مایوسی کیا ہے؟ جب آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس کا ہر عمل بے نتیجہ اور بے فیض ہے۔
مریض جاں بلب ہے۔ ہر گزرتے لمحے وہ موت کی آہٹ سنتا ہے۔ ہر تیماردار کے چہرے میں فرشتہ ٔ اجل کے خدوخال دیکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ زندگی کی بشارت دینے والے چھٹ گئے ہیں۔ مسیحا مسلسل حرکت میں ہے۔ ایک دوا اگر کارگر نہیں ہوتی تو وہ ہمت نہیں ہارتا۔ دوسری دوا لے آتا ہے۔ محبت کرنے والے دلاسا بھی دلاتے ہیں۔ غیبی مدد کا امکان بھی موجود ہے۔ احباب پاس کھڑے ہیں جن کے ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں اور نگاہیں آسمان کی طرف لگی ہیں۔ مریض مگر اپنے حال سے‘ دوسروں کی نسبت زیادہ باخبر ہے۔ اس کی سماعتیں جو آہٹیں سن رہی ہیں‘ دوسروں کے کان ان سے ناآشنا ہیں۔ اسے یقین ہو چلا ہے کہ اس کے وجود سے زندگی قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے‘ کسی لمحے ظرفِ جاں خالی ہونے والا ہے۔ کیا ایسے مریض کی چارہ سازی ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی صدا‘ نغمہ‘ پیغامِ حیات بن سکتا ہے؟
میں کچھ لکھنے کا ارادہ اور موضوع کا انتخاب کرتا ہوں تو سب سے پہلے ایک سوال ذہن کے دروازے پر دستک دیتا ہے: اس کا کوئی فائدہ ہے؟ مذہب میری دلچسپی کا موضوع ہے۔ اَن گنت سوالات ہیں جو اس کا حصار کیے ہوئے ہیں۔ بے شمار افکار ہیں جو اس کے تصور کو گہنا رہے ہیں۔ لاتعداد ہاتھ ہیں جو اس کے دامنِ عصمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خیر کی قوت پر اشرار کا سایہ ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ میں سوالات کے اس حصار کو کسی حد تک توڑ سکتا ہوں۔ میں ان افکار کا ابطال کر سکتا ہوں جو اس کی حیات بخش روشنی کو انسانوں تک پہنچانے میں مانع ہیں۔ میں ان ہاتھوں کو پکڑ سکتا ہوں جو اس کی عفت کے درپے ہیں۔ میں اپنی توانائی جمع کرتا اور قلم اُٹھاتا ہوں کہ دماغ کی دہلیز پر کھڑا وہی سوال آگے بڑھتا ہے اور نوکِ قلم سے لپٹ جاتا ہے: اس لکھے کا کوئی فائدہ ہے؟
میں سیاسیات کا بھی طالب علم ہوں۔ سیاست کا درخت تو جیسے سُوکھ گیا ہے۔ انتخابات کا پانی بھی اس کے لیے پیغامِ حیات نہیں بن سکا۔ سچ کہوں تو پیغامِ اجل ثابت ہوا ہے‘ جیسے اس میں زہر ملا ہوا تھا۔ ایک آکاس بیل ہے جو شجرِ سیاست کو ہرا نہیں ہونے دیتی۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ اس درخت کی زردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ پھر سے ہرا بھرا‘ سرسبز و شاداب ہو سکتا ہے۔ اگر جیتنے والے میری بات مان لیں۔ اگر ہارنے والے میری نصیحت پر کان دھریں۔ اگر اقتدار کے مرکز پر قابض میرے مشورے کو کچھ وزن دیں تو فضا بدل سکتی ہے۔ میں‘ مگر ان سب سے واقف ہو چکا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میری بات‘ میری نصیحت‘ میرا مشورہ‘ سب ان کے لیے بے معنی ہیں۔ اقتدار کی سیاست ایک خاص ڈگر پر چلتی ہے۔ اس کے مسافر کم ہی راستہ بدلتے ہیں۔ اہلِ اقتدار خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ یوں میری بات‘ میری نصیحت‘ میرا مشورہ‘ بطنِ مادر میں دم توڑ دیتا ہے۔ میرا احساس اس سوال میں ڈھل جاتا ہے کہ سیاست پر لکھنے کا کیا فائدہ؟
سماجی حرکیات پر غورکرتے ایک عمر گزر گئی۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ اس باب میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ سماج اگر زندہ ہو تو ریاست کی ناکامیاں قابلِ برداشت ہوتی ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کا اقتدار اور ریاست انگریزوں کے ہاتھوں برباد ہو گئے۔ مسلم معاشرت مگر زندہ رہی۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کے محافظ ختم ہو گئے۔ اپنی ہی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے۔ معاشرے کے محافظ مگر زندہ تھے۔ انہوں نے خود کو مرنے نہیں دیا۔ اسی معاشرے نے نوے برس بعد ایک ریاست کو جنم دیا۔ ریاست اور سیاست کی ناکامیوں اور نادانیوں کے باوجود‘ ہم اگر معاشرے کو زندہ کر سکیں تو اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بات مگر کون سمجھتا ہے؟ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس غلط فہمی کی قید میں ہیں کہ سیاست سے راستے نکلیں گے۔ وہ سماج کی قوت سے واقف ہیں نہ اس کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے کہ انہیں اس قید خانے سے رہائی مل سکتی ہے۔ اس لیے سماج کے موضوع پر لکھنے کا کیا فائدہ؟
میں اس داستان کو طول دے سکتا ہوں کہ کیسے زندگی کا ہر کام‘ یہ لگتا ہے کہ بے معنی ہے۔ ہرکوشش لاحاصل ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے راستے پر گامزن ہے‘ یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کیا ہے؟ میں اگر انجام کے بارے میں کچھ بتانا چاہوں تو کوئی سننے کو تیار نہیں۔ کئی عشروں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ پوری قوم 'سٹاک ہوم سینڈروم‘ میں مبتلا ہے۔ لوگ اپنے قاتلوں کی محبت میں گرفتار ہیں۔ سود و زیاں کے پیمانے بھی ان کے لیے اب اہم نہیں رہے۔ سچ پوچھئے تو سود کا مفہوم واضح ہے نہ زیاں کا۔
پھر کیا کِیا جائے؟ کیا کہنا لکھنا چھوڑ دیا جائے؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہیں؟ کوئی اس سے یہ گمان نہ کرے کہ میں یہ بات کسی زعم میں لکھ رہا ہوں۔ میں تو عقلِ عام کی بات کر رہا ہوں۔ اس مشاہدے سے شاید کوئی انکار نہ کرے کہ ملک میں کہیں سے‘ کسی حلقے سے خیر کی کوئی خبر ہے اور نہ کسی حل کی طرف مراجعت کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ میں انقلابی مزاج نہیں رکھتا اور انقلاب کو بربادی کی ایک صورت سمجھتا ہوں۔ میں ارتقا کے اصول کو فطری مانتا ہوں اور اسی کے مطابق سماج کی تشکیلِ نو کا قائل ہوں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ارتقا کے کوئی آثار بھی تو دکھائی نہیں دے رہے۔ جمود ہے اور تقلید ہے۔
1857ء میں ایسا نہیں تھا۔ سیاسی اقتدار چھن گیا تھا‘ مگر سماج زندہ تھا۔ حالات کے جبر نے دارالعلوم دیوبند کو جنم دیا۔ مسلم کالج علی گڑھ بنا۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم لیگ بن گئی۔ کہیں سرسیّد تھے‘ کہیں شبلی۔ اقبال تھے اور پھر ان کی آواز پہ لبیک کہنے والے محمد علی جناح۔ جمعیت علمائے ہند تھی اور جامعہ ملیہ بھی۔ ابوالکلام تھے اور ابوالاعلیٰ بھی۔ یہ سب زوال سے نکالنے کی کوشش میں تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق کچھ کرنا چاہتا تھا اور کر رہا تھا۔ اُمید کے بہت سے چراغ روشن تھے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ نتیجہ خیز ہو گا۔
آج دیوبند کے وارث کیا ہوئے؟ سرسیّد کے نام لیوا کہاں ہیں؟ دبستانِ شبلی تو ویران ہے۔ مسلم لیگ‘ لگتا ہے اپنی طبعی عمر پوری کر چکی۔ ابوالاعلیٰ کی جماعت کا نام ہے‘ ان کا کہیں نہیں۔ اس فضا میں مایوسی کے سوا کیا ہے؟ سرسید کے نام لیوا موجود ہی نہیں کہ ان کو مخاطب بنایا جائے۔ دیوبند والے سننے پر آمادہ نہیں۔ ابوالکلام و ابوالاعلیٰ قصہ پارینہ ہوئے۔ قائداعظم اور اقبال کے نام باقی ہیں کہ سرکار کی سرپرستی ہے۔ یہ سرپرستی مگر صرف تصویر کی حد تک ہے جسے ہر سرکاری دفتر میں لٹکا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی لکھے کا‘ کچھ کہے کا کوئی فائدہ ہے؟
نوجوانوں سے توقعات باندھی جا سکتی ہیں مگر ان پر ہیجان کا غلبہ ہے۔ کاش کوئی ان پر سماج کی اہمیت واضح کر سکے۔ علم اور اخلاق کے معنی سمجھا سکے۔ اس کے بعد ممکن ہے دس بیس سال میں مایوسی کے بادل چھٹ جائیں۔ میں مگر اس کے آثار نہیں دیکھتا۔ صرف پاکستان نہیں‘ عالمِ اسلام میں اگر کہیں اضطراب ہے تو وہ سیاسی ہے۔ غزہ میں جس المیے نے جنم لیا‘ اس کی بنیاد بھی ایک ایسا ہیجان تھا جسے عقل کی راہ نمائی میسر نہیں تھی۔ اس حکمتِ عملی کی کیا داد دی جائے کہ آج جنگ بندی فلسطینیوں کی منزل قرار پائی ہے اور نوحہ گری راہ نماؤں کا اثاثہ۔ اس پر کچھ لکھنے کا مگر کیا فائدہ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved