کہ مسلم لیگ (ن) کیا اپنے مینڈیٹ کی بنیاد پر شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کر سکتی تھی؟ اسی طرح آصف زرداری کیلئے پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی بنیاد پر صدر منتخب ہونا مشکل تھا مگر جب اتحادیوں کا تعاون حاصل ہو گیا تو دونوں جماعتوں کے امیدوار بہ آسانی منتخب ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی حمایت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ جس خوش اسلوبی کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ اور صدارت کے معاملے کو حل کیا گیا ہے‘ کیا دو بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں بھی ویسی ہی بصیرت کا مظاہرہ کریں گی؟
یہ حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاسی جماعتیں وفاق میں ذمہ داری نبھانے سے کترا رہی ہیں۔ وجہ سیاسی ساکھ اور ووٹ بینک کا متاثر ہونا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ (ق) لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی وفاق میں مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنے انتخابی منشور کو عملی شکل دینے کا پورا موقع ہونے کے باوجود اس کی شدید خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی بھی شریکِ اقتدار ہو‘ تاکہ اگر کل کلاں سیاسی قیمت چکانی پڑے تو ساری ذمہ داری ایک جماعت پر عائد نہ کی جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کے خدشات اپنی جگہ مگر اب وفاقی کابینہ کے تشکیل کے بعد آگے دیکھنا ہی سمجھ داری کہلائے گا کیونکہ چاروں صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ صوبائی حکومتوں نے کام شروع کر دیا ہے‘19 رکنی وفاقی کابینہ بھی حلف اٹھا چکی ہے‘ لہٰذا اب منتخب حکومت کو فوری کام شروع کر دینا چاہئے۔ وفاق میں عہدوں کی تقسیم اور اتحادی جماعتوں کو وزارتیں قبول کرنے پر اصرار خدشات کو جنم دے گا۔ مسلم لیگ (ن) کو یہ بات قطعی طور پر نہیں بھولنی چاہئے کہ انتخابات کے بعد جب نتائج بھی جاری نہیں ہوئے تھے اس نے آگے بڑھ کر مخلوط حکومت کی پیشکش کی تھی‘ سیاسی جماعتوں نے اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا ہے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں اگر موجودہ حالات میں کسی ایک جماعت کو واضح مینڈیٹ ملتا تو کیا اس صورت میں بھی سیاسی ساکھ بچانے کا خیال کیا جاتا؟
یہ پہلا موقع ہے کہ سیاسی جماعتیں عہدوں کا مطالبہ نہیں کر رہیں‘اس سے پہلے حکومت میں شمولیت کا مطلب ہی عہدوں کا حصول ہوتا تھا۔ اتحادی جماعتوں کی ناراضی کو حکومت کے خاتمے کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اتحادی بار بار احساس دلاتے تھے کہ حکومت ان کے ووٹوں کی مرہونِ منت ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم حکومت کی بڑی اتحادی ہیں مگر دونوں کی طرف سے ڈیمانڈز نہیں ہیں‘ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو یکسوئی کے ساتھ اپنے معاشی ایجنڈے پر کام کرنا چاہئے۔ لیگی قیادت کے پیشِ نظر یہ بات ہونی چاہئے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا منشور و طرزِ حکومت یکسر مختلف ہے۔ مسلم لیگ (ن) خسارے کے شکار اداروں کی فوری نجکاری چاہتی ہے‘ معاشی حالات کے تحت یہ ناگزیر بھی ہے مگر پیپلزپارٹی اداروں کی نجکاری کے حق میں نہیں۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 800 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے‘ ماہانہ بنیادوں پر 12 ارب روپے سے زائدکا خسارہ ہے۔ اس خسارے کے ساتھ ادارے کو چلانے کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا 98 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے‘ نگران حکومت الیکشن سے پہلے پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی تھی مگر الیکشن کمیشن نے کہا کہ نجکاری کا اختیار منتخب حکومت کے پاس ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحات سمیت متعدد کام اب منتخب حکومت نے کرنے ہیں۔
پیپلزپارٹی کو جب بھی اقتدار کا موقع ملتا ہے‘ وہ سرکاری اداروں میں ملازمین کی بھرتیوں اور تنخواہوں میں اضافے کی پالیسی اپناتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) استعداد سے زائد بھرتیوں کو قومی خزانے پر بوجھ سے تعبیر کرتی ہے۔ سبسڈی کے حوالے سے بھی دونوں جماعتوں کی پالیسی مختلف ہے۔ سو ضروری ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہی حکومت میں رہے اور پیپلزپارٹی اسے سپورٹ کرے تاکہ ایک یکسو سوچ کے ساتھ آگے بڑھا جا سکے اور یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر سکے جیسا کہ 2008ء کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کو وفاق میں سپورٹ کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات بھی لگے مگر (ن) لیگ نے پیپلزپارٹی کی حکومت گرنے نہیں دی‘ ایسے ہی اب پیپلزپارٹی کو چاہئے کہ وہ آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے پورے پانچ سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سپورٹ کرے۔
آصف زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دوسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کا پہلا دور آئینی ترمیم اور اختیارات کی پارلیمنٹ کو منتقلی کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں اس پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔ امید کی جانی چاہئے کہ عدم ٹکرائو کی پالیسی پر عمل پیرا اور مفاہمتی سیاست کے داعی آصف زرداری کا موجودہ دور معاشی اصلاحات کے حوالے سے یادرکھا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدرِ مملکت آصف زرداری کیلئے ایک بڑا چیلنج سیاسی اتحاد کو پانچ سال تک برقرار رکھنا ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ اگر اتحاد قائم نہیں رہتا تو حکومت بھی قائم نہیں رہ سکے گی۔ شراکتِ اقتدار کا اگرچہ یہ مطلب ہے کہ حکومت کو پانچ سال تک اتحادیوں کا تعاون حاصل رہے گا مگر مسلم لیگ (ن) کو ڈر ہے کہ جس طرح پی ڈی ایم کی سولہ ماہی حکومت میں ساری ذمہ داری اس پر ڈال دی گئی تھی‘ کہیں اس بار بھی ویسا نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کو اقتدار میں شریک کرنا چاہتی ہے تاکہ ذمہ داریوں کا بوجھ تقسیم ہو سکے۔ اگر پیپلزپارٹی اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے وفاق میں وزارتیں نہیں لیتی تو پھر مسلم لیگ (ن) کو اس بات پر قائل کرنا اور یقین دہانی کرانا کہ پانچ سال تک حکومت کو اتحادیوں کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا‘ پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) یکسوئی کے ساتھ اپنے معاشی ایجنڈے پر کام کر سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved