بہار تو ہر سال انہی مہینوں میں ہماری سرزمین پر جلوہ گر ہوتی ہے مگر ہم سیاسی اور سماجی بکھیڑوں میں الجھے لوگ ادھر دھیان کب دے پاتے ہیں۔ سندھ کے زیریں علاقوں سے شروع ہونے والا سلسلہ کم و بیش تین ماہ میں گلگت بلتستان تک کی وادیوں کو نئی کلیوں‘ چمکتے ہوئے پتوں اور رنگ برنگے پھولوں سے سجا دیتا ہے۔ ان کی خوشبو خطے کو اپنے دامن میں بسا لیتی ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں اس کی ابتدا سرسوں کے زرد پھولوں کی عطر بھری مہک سے ہوتی ہے۔ ہمارے آبائی علاقے کے بارانی حصوں میں زیادہ تر سرسوں کی نئی اقسام کاشت ہوتی ہیں کہ ان کا دورانیہ بھی مختصر ہے اور پانی کی ضرورت نسبت کم پڑتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نہری علاقوں کی دائمی آباد زمینوں پر اگائی جانے والی فصل سے کھارے زمینی پانی سے سیراب کی جانے والی فصل کی رنگینی زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کئی مرتبہ فروری میں سرسوں کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے احساس ہوا کہ اس روایتی فصل پر اتنی توجہ صرف کسان ہی دیتا ہے کہ وہ اس کے پتے نکلتے ہی ساگ بنا کر کھاتا ہے‘ پھر کہیں کہیں سے پودے کاٹ کر مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اب کئی کسان اس فصل کو تجارتی بنیادوں پر کاشت کرتے ہیں۔ دیہات میں تیل نکالنے کی جدید مشینیں نصب کی جا چکی ہیں۔ پرانے دنوں میں کولہو جو بیل جوت کر چلائے جاتے تھے‘ اب کہیں نظر نہیں آتے۔ ایسی زبردست دیسی ٹیکنالوجی تھی کہ تیل بھی سرسوں سے تیار ہوتا اور کھل بھی مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتی۔ کچھ کاشت کار سرسوں کے بیجوں ہی سے خوردنی تیل مشینوں سے نکلوا کر گھر میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا شوق کھانے سے زیادہ اوائلِ بہار میں سرسوں کے کھیتوں میں کچھ دیر رُک کر اس کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے تک ہے۔ ویسے تازہ سرسوں کے تیل میں تلے پکوڑے اور مچھلی بھی نصیب ہو جائے تو کیا بات ہے۔ شہرکے کھانوں کا رنگ اور ذائقہ ہمیں کبھی متاثر نہیں کر پایا۔
سرسوں کی فصل کی رنگینی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ رنگ برنگی تتلیوں‘ بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کی یلغار ایسی جیسے عوامی میلے میں زرق برق کپڑوں میں ملبوس لوگوں کا ہجوم۔ میں تو کچھ دیر کے لیے ایسے کھیتوں کے پاس رُک جاتا ہوں۔ سناٹے میں مکھیوں کی بھن بھناہٹ اوراپنا رزق تلاش کرنے والے شکاری پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے علاوہ اپنے اندر کی آواز دعوتِ فکر دیتی ہے۔ اس دھرتی کے باسیوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے سرسوں کا ساگ نہ چکھا ہو۔ ہم تو پرانے وقتوں کے لوگ ہیں‘ سادہ دیہاتی‘ روایتی کھانوں سے رغبت ہے۔ بزرگ تو اب رخصت ہو چکے۔ وہ اپنے وقتوں میں سرسوں کی فصل کو جب پھول لگتے تو اس کے پودوں سے اچار تیار کرتے تھے۔ شلجم‘ گاجر اور مولی کا گھروں پر تیار کردہ اچار ہمیں کبھی دوبارہ نصیب نہ ہوا۔ شوق اور ضرورت کے پیشِ نظر ہر سال زمین کے ایک بڑے ٹکرے پہ سرسوں کاشت کراتا ہوں۔ کچھ سالوں سے موقع مل رہا ہے کہ کچھ وقت اس کے اندر گزار کر آئوں‘ لیکن ہمارے عزیز کی آواز دور سے آنا شروع ہو جاتی ہے کہ نکلیں! دیر ہو رہی ہے۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ جہاں ہمیں دیر کرنی چاہیے‘ وہاں ہم کیوں نہیں رکے رہتے اور جہاں سے جلدی سے گزر جانا چاہیے‘ وہاں کیوں دیر کر دیتے ہیں۔ شاید مادیت پرستی نے زندگی کو صرف ظاہری فائدے اور نقصان کے پیمانوں تک محدود کر دیا ہے۔
سرسوں کی کئی اقسام اگائی جا رہی ہیں۔ بچپن میں ہم نے ہر ایک فصل کے روایتی بیج ہی دیکھے تھے جو صدیوں سے نسل در نسل کاشت کی جاتی تھی۔ کاش ہم گندم کا وہی دیسی بیج بچا پاتے جس کی روٹی کا ذائقہ آج بھی یاد کریں تو رومانوی خوشبو کی طرح پھیل جاتا ہے۔ سرسوں کا بھی روایتی بیج اب ناپید ہو چکا۔ مجھے یاد ہے کہ فصل کا قد لمبا اور پھولوں کا رنگ ہلکا زرد ہوتا تھا۔ اب جو اقسام کاشت کی جا رہی ہیں‘ ان میں میٹھی اور گوبھی سرسوں سرفہرست ہیں۔ یہ رایا اور کنولا کے نام سے مشہور ہیں۔ گوبھی سرسوں ہمارے بارانی علاقوں میں زیادہ کامیاب ہے۔ اس کا قد دیگر قسموں کے مقابلے میں چھوٹا مگر پیداوار کے لحاظ سے زیادہ بار آور ہے۔ میری دلچسپی تو صحرائی وسعتوں کے درمیان ان پیلے پھولوں کی بہار سے رہی ہے کہ فطرت کے نظاروں میں ایسے خوبصورت رنگ‘ پنکھڑیوں کی تازگی‘ خوشبو اور نرم ہوا کے جھونکوں میں مست ملنگوں کی طرح ایک طرف کو ہلنا اور پھر جھومتے ہوئے اپنی جگہ پر واپس‘ ہوا کے تھپیڑے کے ساتھ ہلکی سی جنبش کا یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کھیتوں میں تو سورج نکلنے سے پہلے افق سے ابلتے رنگوں کے چشموں کے درمیان سورج کی زرد ٹکی کی لو میں جو لطف آتا ہے‘ دنیا کے سب نظارے اس کے سامنے ہیچ لگتے ہیں۔ گندم اور سرسوں کے کھیتوں میں صبح صبح کہیں بھی دنیا میں موقع مل جائے‘ جو کیفیت دل و دماغ پر طاری ہوتی ہے‘ اس کا مقابلہ شاید ہی کوئی عظیم ترین پارک اور باغات کر سکیں۔ مغربی اور مشرقی دنیا کے بے شمار ممالک میں جانے اور وہاں کے پارکوں اور باغوں میں گھومنے کا موقع ملا ہے۔ بے شک ہر جگہ کا اپنا رنگ اور نقشہ‘ ماحول‘ موسم اور درختوں کی رنگا رنگی ہے‘ لیکن سرسوں کی دور دور تک پھیلی زرد اور پیلی وسعت کا نظارہ اور اس درمیان گھومنا اور پھولوں کی خوشبو سونگھنا عجیب سی فطری ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
اٹک اور چکوال کے بارانی علاقوں میں جہاں روایتی طور پر سرسوں کاشت ہوتی ہے‘ اس کا اپنا رنگ ہے۔ بیج اگر ایک ہی ہو اور آپ اسے چکوال اور چولستان میں کاشت کریں تو فصل اور پھولوں کی رنگت میں فرق ہو گا۔ خالد مسعود خان نے اپنے ایک حالیہ کالم میں چکوال سے گزرتے کھیتوں کا رُخ کرنے کا ذکر کیا ہے کہ وہاں کی سرسوں کے رنگوں کی رونق میدانی علاقوں سے مختلف ہے۔ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی ہے۔ اٹک اور چکوال کے دو مختلف دیہات میں راتیں گزارنے کا موقع ملا۔ وہاں تو مٹی سے بھی سرسوں کی خوشگوار مہک سانوں میں بس کر پورے جسم میں سرایت کر جاتی ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ سب کچھ ہے‘ مگر ہم اپنے شعوری وجود کو کھو بیٹھے ہیں۔ لمحۂ موجود میں رہنے اور جینے کی استطاعت ہم میں نہیں رہی۔ غمِ دوراں‘ فکرِ فردا اور ماضی کی الجھنوں میں پھنسے لوگوں کے لیے سرسوں کے کھیت کی اہمیت ایک معمولی فصل سے زیادہ نہیں۔ ایسے کھیت دعوتِ نظارہ کے ساتھ دعوتِ فکر بھی دیتے ہیں۔ تیز رفتار زندگی کو تھوڑی دیر بریک لگانے کی ضرورت ہے۔ فرصت اور وقت اگر ہاتھ سے نکل جائے تو باقی زندگی کیا رہ جاتی ہے؟ ضروری ہے کہ دن کا ایک حصہ فطرت کے ساتھ گزارنے کے لیے وقف کر دیں تو تازگی‘ توانائی اور امید سرسوں کی بہار کی طرح ہمارے اندر بھی پھول کھلا سکتی ہیں۔ مشرقی پنجاب میں زرعی ٹورازم کی معیشت پیدا کی جا چکی۔ کاش! ہم بھی اپنے شہریوں کو دیہات میں رہنے کی سہولتیں فراہم کر کے بہار کے موسم کی فصلوں‘ باغات اور خصوصاً وسیع پیمانے پر سرسوں کی کاشت کے علاقوں کی سیر و سیاحت کے دعوت دے سکتے۔ مشکل تو پہلا قدم ہے‘ جوکسی نے اٹھا لیا توکئی قدم اٹھ جائیں گے۔ دور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں رہتے ہیں‘ گملوں میں‘ خالی میدانوں میں‘ نالوں اور ندیوں کے کنارے‘ نومبر کے مہینے میں سرسوں کے بیج پھینک دیں۔ آپ سرسوں کی بہار اپنے قریب ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ سرسوں بہار کا پہلا رنگ‘ مگر اثرات دائمی اور سحر انگیز۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved