پاکستان سویلین منتخب حکومتوں کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ وفاقی سطح پر اور چاروں صوبوں میں نئی حکومتیں قائم کر دی گئی ہیں۔ انتخابات کے بعد کے نظام کے بڑے مستفیدین پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔ پاکستان میں طاقت کے نئے انتظامات کو ہیئت مقتدرہ کا اعتماد اور حمایت حاصل ہے‘ جس سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی نتائج اور وفاقی سطح پر اور پنجاب میں حکومتوں کی تشکیل پر اپوزیشن کے اعتراضات سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔ نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے شروعاتی اقدامات کا مقصد عام لوگوں کو عارضی معاشی ریلیف فراہم کرنا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب‘ سندھ اور کے پی کی صوبائی حکومتوں نے رمضان کے مہینے میں راشن کی مفت تقسیم کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومتیں ان پیکیجز میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں۔ یہ اقدامات عام لوگوں کو کچھ مالی راحت فراہم کریں گے جو فی الحال افراطِ زر سے سخت متاثر ہیں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ تاہم یہ ایک عارضی راحت ہے کیونکہ رمضان کے بعد کے دور میں غریب لوگوں کے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں ہو گی۔ پاکستان میں غربت اور پسماندگی میں پچھلے پانچ سال میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ بڑی تعداد میں خاندانوں کو اپنے لیے مطلوبہ کھانے کی اشیااور دیگر ضروری سامان خریدنا انتہائی مشکل لگتا ہے۔ انہوں نے اپنے لیے معیار کے ساتھ ساتھ خوراک اور بنیادی ضروریات کی اشیاکی مقدار میں بھی کمی کر دی ہے۔ اس سے لوگوں کی صحت پر منفی اثر پڑے گا‘ خاص طور پر 16 سال سے کم عمر کے بچے اور 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں پر۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 10 عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے جن پر ماضی میں عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے رمضان میں عام لوگوں کو کچھ معاشی ریلیف فراہم کرنے کی بھی توقع ہے۔مگر فوڈ آئٹمز کی مفت تقسیم یا حکومت کے زیر اہتمام یوٹیلیٹی سٹورز پر کنٹرول شدہ قیمت پر کچھ سامان کی فروخت عام لوگوں کی معاشی حالتِ زار کا پائیدار حل پیش نہیں کرتی۔ قیمتوں میں اضافے‘ غربت اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید جامع اور مستقل انتظامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو عام لوگوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کم از کم تین بڑے اقدامات کرنے چاہئیں۔
سب سے پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں۔ شہباز شریف کی سابقہ وفاقی حکومت (اپریل 2022ء سے اگست 2023ء) میں 80 سے زائد افراد کی کابینہ تھی جس میں وزرا‘ وزرائے مملکت‘ مشیران اور خصوصی معاونین شامل تھے۔ اب کابینہ کے سائز کو کم کرکے معقول بنایا جانا چاہئے۔ اسی طرح سرکاری کاموں کے بیوروکریٹک انتظام پر سرکاری اخراجات کو کم کیا جانا چاہئے۔ ایندھن کی زیادہ کھپت والی بڑی گاڑیوں کو پولیس اور بیورو کریسی کے عہدیداروں کو نہیں دیا جانا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے وزرااور سینئر عہدیداروں کے غیر ملکی دوروں کو محدود کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں‘ وفاقی حکومت کو ان ریاستی کاروباری اداروں کو تیزی سے فروخت کرنا چاہئے جو پچھلے کئی برس سے بھاری مالی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
دوسرا: زراعت‘ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ‘ کو حکومت کی غفلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی سالانہ نمو سست ہوگئی ہے اور پاکستان دس سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مقدار میں کھانے کی اشیادرآمد کرتا ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے زراعت پر مطلوبہ توجہ دی جاتی ہے تو پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے گی اور زراعت‘ خاص طور پر دیہی علاقوں میں‘ لوگوں کو زیادہ ملازمتیں فراہم کرے گی۔ بیج‘ کھاد‘ کیڑے مار ادویات اور بجلی اور ڈیزل جیسی زرعی اشیا کو مناسب قیمتوں پر اور اچھے معیار میں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
تیسرا: حکومت کو پاکستان میں صنعت کا انتظام کرنے والے افراد اور گروہوں کی شکایات کو دور کرنا چاہئے۔ وہ پیچیدہ افسر شاہی طریقہ کار‘ بجلی اور گیس جیسی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور بدعنوانی کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ یہ سب نہ صرف صنعتی پیداوار کو کم کرتا ہے بلکہ یہ پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کی نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی بھی کرتا ہے۔ اگر صنعت ترقی کرتی ہے تو یہ ہنر مند اور غیر ہنر مند ملازمتیں فراہم کرتی ہے اور ملک میں بے روزگاری کو کم کرتی ہے ۔روایتی طور پر پاکستانی حکومتیں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر محدود وسائل خرچ کرتی آئی ہیں۔ یہ دونوں شعبے انسانی وسائل کی ترقی کی کلید ہیں اور آبادی کو ایک صحت مند‘ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت میں تبدیل کرتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی حکومتوں نے پچھلے 76 سال میں ان شعبوں کو نظرانداز کیا ہے۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم یا دانش سکولوں کا قیام قابلِ اعتماد حل پیش نہیں کرتا ہے۔ تمام ریاستی پرائمری و ہائی سکولوں اور کالجوں کو اپنا ماحول بہتر بنانے اور کیمپس میں طلبہ اور اساتذہ کو زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے فنڈز دیے جانے چاہئیں۔ اس طرح کے اقدامات غیر امتیازی بنیادوں پر کیے جانے چاہئیں تاکہ ریاستی سکولوں اور کالجوں کا معیار بہتر ہو اور وہ اچھے معیار کے طلبہ پیدا کر سکیں جو یونیورسٹی کی سطح پر اور بعد میں عملی زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ رہنما پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مسابقتی سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں؛ تاہم وزیر اعظم حزبِ اختلاف کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوئی مثبت اشارہ کرنے کو تیار نہیں۔ اعتماد سازی کے اشارے کے طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو 2023 ء میں گرفتار تمام سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کرنا چاہئے۔ اگر پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا تو وہ انتخابی نتائج اور حکومت کی انتخابات کے بعد کی پالیسیوں کے معاملے پر حکومت سے مقابلہ کرتی رہے گی۔ اگر حکمران اتحاد اور حزبِ اختلاف کے درمیان کوئی افہام و تفہیم نہیں ہوتی تو وفاقی حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کر اور عام لوگوں کے معاشی مسائل کو حل کرکے اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں اقسام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو پالیسی سازی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے مزید وسائل بھی مختص کرنے چاہئیں۔ فوڈ آئٹمز اور ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے روزگار کے امکانات کو بہتر بنانے پر کام کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔ اگر حکومت یہ سب کچھ کر سکتی ہے تو وہ عام لوگوں کی خیر سگالی اور ان کی حمایت حاصل کرے گی اور اس کی سیاسی بنیاد کو تقویت ملے گی۔ اس سے حزبِ اختلاف کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر‘ حکومت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت معاشی‘ معاشرتی اور انتظامی شعبوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے تو سیاست میں ایسی تبدیلی ممکن ہے۔ حکومت اپوزیشن کے خلاف جابرانہ ریاستی طاقت اور یکطرفہ پروپیگنڈا استعمال کرکے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ اس سے سیاسی تصادم میں اضافہ ہی ہوگا۔ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کر اور عام لوگوں کے معاشی مسائل پر زیادہ توجہ دے کر ہی اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved