وفاق نے نجکاری کے ذریعے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے جان چھڑانے کا پلان تیار کر لیا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری پر بھی کام ہو رہا ہے اور اس حوالے سے معاملات کو جلد مکمل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس وقت 25 ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں۔ پی آئی اے کے علاوہ فنانشل اور رئیل اسٹیٹ سے متعلق 4‘ 4 ادارے‘ ان کے علاوہ انڈسٹریل سیکٹر کے دو‘ توانائی کے شعبے کے (بجلی کمپنیوں سمیت) 14 ادارے‘ سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن اور بلوکی‘ حویلی بہادر‘ گدو اور نندی پور پاورپلانٹس کی نجکاری بھی زیر غور ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات سامنے آچکے ہیں۔ حکومتی فیصلے کومسترد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ٹھیک کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ اداروں کی نجکاری ضرور ہو گی اور پی آئی اے اس میں سرفہرست ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام بزنس چلانا نہیں پالیسیاں بنانا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا ٹینڈر مئی میں مکمل کر لیا جائے۔ اس کے علاوہ ہوائی اڈوں کی آئوٹ سورسنگ بھی جلد مکمل کرلینے کی اطلاعات ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پرائیوٹائز کیے بغیر پی آئی اے میں بہتری آ سکتی تھی تو پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں ایسا کیوں نہیں کیا؟ اگر پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ نجکاری کے بغیر بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے تو ایک واضح لائحہ عمل اور تجاوز پارلیمنٹ میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ تجاویز واقعی قابلِ عمل ہوں تو کچھ عرصہ کے لیے نجکاری کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔
مارکیٹ ریسرچ کمپنی اپسوس کی جانب سے صارفین کے اعتماد کے حوالے سے 2024ء کی پہلی سہ ماہی کیلئے کیا گیا گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس پاکستان کی پوزیشن میں پانچ سال پہلے کے مقابلے میں نمایاں کمی ظاہر کرتا ہے۔ بہتری کے بجائے اس عرصے میں تنزلی ہوئی ہے اور پانچ سالہ پیشرفت اور ترقی کھودی گئی۔ اقتصادی چیلنجز برقرار ہیں جن کی وجہ سے روزمرہ کی خریداریوں اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے حوالے سے عوام میں بڑے پیمانے پر بے چینی پائی جاتی ہے۔ ہر دس میں سے صرف ایک پاکستانی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے۔ 98 فیصد افراد گھر یا گاڑی کی خریداری جیسے بڑے خرچے کرنے میں عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ اس سروے میں چاروں صوبوں‘ اسلام آباد‘ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے ایک ہزار سے زائد افراد کا انٹرویو کیا گیا۔ گو کہ اس وقت تشویشناک مسائل میں معاشی مسائل بدستور سرفہرست ہیں؛ تاہم گزشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی کے بعد مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے میں معمولی کمی آئی ہے۔ 10 میں سے 6 پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک کی معاشی حالت کمزور ہے‘ پست سماجی و معاشی طبقے کے لوگ زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ محض 30 فیصد پاکستانی آئندہ چھ ماہ میں معاشی صورتحال میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ صرف 10 فیصد افراد نے بچت اور سرمایہ کاری پر اعتماد ظاہر کیا۔ اگر دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اقتصادی اعتبار سے پاکستان کے معاشی سفر میں نمایاں اتار چڑھائو نظر آ رہاہے۔ 2019-20ء میں کورونا وبا کے دوران ابتدائی طور پر گراوٹ کے بعد 2021ء میں بہتری آئی؛ تاہم بحالی کا یہ عمل قلیل المدت تھا اور سیاسی تجربات کی وجہ سے 2022-23ء میں گراوٹ آئی۔ پی ڈی ایم حکومت کے اختتام پر آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے سے 2023ء کی تیسری سہ ماہی میں معیشت نے 'بائونس بیک‘ کیا اور بعد ازاں نگران حکومت نے صورتحال کو مستحکم بنایا جس کے نتیجے میں ستمبر 2023ء کے بعد معیشت مثبت رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ موجودہ سہ ماہی کے دوران پاکستان کی پوزیشن عالمی سطح پرخاصی پست رہی۔ علاقائی ممالک کے علاوہ برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے میں بھی یہ پیچھے رہا۔ پاکستان کے برعکس منفرد چیلنجز اور عالمی بحرانوں (مثلاً کورونا وبا‘ روس‘ یوکرین جنگ اور مشرقِ وسطیٰ کے ہنگاموں) کا سامنا کرنے کے باوجود ان ممالک کی معیشتیں گزشتہ پانچ سال کے دوران صارفین کے اعتماد کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے دو اہم سبق ملتے ہیں‘ پہلا یہ کہ حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے دینا سیاسی و معاشی استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔ حکومت میں قبل از وقت تبدیلیاں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ موجودہ حکومت کو معاشی اصلاحات کا ایجنڈا مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ اہداف اور کارکردگی کے کلیدی اشاریوں کا تعین کرنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ عوام اور سرمایہ کاروں کے درمیان پائیدار اور بہتر اعتماد کو یقینی بنایا جا سکے۔
گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کا وفد عبوری معاہدے کی تیسری قسط کے جائزے کے لیے اسلام آباد آیا ہے نہ کہ نئے معاہدے کے لیے۔ اس کے اہداف پہلے سے طے شدہ ہیں اور کافی کام ہو چکا؛ البتہ کچھ رپورٹس پر اختلاف ہے۔ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ مکمل کرنے کے لیے شاید مزید مہنگائی نہ کرنی پڑے لیکن آئندہ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ ابھی تک بینکوں کو ایل سیز کھولنے کی اجازت نہیں‘ نئے معاہدے میں اس پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں ڈالر ریٹ اور مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مہنگائی کا انحصار شرحِ سود پر ہوتا ہے۔ حالیہ معاہدہ ہو یا نیا معاہدہ‘ پالیسی ریٹ کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شرحِ سود پہلے ہی انڈر ویلیو ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی اور سود کی شرح برابر ہونی چاہئیں۔ پچھلے دو سال سے افراطِ زر کی شرح 24 فیصد سے اوپر رہی ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی عوام کیلئے کس قدر گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اس پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
آئی ایم ایف مالیاتی اور پرائمری خسارہ ختم کرنے کا کہہ رہا ہے جس پر حکومت متفق ہے لیکن یہ کس طرح ہو گا‘ حکومت کے پاس مہنگائی کرنے کے علاوہ اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں۔ حالیہ جائزہ اہداف پر اگر آئی ایم ایف حکام مطمئن نہ ہوئے تو ممکن ہے کہ حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں مہنگائی بجلی اور پٹرول کی قیمتوں سے براہِ راست منسلک ہے۔ صرف فروری کے مہینے میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں67 فیصد اور انڈسٹری کیلئے 700 فیصد تک اضافہ کیا گیا جبکہ بجلی کی قیمت میں 7 روپے 5 پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ اس کی وجہ آئی ایم ایف نہیں بلکہ بجلی اور گیس کی چوری ہے۔ آئی ایم ایف کبھی توانائی کے نرخ بڑھانے کی شرط نہیں رکھتا بلکہ اس کا مطالبہ چوری روکنا اور اداروں کا خسارہ ختم کرنا ہوتا ہے۔ اگر چوری اور خسارہ نہ رکا تو قیمت مزید بڑھے گی اور نتیجتاً مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔
پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے مہنگائی اور ڈالر ریٹ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ڈالر ریٹ فوری طور پر بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ ڈالر ریٹ مزید نہیں بڑھنا چاہیے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ سے ڈالر ریٹ میں زیادہ اتار چڑھائو نہیں آیا۔ اگر ڈالر ریٹ مستحکم رہا تو آئی ایم ایف کے نئے معاہدے سے مہنگائی میں شاید اتنا اضافہ نہیں ہو گا جتنا ماضی میں دیکھنے کو ملا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved