تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     17-03-2024

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟

پاکستان کے انتہائی ممتاز اور سنجیدہ دانشور وجاہت مسعود یہ خبر لائے ہیں کہ 12مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان جمہوریت پسند نہیں تھے‘ ان کی کم نگاہی نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پرکم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ مزید فرمایا گیا: لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کے لیے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ محمد علی جناحؒ رہنما تھے‘ لیاقت علی نے بیڑہ ڈبو دیا۔ لیاقت علی اور شبیر عثمانی کی عنایت کوئی چالیس برس ہمارے گلے میں حائل رہی‘ پھر جالندھر کے میاں طفیل محمد (امیر جماعت اسلامی) اور ضیاء الحق کے گٹھ جوڑ سے ہمارے دستور کے نافذ و متن کے درجے کو پہنچی‘ ہمیں اپنی مہلتِ نفس میں اس صبح کی اُمید نہیں جب دستورِ پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔
یہ تحریر پڑھ کر سر چکرا گیا ہے۔ وجاہت مسعود انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ پاکستان میں جمہوری اقدار کی بحالی اور بالادستی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ تاریخ پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔ احتیاط اور آداب کے ساتھ بات کرنا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ کڑوی باتوں کو بھی میٹھے الفاظ میں لپیٹنے کا فن جانتے ہیں۔ اُن سے اختلاف کرنے والے بھی اُن کو احترام سے دیکھتے اور وہ بھی اختلاف کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ دِل آزاری اُن کا شیوہ نہیں۔ وہ ہمارے اُن لکھاریوں میں سے ہیں جن سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا جاتا ہے‘ پھر کیا ہوا کہ ''قراردادِ مقاصد ‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے وہ بے قابو ہو گئے۔ اکابرین کے شخصی احترام کے بھی قائل نہ رہے۔
قراردادِ مقاصد قرآن کا حصہ ہے نہ اس کے الفاظ الہامی ہیں۔ یہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے اس کے بارے میں سوچا اور اسے الفاظ کا قالب عطا کر دیا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسے منظور کیا اور آج تک پاکستان کی ہر اسمبلی اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی آ رہی ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 1954ء میں جو پہلا دستوری مسودہ منظور کیا‘ یہ اس کا حصہ تھی۔ دوسری دستور ساز اسمبلی 1956ء میں ملک کو اس کا پہلا دستور دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ اس دستاویز میں بھی شامل تھی۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے دستور منسوخ کر ڈالا۔ 1962ء میں قوم کو ایک نیا دستور دینے کی ''گستاخی‘‘ کی تو اس میں بھی یہ قرارداد شامل کرنا پڑی۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر قیادت ''نئے پاکستان‘‘ کی دستور ساز اسمبلی نے جو دستور اتفاقِ رائے سے منظور کیا‘ اس میں بھی قراردادِ مقاصد جوں کی توں رہی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے خواہ وہ ''سیکولر‘‘ تھیں یا مذہبی‘ قدامت پرست تھیں یا ترقی پسند‘ علاقائی تھیں یا قومی‘ اس قرارداد کو تسلیم کیا اور اسے دستور کا حصہ بنائے رکھنے کی تائید کی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران چیف جسٹس حمود الرحمن کے ایک فیصلے کی روشنی میں اسے آئین کا قابلِ عمل حصہ بنایا گیا تو اس پر بھی کسی حلقے نے اعتراض نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف نے دستور کو معطل کرنے کی جسارت کی لیکن قراردادِ مقاصد دستور کا موثر حصہ رہی۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر قیادت تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے آئین میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کر ڈالیں‘ لیکن قراردادِ مقاصد کے کسی لفظ یا حرف تو کیا شوشے کو تبدیل کرنے کی کسی کو جرأت ہوئی نہ کسی نے اس بارے میں کوئی مطالبہ کیا۔اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ قراردادِ مقاصد کسی ایک یا دو افراد کی اختراع نہیں تھی‘ یہ شبیر عثمانی یا لیاقت علی خان کی سازش تھی‘ نہ میاں طفیل اور ضیاء الحق جالندھری کو اس کی تخلیق کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ شرف تو پاکستان بنانے والوں کا تھا کہ اُنہوں نے مملکت کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا سامان کر دیا۔ یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کس لیے بنایا گیا تھا اور اسے کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے فاضل دوست ان آداب کو بھی فراموش کر بیٹھے جن پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے بڑھ کر تحریک پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے دوران مسلسل کئی برس تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے‘ یہ شرف اُن سے چھینا نہیں جا سکتا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو زمانہ شیخ الاسلام کے نام سے جانتا ہے‘ اُنہی نے مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی تائید و حمایت کے لیے جمعیت العلمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ اُنہیں قائداعظمؒ ہی کے حکم کے تحت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرایا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے اعلیٰ ترین قائدین سے لے کر ادنیٰ کارکن تک اُن کا نام احترام سے لیتے اور اس سے روحانی تقویت حاصل کرتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو ایوب خان اور سکندر مرزا کی تقرری کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا کِیا دھرا ان کے کھاتے میں ڈالنا انتہائی بے تکی بات ہے۔ اگر اس طرح کی منطق پر تاریخ کی عمارت استوار کی جانے لگی تو پھر کسی بھی شخص کی بداعمالی کا ذمہ دار اس کے والد‘ استاد‘ افسر یا آجر کو قرار دے کر اسے بآسانی بری الزمہ قرار دیا جا سکے گا۔
جس قراردادِ مقاصد پر ہمارے عزیز دوست چراغ پا ہوئے ہیں‘ وہ اسے اچھی طرح پڑھ کر تو دیکھیں۔ اس میں بنیادی بات یہی کہی گئی ہے کہ مملکت کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامیانِ پاکستان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے گا‘ ان میں سے کون سی بات ہے جو گراں گزری ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر فرقہ واریت پھیلائی گئی‘ یہ بھی درست ہے کہ فقہی جھگڑوں میں قوم کو اُلجھایا گیا‘ یہ بھی صحیح ہے کہ اسلام کے اعلیٰ اور ارفع اصولوں کو اجتماعی زندگی میں اپنایا نہیں جا سکا‘ لیکن یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کا نظام عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ ان سے یہ حق بار بار چھینا گیا۔ ہمارا المیہ قراردادِ مقاصد کی منظوری نہیں‘ اس کی نامنظوری ہے۔ ہم نے اسے کتابِ آئین کا حصہ تو بنا ڈالا لیکن عملاً اس کو نامنظور کر دیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کرنے میں لگے رہے۔
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ اگر مذہب محض نجی معاملہ ہوتا‘ اسے اجتماعی زندگی سے کوئی سروکار نہ رکھنا ہوتا تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ آل انڈیا کانگرس کا مؤقف یہی تھا۔ قائداعظمؒ اور ان کے رفقاء نے اس نعرے کے ساتھ ہی تو الگ مملکت حاصل کی تھی کہ انہیں اپنی اجتماعی زندگی کو بھی اسلامی اصولوں پر استوار کرنا تھا۔ اگر ہم اپنے نظمِ اجتماعی کی ترتیب اپنے آدرشوں کے مطابق نہیں کر سکے تو آدرشوں سے دستبرداری اختیار کرنے کو تو شیوۂ مردانگی نہیں کہا جا سکتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved