رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر یورپ کی ایک گروسری مارکیٹ کی تصویر بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں کیوی کے ایک سٹال پر ماہِ رمضان کی آمد کے پیش نظر نرخ کافی کم کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رمضان المبارک کی مناسبت سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر خصوصی رعایت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ ملکِ عزیز میں اس بابرکت مہینے کے شروع ہونے سے قبل ہی مہنگائی مافیا بے لگام ہو جاتا ہے۔ اس وقت ملک کے تمام بڑے شہروں میں پھلوں‘ سبزیوں‘ مرغی کے گوشت‘ آٹے‘ چینی اور دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمت کو پَر لگ گئے ہیں۔ گراں فروشوں کی چاندی ہے۔ دکانداروں کی من مانیوں نے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی کارکردگی کو بھی مات دیدی ہے۔ کاروباری طبقہ ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کو بے ایمانی تصور نہیں کرتا بلکہ اسے کاروباری ضرورت کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم ہر برس وفاقی اور صوبائی حکومتیں رمضان المبارک میں شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے خصوصی اقدامات کرتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مستحقین و کم آمدنی والے طبقے کو رمضان ریلیف پیکیج سمیت دیگر مراعات دی جاتی ہیں جس کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں۔
حالیہ عام انتخابات کے بعد ملک میں نئی مخلوط حکومت برسر اقتدار آچکی ہے اور شہباز شریف نے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ اگرچہ پی ڈی ایم کا دورِ حکومت مہنگائی کے حوالے سے بدترین ثابت ہوا۔ اُس دور میں بجلی‘ پٹرول اور اشیائے خورونوش کے نرخوں میں ہونیوالے ہوشربا اضافے نے ملک کے ایک بڑے طبقے کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل بنا دیا تھا۔ امید ہے کہ نئی اتحادی حکومت عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کو ساڑھے سات ارب سے بڑھا کر ساڑھے بارہ ارب کر دیا ہے۔ اس پیکیج کے تحت تین کروڑ 96لاکھ افراد کو رمضان المبارک کے دوران سستے داموں کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے 1200موبائل پوائنٹس اور 300مستقل ریلیف پیکیج سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ آٹے کی تقسیم کی مسلسل نگرانی کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے چلنے والا ڈیش بورڈ تیار کیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحق افراد کو بازار سے 30فیصد کم قیمت پر اشیائے خورونوش فراہم کی جا رہی ہیں۔ آٹے پر فی کلو 77روپے اورگھی پر 100روپے فی کلو سبسڈی دی گئی ہے۔ یقینا یہ ایک احسن اقدام ہے اور اس سے غریب شہریوں کو قدرے ریلیف ملے گا۔ سامان کی تقسیم کو شفاف بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ بھی اچھے نتائج دے گا۔
نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا 'نگہبان‘ کے نام سے 30ارب روپے کا پیکیج صوبے کے 64لاکھ سے زائد خاندانوں کو گھر کی دہلیز پر راشن پہنچائے گا۔ علاوہ ازیں صوبے بھر میں سستے رمضان بازار بھی لگائے گئے ہیں۔ پرائس کنٹرو ل سسٹم کو بھی موثر انداز سے لاگوکرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے بھی نے ساڑھے 22 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کی 60فیصد آبادی کو رمضان میں پانچ ہزار روپے نقد دینے کی منظوری بھی دی تھی جو بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کے ذریعے دیے جائیں گے۔ اس ڈیٹا کے مطابق ماہانہ 32ہزار روپے کمانے والے 35لاکھ خاندان صوبے کی آبادی کا 60فیصد بنتے ہیں اور وہ اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے احساس پروگرام کے تحت رمضان میں مستحق افراد کو نقد 10ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان میں وفاقی حکومت کی طرف سے بی آئی ایس پی کے تحت صوبے میں 2000روپے اضافی دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اگر ان ریلیف پیکیجز پر من و عن عمل ہوتا ہے تو عوام کو کسی حد تک وقتی ریلیف ضرور ملے گا لیکن اصل مسئلہ اس ریلیف کو حقداروں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ تقریباً ہر سال ان ریلیف پیکیجز میں کرپشن کے کیسز منظر عام پر آتے ہیں اور مستحقین و ضرورت مند افراد رمضان ریلیف پیکیج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جہاں تک رمضان میں سستے بازاروں کا تعلق ہے تو یہ بھی اکثریتی عوام کیلئے سود مند نہیں ہیں۔ ہاں البتہ ان بازاروں تک قریبی رہائشیوں کی رسائی ضرور ہوتی ہے لیکن وہ بھی ناقص اشیا کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کا زیادہ تر وقت ان بازاروں میں معیار کو یقینی بنانے کے بجائے وزرا اور دیگر حکومتی شخصیات کی طرف سے ان رمضان بازاروں کے دوروں پر انہیں پروٹوکول دینے پر صرف ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً نہ تو عوام کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے‘ نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی آتی ہے۔ البتہ وزرا اور ضلعی انتظامیہ کو اپنی برائے نام کارکردگی دکھانے کا موقع ضرور میسر آجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ رمضان ریلیف پیکیج لانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ آخر رمضان میں مہنگائی کیوں بڑھ جاتی ہے؟ انتظامیہ ذخیرہ اندوز مافیا کو کھلی چھٹی دیکر خود غائب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اربوں روپوں کے ریلیف پیکیجز کا بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو پاتا۔ ماڈل بازار حکومتوں کا قابلِ تعریف اقدام ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ ان بازاروں میں معیاری اشیا کی سرکاری نرخوں پر فروخت یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے تاکہ ملک کے سب سے بڑے سفید پوش طبقے کو بھی کوئی ریلیف حاصل ہو سکے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ مہنگائی مافیا کی سرپرستی کرنے والے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کا نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے تمام مافیاز کے خلاف کسی بھی قسم کی رعایت کے بغیر کارروائی کرنا ہوگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صوبے کے عوام کو ریلیف پہنچانے اور عوامی فلاح و بہبودکے لیے کافی متحرک ہیں۔ لاہور میں قائم ماڈل بازاروں کا دورہ اچھی بات ہے۔ لاہور میں گراں فروشوں کے خلاف مہم بھی جاری ہے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ذخیرہ اندوزی‘ منافع خوری اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے ساتھ بھی سختی سے نمٹیں گی۔ حالیہ معاشی مشکلات کے دوران آنے والا رمضان اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام نے اپنی امیدیں نومنتخب حکمرانوں سے وابستہ کررکھی ہیں تو دوسری طرف نئی حکومت کیلئے بڑا مسئلہ اپریل میں آئی ایم ایف قسط کا حصول اور اس کیلئے آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر ملک میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ ماضی میں ہمارے یہی حکمران آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر مراعات یافتہ طبقات اور اشرافیہ کی آمدن کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے حکومتی آمدن بڑھانے کیلئے سارا بوجھ پہلے سے پسے ہوئے عوام پر ڈالتے رہے ہیں‘ جو ضرورت کی ہر چیز کی خریداری پر بھاری ٹیکس کی ادائیگیوں پر مجبور ہیں۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات نے ابھی سے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ حالانکہ آئی ایم ایف کے ذمہ داران بتا چکے ہیں کہ وہ پاکستانی حکومت سے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جس میں بہت سے ایسے منافع بخش کاروبار اور ذرائع شامل ہیں جو ابھی تک ٹیکس نیٹ میں نہیں لائے جا سکے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے حکمران پہلے سے ٹیکس کی ادائیگی کرنے والوں پر مزید ٹیکس لگانے کا آسان راستہ اختیار کرتے ہیں جس کا لازمی اثر عام صارف پر پڑتا ہے۔ ان حالات میں سستے ماڈل بازاروں اور رمضان ریلیف پیکیج کی کامیابی اس میں مضمر ہے کہ جب حکومت رمضان المبارک میں عوام کو ناجائز منافع خوروں سے تحفظ فراہم کرنے اور مہنگائی مافیا کے خلاف کارروائی کے امتحان پر پورا اترے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved