نئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں کہ دوست ممالک نے واضح کر دیا ہے کہ اب وہ پاکستان کو مدد دینے کے بجائے یہاں سرمایہ کاری کریں گے۔ مطلب ہم جوہر دفعہ ان دوست ممالک کے پاس دوڑے جاتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ ہونے والے ہیں اور ہمیں چند ارب ڈالرز دیں‘ وہ اب نہیں ملیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں‘ آپ کو مفت میں بہت کچھ کھلا پلا دیا‘ اب مزید نہیں کھلا سکتے۔
پہلی بات تو یہ کہ امریکہ کے علاوہ کسی نے پاکستان کو مفت کا پیسہ نہیں دیا۔ امریکی اچھے ہیں یا برے‘ انہوں نے پاکستان کو قرض کے بجائے ہمیشہ گرانٹ دی۔ ایک امریکی کے مطابق: امریکہ پاکستان کو اب تک 82ارب ڈالرز امداد دے چکا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فگر غلط ہو یا بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہو لیکن کم از کم یہ تو ریکارڈ پر ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے پرویز مشرف‘ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی تیسری حکومت تک 32ارب ڈالرز کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر پاکستان کو جاری کیے۔ کیری لوگر امداد اس کے علاوہ تھی جو چھ سے آٹھ ارب ڈالرز تھی‘ جو براہِ راست پاکستانی عوام کی ترقی کیلئے دی گئی تھی۔ باقی امداد دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے دی جا رہی تھی۔ پاکستان اپنا بل امریکہ کو دیتا تھا اور وہ اس کی ادائیگی کر دیتا تھا۔ اگرچہ آڈٹ بھی ہوتا تھا اور امریکہ الزام بھی لگاتا تھا کہ بعض اخراجات کو دو دو‘ تین تین دفعہ بل میں شامل کر دیا جاتا تھا‘ لیکن امریکہ پھر بھی پیسہ دیتا رہا۔ آخر امریکہ نے وہ امداد بند کر دی کیونکہ ہم ہر وقت کہتے تھے کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب وہ سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالرز بند ہوئے تو سوال پیدا ہوا کہ اب ڈالرز کہاں سے لائے جائیں تاکہ بجٹ خسارے کو پورا کیا جا سکے کیونکہ پاکستان کی برآمدات کم ہو رہی تھیں اور درآمدات بڑھ رہی تھیں۔ 2018ء میں درآمدات 55سے 60 ارب ڈالرز تھیں لیکن عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی یہ فگر 80ارب ڈالرز تک پہنچ گیا اور برآمدات اور ترسیلاتِ زر ملا کر بھی محض 60ارب ڈالرز تک اکٹھے ہو رہے تھے۔ یوں یہ 20ارب ڈالرز کا گیپ اتنا بڑا تھا کہ ورلڈ بینک یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے پروجیکٹ لون لے کر بھی پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ 2018ء سے پہلے یہی ہو رہا تھا جب تقریباً 50ارب ڈالرز تک برآمدات اور ترسیلاتِ زر سے زرمبادلہ آرہا تھا اور پانچ‘ چھ ارب ڈالرز کا گیپ پروجیکٹ لون سے پورا ہو رہا تھا۔ لیکن جب 2018ء کے بعد برآمدات 80 ارب ڈالرز تک پہنچیں اور تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ہم چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات کے پاس دوڑے گئے اور ان سے کیش مانگا۔ اگرچہ چین ماضی میں بھی پانچ سو ملین ڈالرز تک سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھواتا آیا تھا تاکہ پاکستان بالکل بیٹھ نہ جائے۔ اب کی دفعہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی کیش مانگا گیا۔ انہوں نے سیٹ بینک کو چند ارب ڈالرز دیے جن پر اُن دونوں ملکوں نے تین سے چار فیصد سود مانگا جو انہیں دے دیا گیا۔ اس طرح چین نے بھی کچھ ارب ڈالرز ہمارے پاس رکھوا دیے اور اب ان پر بھی سود لیا جا رہا ہے۔ یوں دوست ممالک اب پاکستان کو سود پر قرضہ دیتے ہیں تاکہ ہمارا کام چلتا رہے۔ اب ہم ان قرضوں پر ڈالروں میں سود ادا کر رہے ہیں اور ہر سال اسے رول اوور کرا لیتے ہیں۔ چین نے سی پیک کے نام پر پاکستان میں سرمایہ کاری کی‘ اس کا الگ سے قرضہ ہے۔ چینی کبھی پاکستان کو رعایتی قرضے دیتے تھے لیکن پھر انہیں لگا کہ اس قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ وہ رعایتی قرضے دیں یا مہنگے‘ لہٰذا انہوں نے یہ رعایتی قرضے ختم کرکے کمرشل قرضے دینا شروع کر دیے جو اب تک جاری ہیں اور ہمارے قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کو رعایتی یا مفت تیل فراہم کرتا آیا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت کیش پر تیل خریدتا ہے اور سعودی عرب کا بڑا گاہک ہے۔ عمران خان تو اپنے دور میں سعودی عرب سے ناراض ہو گئے تھے کہ وہ بھارت میں کیوں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی بھارت میں سرمایہ کاری کی۔ عمران خان حکومت نے ناراض ہو کر سعودی عرب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹی وی پر کہا کہ ہم ایران‘ ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل الگ سے مسلم ممالک کی ایک تنظیم بنائیں گے۔ اس پر سعودی عرب کے پاکستان میں ایک سابق سفیر نے انگریزی اخبار دی عرب نیوز میں کالم لکھا اور خوب کلاس لی کہ اگر آپ کو بھارت سے پرابلم ہے تو ان کے ساتھ سفارتی تعلقات کیوں رکھے ہیں؟ اگر آج سعودی عرب بھارت میں سرمایہ کاری کرے گا تو کل کو ان کا بھارت میں موجود اثر و رسوخ پاکستان ہی کے کام آئے گا۔ ساتھ میں یہ بھی یاد دلایا کہ بھارت سعودی عرب سے ڈالروں میں تیل خریدتا ہے جس سے سعودی عرب چند ارب ڈالرز نکال کر پاکستان کو بھی دیتا ہے کیونکہ ہم لوگ تو مفت کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس سفیر نے تو یہ بھی طعنہ دیا کہ جب ہم نے یمن جنگ کیلئے پاکستان سے امداد مانگی تھی تو پاکستان نے انکار کر دیا تھا۔ تو پھر سعودیہ کیوں آپ کی مدد کرے۔ یوں سعودی عرب‘ چین اور دیگر دوست ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قوم کو مفت میں بہت ڈالرز کھلا دیے‘ یہ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا پہلے تو انہوں نے مفت ڈالرز بند کیے اور کہا کہ اب ڈالرز درکار ہیں تو سود ادا کرنا پڑے گا۔ ہم اس پر راضی ہو گئے۔ اب وہ ممالک کہہ رہے ہیں کہ یہ سہولت بھی میسر نہیں ہو گی۔ اب آپ ہمارے ساتھ کاروبار کریں۔ ہم آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔ آپ اپنے وہ اثاثے ہمیں بیچ دیں جو نقصان میں ہیں یا جو آپ چلانے کی سکت نہیں رکھتے۔ سعودی عرب تو بڑے عرصے سے کہہ رہا ہے کہ دس ارب ڈالرز کی آئل ریفائنری لگا دیتے ہیں۔ قطر ہمارے ایئرپورٹس چاہتا ہے۔ چینی کمپنیاں کراچی الیکٹرک کمپنی خریدنا چاہتی تھیں۔ اس طرح اور بھی اثاثوں میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ سعودی عرب اور قطر تک ہم سے بہتر ادارے چلا سکتے ہیں۔ ان کے لوگ ہم سے بہتر پیسہ کمانا جانتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ سعودی عرب برسوں سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں آئل ریفائنری لگانی ہے۔ برسوں گزر گئے‘ آج تک اس پر کام نہیں ہوا۔ وجہ ہے ہماری ہڈ حرامی اور مفت کا کھانا پینا۔ کام کون کرے‘ اتنی محنت کون کرے جب مفت کے ڈالرز مل رہے ہوں؟ مفت کے ڈالرز امریکہ دے رہا تھا تو ہمیں اعتراض تھا کہ وہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔ امریکی افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہمیں ڈالرز دے رہے تھے تو بھی ہم ناراض اور تنگ تھے کہ ہمارے طالبان بھائیوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ اب وہی طالبان ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں‘ یعنی جن طالبان کی خاطر ڈالروں کی قربانی دی وہ بھی ہم سے خفا ہیں۔ ہم خود ڈالرز نہیں کما سکتے۔ ہمیں مفت کی عادت پڑ چکی ہے۔ وہی سرائیکی والی مثال کہ ''کم جوان دی موت اے‘‘۔
ہماری اب وہ حالت ہو چکی ہے کہ ایک سست انسان بیری کے درخت کے نیچے لیٹا تھا۔ اوپر سے بیر گرا تو لیٹا لیٹا انتظار کرنے لگا کہ کوئی اللہ کا بندہ وہاں سے گزرے تو اسے اٹھا کر دیدے۔ کافی دیر بعد وہاں سے کوئی شخص گزرا تو اسے کہا کہ بھیا! وہ بیر تو ذرا اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو۔ اس بندے نے ترس کھا کر وہ بیر اٹھا کر اس کے منہ میں ڈالا اور چل پڑا۔ پیچھے سے اس سست آدمی نے آواز دی کہ اس بیر کی گٹھلی تمہارا باپ نکالے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved