دنیا کتنی چھوٹی ہے۔ بعض دفعہ تو یقین تک نہیں آتا۔ ابھی یہی دیکھ لیں کہ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب دراصل چودھری محمد فاروق کے صاحبزادے ہیں‘ جو 1997ء میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اٹارنی جنرل تھے۔ اُس وقت زرداری صاحب کا ساٹھ ملین ڈالرز منی لانڈرنگ کا سکینڈل آیا تھا۔ ساتھ میں بینظیر بھٹو کے نیکلس کی کہانی بھی منظرعام پر آئی تھی۔ جونہی یہ خبر سامنے آئی تو نواز شریف حکومت نے فوری طور پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا اور سوئس حکومت کو خط لکھا گیا کہ آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کی سوئٹزرلینڈ میں رکھی دولت دراصل پاکستانی عوام کا لوٹا ہوا پیسہ ہے لہٰذا اس پر حکومت پاکستان کا حق بنتا ہے‘ یہ دولت زرداری کو دینے کے بجائے حکومتِ پاکستان کو لوٹائی جائے۔ سوئس حکومت پہلے ہی آصف زرداری اور بینظیر بھٹو پر مقدمہ قائم کر چکی تھی اور حکومتِ پاکستان نے اس مقدمے میں پارٹی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ یوں اٹارنی جنرل چودھری فاروق نے وہ مشہورِ زمانہ خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان سے لوٹا ہوا پیسہ تھا‘ اس لوٹ مار سے پاکستانی معیشت تباہ ہو گئی۔ پھر وہاں مقدمہ چلا۔ اس کے بعد شہباز شریف صاحب کی ہر دوسری تقریر میں ایک ہی بات ہوتی تھی کہ وہ لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے۔ آج وہی زرداری صاحب صدرِ پاکستان ہیں اور چودھری فاروق کا بیٹا وزیر خزانہ ہے۔ ایسے کرشمے اور اتفاقات پاکستان ہی میں ہوتے ہیں۔ میں نے خود ایف آئی اے کے پاس آصف زرداری اور اومنی گروپ کے خلاف ثبوتوں کا پورا ٹرنک دیکھا تھا۔ یہ وہ مشہورِ زمانہ سکینڈل تھا جس میں رکشے والا اور فالودے والا کے اکاؤنٹس بڑے مشہور ہوئے۔ زرداری صاحب اور دوسرے اس سکینڈل میں گرفتار رہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کہانیاں ہیں جومحض سیاستدانوں کو فریم یا بدنام کرنے کے لیے گھڑ لی جاتی ہیں۔ اگر سب کچھ سچ ہوتا تو عدالتیں انہیں سزا دے دیتیں۔ وہ سب بَری ہو گئے ہیں‘ مطلب کچھ بھی سچ نہیں تھا۔
یہ بڑے مزے کا آرگومنٹ ہے۔ پہلی بات ہے اگر زرداری صاحب کے خلاف سکینڈل آیا تھا تو وہ سوئس حکومت نے بریک کیا تھا اور انہوں نے ہی کارروائی شروع کی تھی۔ دوسرے سوئس حکومت کو خط لکھنے والے وزیراعظم نواز شریف کے اٹارنی جنرل چودھری فاروق تھے اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کی دھمکیاں شہباز شریف صاحب دیتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت وہ سب کردار جو زرداری صاحب سے ساٹھ ملین ڈالر ریکور کرانا چاہتے تھے‘ نہ صرف اقتدار میں ہیں بلکہ انہوں نے ہی زرداری صاحب کو صدرِ پاکستان بنایا ہے۔ اب ذرا اندازہ کریں نواز شریف صاحب‘ جنہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے سوئس حکومت کو زرداری صاحب کے خلاف خط لکھوایا‘ انہوں نے صدرِ مملکت کے انتخاب میں آصف علی زرداری کو ووٹ دیا ہے۔ شہباز شریف‘ جنہوں نے پیٹ پھاڑنے کی بات کی تھی‘ انہوں نے بھی زرداری صاحب کو ووٹ دیا بلکہ اپنی پوری پارٹی اور بچوں (مریم نواز اور حمزہ شہباز) سب سے ووٹ دلوایا ہے۔
ویسے مجھے نہیں علم کہ آج سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چودھری کا کیا ردعمل ہو گا جنہوں نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کے عہدے سے اس لیے برطرف کر دیا تھا کہ وہ صدرِ مملکت کے خلاف سوئس حکام کو ساٹھ ملین ڈالرز پر خط لکھنے کو تیار نہ تھے۔ افتخار محمد چودھری چاہتے تھے کہ سوئس حکومت دوبارہ کارروائی شروع کرے جو جنرل مشرف دور میں این آر او کے بعد روک دی گئی تھی۔ آج وہی زرداری صاحب پھر ملک کے صدر ہیں جبکہ افتخار چودھری صاحب روز شام کو تیز تیز قدموں سے اسلام آباد کلب کے پولو گراونڈ میں واک کرتے پائے جاتے ہیں۔ ویسے سوچتا ہوں کہ آج سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کیا ردعمل ہوگا جن کے خلاف زرداری نے دھواں دھار تقریر کی تھی۔ اس تقریر میں زرداری صاحب نے جنرل راحیل کو مخاطب کر کے کہا تھا: آپ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں‘ ہم سیاستدان ہمیشہ رہتے ہیں۔ اگرچہ اس تقریر کے بعد زرداری صاحب کو ملک چھوڑ کر دبئی جانا پڑا اور وہ اس وقت تک نہیں لوٹے جب تک راحیل شریف ریٹائر نہیں ہو گئے جبکہ وزیراعظم نواز شریف اس تقریر سے اتنے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے اگلے دن ناشتے پر زرداری صاحب سے ملنا تھا لیکن وہ ناشتہ کینسل کر دیا گیا کہ جنرل راحیل ناراض نہ ہو جائیں۔ وہی نواز شریف بعد میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ مارتے تھے اور سویلین سپرمیسی کی تحریک چلائے ہوئے تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب نئے آرمی چیف جنرل باجوہ کی تقرری کی جا رہی تھی تو مجھے ہمارے سب سے باخبر دوست‘ میجر عامر نے بتایا کہ اس معاملے میں زرداری سے بھی مشورہ کیا گیا تھا۔ میں نے جب یہ خبر اپنے ٹی وی شو میں بریک کی تو مجھے دبئی کے ایک نمبر سے میسج ملا جس میں شکریے کا میسج تھا اور آگے لکھا تھا: AZ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کس بندے نے مجھے دبئی سے شکریہ ادا کیا اور یہ اے زی سے کیا مراد ہے۔ میں نے جواباً میسج کیا کہ سوری‘ میں آپ کو پہچان نہیں سکا اور اس AZ کا کیا مطلب ہے۔ جواب آیا: آصف زرداری۔ مجھے اس وقت احساس ہوا کہ میری اس خبر سے کہ ان کی بھی نئے چیف کی تقرری میں حمایت تھی‘ ان کا پاکستان واپسی کا راستہ کھل جائے گا۔ نئے چیف کو یقینا بتایا جائے گا کہ جب انہیں آرمی چیف لگایا جا رہا تھا تو زرداری صاحب کی حمایت بھی شامل تھی۔ ان دنوں اگرچہ پی پی پی کے خورشید شاہ نے جنرل باجوہ کی متوقع نامزدگی پر کچھ سوالات اٹھائے تھے اور جنرل باجوہ اس پر پریشان تھے کہ کہیں ان کی نامزدگی اس وجہ سے رہ نہ جائے۔ ان حالات میں میری طرف سے یہ خبر کہ زرداری اس تعیناتی کے حق میں ہیں‘ یقینا جہاں جنرل باجوہ کے لیے اچھی خبر تھی‘ وہیں زرداری صاحب کی واپسی کا راستہ بھی ہموار ہو گیا۔
آج اگر دیکھا جائے تو کتنے لوگ حیران ہوں گے کہ ان کی نظروں کے سامنے ہی زرداری سب کو شکست دے کر دوبارہ صدر بن گئے ہیں۔ یاد آیا ہے ایک دن اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں اڈیالہ جیل کا ایک سپرنٹنڈنٹ ملا‘ اُن دنوں زرداری صاحب وہیں جیل میں تھے۔ میں نے ویسے ہی پوچھ لیا تو کہنے لگے کہ ہم جیل حکام کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب کی حالت بہت خراب ہے‘ کہیں لیاقت علی خان‘ بھٹو صاحب اور بینظیر بھٹو کی طرح زرداری بھی پنجاب کے ذمے نہ لگ جائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو لکھ بھیجا ہے کہ زرداری صاحب کو فوری طور پر کراچی شفٹ کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کچھ ہو تو وہ پنجاب کی جیل میں نہ ہوں۔ یہ 2019ء کی بات ہے۔ اس کے بعد زرداری صاحب جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع میں ووٹ کی ڈیل پر رہا ہوئے اور آج وہ صدر بن گئے ہیں جن کی صحت اتنی خراب تھی کہ جیل حکام دن گن رہے تھے۔ دن گننے سے یاد آیا‘ 2015ء میں ہم اسلام آباد سے چند ٹی وی اینکرز کراچی بلدیاتی انتخابات کی ٹرانسمیشن کے لیے گئے۔ وہاں چینل کے مالک کو اس وقت کے ڈی جی رینجرز نے کہا کہ میں ان اینکرز سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ اس مالک کے گھر آئے۔ ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں الطاف حسین کا پوچھاگیا تو کہنے لگے: ان کے پاس لندن سے پکی میڈیکل انفارمیشن ہے کہ ان کو جو بیماری ہے وہ ریورس نہیں ہو سکتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ مارچ تک اس بیماری سے لڑ سکتے ہیں اس کے بعد نہیں۔ آج اس واقعے کو نو برس گزر چکے ہیں۔ الطاف حسین پہلے سے زیادہ سمارٹ اور صحت مند ہو گئے ہیں۔ میں تو یہ سوچ کر ہی مزے لے رہا ہوں کہ اڈیالہ جیل حکام جو 2019ء میں زرداری صاحب کی صحت کی بری حالت دیکھ کر ڈرے ہوئے تھے‘ آج ہشاش بشاش زرداری کو پانچ برس بعد صدر کا حلف اٹھاتے دیکھ کر کیا حالت ہوئی ہوگی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved