ایک ففتھ جنریشن جنگی طیارے کی نمایاں خصوصیات کیا ہونی چاہئیں؟ اگرچہ طے شدہ خصوصیات ہر ایسے طیارے میں لازمی نہیں لیکن جدید دور کی ضروریات کے پیشِ نظر اب تک بنائے گئے طیاروں میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ اول تو ریڈار میں نظر نہ آنے یا کم سے کم دکھائی دینے کی صلاحیت یعنی سٹیلتھ ٹیکنالوجی۔ دوسری‘ طیارے کی باڈی کے اندر ہی موجود اسلحہ‘ جسے باہر سے نہ لگایا گیا ہو۔ تیسری‘ انتہائی سرعت اور برق رفتاری سے نقل و حرکت کی صلاحیت‘ چوتھی‘ بہت بلندی پر اور دیر تک پرواز کی صلاحیت اور آواز سے زیادہ رفتار۔ پانچویں‘ جدید ترین کمپیوٹر نظام جس میں مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس بھی شامل ہو۔ چھٹی‘ متنوع کردار ادا کرنے کی اہلیت یعنی ملٹی رول (کمانڈ‘ کنٹرول‘ کمیونیکشن وغیرہ) اور ساتویں‘ اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے دشمن کی حدود میں مار کرنے کی صلاحیت۔
یہ وہ چند چیدہ چیدہ اوصاف ہیں جو ایسے جدید ترین طیارے میں ہونے چاہئیں۔ یہ سب چیزیں ایک ہی طیارے میں سمو دینا نہایت فنی قابلیت اور تکنیکی مہارت چاہتا ہے۔ چین اور روس بالترتیب جے 20 اور جے 35 اور روس ایس یو 57 کے ناموں سے ففتھ جنریشن طیارہ سازی میں کسی دوسرے ملک کے بغیر کوشاں ہیں۔ لیکن روس کا ایس یو سخوئی 57 اتنا کامیاب نہیں رہا اور ابھی تک چند یونٹ ہی فعال ہو سکے ہیں۔ بھارت بھی اے ایم سی اے کے نام سے طیارہ بنانا چاہتا ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک چار دہائیوں پرانے پروجیکٹ ٹیجاز ہی کو بڑے پیمانے پر تیار نہیں کیا جا سکا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ترکیہ یہ طیارہ بنانے پر مجبور کیوں ہوا۔ ایف 22 کی انتہائی لاگت کی وجہ سے امریکہ مجبور ہوا کہ ایف 35 کو ہی اصل طیارہ قرار دے کر دیگر ممالک کو بھی اس طیارہ سازی میں شریک کرے؛ چنانچہ امریکہ نے نو دیگر ممالک کو اس پروجیکٹ میں شریک کیا جس میں ترکیہ بھی شامل تھا۔ دراصل ترکیہ نیٹو کا ایک اہم رکن ہے بلکہ کچھ پرزوں کی سپلائی بھی ترکیہ کے ذمے تھی۔ اسی دوران ترکیہ نے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ امریکہ کو بہت ناگوار گزرا‘ اس نے ترکیہ کو تنبیہ کی کہ اگر یہ معاہدہ باقی رہا تو اسے ایف 35 طیارہ پروجیکٹ سے الگ کر دیا جائے گا۔ ترکیہ نے پروا نہ کی اور میزائل سسٹم خرید لیا۔ نتیجتاً ترکیہ کو ایف 35 طیارہ سازی سے الگ کر دیا گیا۔ اب ترکیہ کے پاس جدید ترین طیارے کے حصول کے یہی راستے تھے کہ یا وہ دیگر ممالک سے خریدے یا خود طیارہ سازی کرے۔ ترکیہ نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ ترکیہ نے جب اس طیارے کی بنیاد رکھی تو اسے ان باتوں کا ادراک بھی تھا اور اس سے قبل بڑی طیارہ سازی میں اسے کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔
Kaan (قاآن یا خان) کا نام تو طیارے کو بہت بعد میں یعنی 2023ء میں دیا گیا‘ 2010ء میں اس طیارہ سازی کے لیے ترکیہ نے کئی بڑے اداروں کی بنیاد ڈالی۔ ٹرکش ایئرو سپیس انڈسٹریز TAI‘ ان میں سے بنیادی ادارہ ہے۔ لیکن ترکیہ کو اندازہ تھا کہ تنہا یہ بڑا کام اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا؛ چنانچہ اس نے اس منصوبے میں منتخب دوست ممالک کو شریک کرنا چاہا۔ پاکستان اور آذربائیجان دو اہم ترین نام ہیں۔ آذربائیجان اور ترکیہ نے اس پروجیکٹ میں شریک ہونے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ آذربائیجان اس پروجیکٹ میں رقم لگا سکتا ہے۔ پاکستان کی اہمیت دوسرے انداز کی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ پاکستان پہلے ہی جے ایف 17 کا کامیاب تجربہ کر چکا ہے اور اس کی تکنیکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نیز پاکستانی انجینئرز کی مہارت بھی دنیا میں مسلمہ ہے۔ پاکستان ایئر فورس‘ جو دنیا کی آٹھویں بڑی فضائیہ ہے‘ اپنے طیاروں کو مسلسل جدید تر بناتے رہنے کے لیے کوشش کرتی رہتی ہے۔ کامرا ایئرو ناٹیکل کمپلیکس میں بے شمار غیر ملکی طیاروں کی اوور ہالنگ‘ سسٹم انٹیگریشن اور از سر نو بنانے کی کامیاب کوششیں سب کے سامنے ہیں۔ مشاق تربیتی طیارے اور کے 8 طیارے بھی پی اے سی میں بنائے گئے۔ جب 2012ء کے دہشت گرد حملے میں پی اے ایف کے دو جدید ترین نگران جہازوں Erieye AEW کو نقصان پہنچا تو ان طیاروں کی بنانے والی کمپنی SAAB نے ابتدا میں انہیں ناقابلِ مرمت قرار دیا تھا لیکن کامرہ کمپلیکس کے انجینئرز نے انہی طیاروں کو قابلِ استعمال بنایا اور اسی عمل میں بہت سی جدید ٹیکنالوجی کو باہم منسلک کرنا یعنی انٹیگریٹ کرنا سیکھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ جدید میزائل سسٹمز اور فضائی اسلحہ میں بھی پاکستان نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ایئر ویپن کمپلیکس AWC‘ گلوبل انڈسٹریز ڈیفنس سسٹمز GIDS اورکئی دیگر ڈیفنس ادارے ایسے بم‘ میزائل اور اسلحہ تیار کر چکے ہیں جنہیں جنگی حالات میں بھی آزمایا جا چکا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2019ء میں بھارت سے فضائی جھڑپ‘آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں منتخب اہداف پر ایچ 4 گائیڈڈ بموں کا بہت کامیابی سے استعمال کیا گیا تھا جو انفرا ریڈ کیمروں سے لیس ہوتے ہیں۔ رعد اور رعد 2 کروز میزائل بھی پاکستان بنا چکا ہے اور اس سلسلے کی تازہ ترین کامیابی ریڈار پر نظر نہ آنے والے میزائل تیمور ہے جو اَب برآمد کے لیے بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ 2017ء میں‘ اس ادراک کے باوجود کہ ففتھ جنریشن طیارہ پاکستان تن تنہا نہیں بنا سکتا‘ پاکستان میں ''عزم‘‘ کے نام سے یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا کیونکہ ڈیزائنز وغیرہ کا بھی طیارہ سازی میں بہت اہم کردار ہے۔ کسی طیارہ ساز مرحلے پر ان سب مہارتوں اور تجربوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر ترکیہ کو پاکستانی مہارت اور تجربے کی ضرورت ہے تو اس میں پاکستان کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اس نہایت جدید ٹکنالوجی کو حاصل کر سکتا ہے‘ جو ویسے اس کی دسترس میں نہیں ہے۔ پاکستان کو اندازہ ہے کہ مغرب کی طرف سے پاکستان کو ففتھ جنریشن طیارے کی اجازت نہیں دی جائے گی؛ چنانچہ اس کے پاس یہی دو راستے ہیں کہ وہ یا چین کے جے 35 طیارے اور یا ترکیہ کے قاآن طیارے حاصل کرے۔ پاکستان اب تک ترکیہ سے کافی دفاعی ساز و سامان خرید بھی چکا ہے اور اس کا ایک بڑا دفاعی خریدار ہے۔ بحری جنگی ساز و سامان بھی ترکیہ کے تعاون سے حاصل کیا گیا مثلاً جناح کلاس فریگیٹ جنگی جہاز ترکیہ سے بنوایا گیا ہے۔ چنانچہ دونوں ملک اپنی دوستی اور ہم آہنگی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
2 اگست 2023ء کو ترک ڈپٹی وزیر دفاع نے کراچی میں اعلان کیا کہ ترکیہ پاکستان سے اس طیارہ سازی میں شریک ہونے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ اس سے قبل ترکیہ کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا جا چکا کہ 200 کے لگ بھگ پاکستانی انجینئرز کو اس طیارہ سازی کے مختلف مراحل میں ملازمتیں دی گئی ہیں۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ پاکستان مالی مسائل کی وجہ سے رقم شامل نہیں کر سکتا مگر اپنی مہارت اور تجربے سے ترکیہ کی مدد کرے گا۔ انہی دنوں ایک یورپی مبصر نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ آذربائیجان اپنی رقم سے پاکستان کی اس معاملے میں مدد کر سکتا ہے۔خان یا قاآن کی جو بنیادی خصوصیات ڈیزائن میں طے کی گئیں‘ ان میں ایک پائلٹ یا دو پائلٹوں والی اقسام‘28 ہزار کلوگرام وزن اٹھانے کی صلاحیت بنیادی ہیں۔ یہ 55 ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کا اہل ہو گا۔ کئی اقسام کے میزائل‘ بم وغیرہ اس کا حصہ ہوں گے جن کی تفصیل دفاعی ماہرین کے لیے اہم مگر عام قاری کیلئے ضروری نہیں۔ عام طور پر یہ ہتھیار ترکیہ کے اپنے تیار کردہ ہیں۔ یوں بھی اپنی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کو خفیہ رکھنے کی غرض سے کئی اہم تفصیلات ترکیہ کی طرف سے منظرعام پر نہیں لائی گئیں۔ لیکن جو باتیں ڈیفنس جرنلز میں شائع ہوئیں ان میں نہایت اہم معاملہ انجن کا تھا۔ اس طیارے کیلئے نہایت طاقتور انجن درکار تھے۔ترکیہ چاہتا تھا کہ جس کمپنی یا ملک سے انجن کا معاہدہ کیا جائے وہ ترکیہ کے اندر ہی وہ انجن بنائے اور اسی کے ساتھ ترکیہ کو ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کرے۔ یعنی معاملہ صرف انجن حاصل کرنے کا ہی نہیں‘ اس ٹیکنالوجی کے حصول کا بھی تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved