بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔ بہت بڑے منصب پر فائز رہے! اتنے بڑے منصب پر کہ انہیں دیکھتے ہوئے ٹوپی سر کے پیچھے گرنے کا اندیشہ ہو تا تھا! مگر مزاج میں عجیب معصومیت بھری تھی۔ مریضوں کو عجیب و غریب چھوٹے چھوٹے تحفے دیتے۔ جیسے پلاسٹک کی بطخ جو کبھی دائیں طرف حرکت کرتی تو کبھی بائیں طرف! مریض اسے دلچسپی سے دیکھتا رہتا اور اس کا دل بہلا رہتا! اتوار کو وہ پانی کی بوتل پکڑتے‘ بیگ کاندھے سے لٹکاتے اور چھوٹی سی گاڑی ڈرائیو کرتے راجہ بازار جا نکلتے! پلاسٹک کی کسی دکان سے کوئی نئی شے خریدتے۔ سستی گھڑیاں تلاش کرتے۔ درجنوں کے حساب سے بال پین خریدتے جو سٹاف کو دیتے رہتے۔ ایک بار میں سنگاپور جا رہا تھا۔ مجھے بتایا کہ جب سنگاپور کے جنوبی جزیرے سنتوسا میں جاؤ گے تو ظاہر ہے وہاں چیئرلفٹ پر بھی سواری کرو گے۔ جہاں چیئرلفٹ اتارے گی وہاں‘ سیڑھیاں چڑھ کر ایک دکان ملے گی۔ اس دکان میں ایک ایسی ٹوپی ہے جس پر ماتھے والی سمت بلب لگا ہے‘ جو رات کو پڑھنے کے لیے روشن کیا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ ہدایت‘ آج بھی یاد کرتا ہوں تو دلکش لگتی ہے اور وہ طلسمی کہانی یاد آ جاتی ہے جس میں فقیر شہزادے کو اسی قسم کی ہدایات دیتا ہے کہ فلاں پہاڑ کے دامن میں جھونپڑی ہو گی جس میں ایک بوڑھا بیٹھا ہو گا جو تمہاری مدد کرے گا‘ وغیرہ وغیرہ! ایک بار میں بیرونِ ملک سے ان کے لیے ایک لمبا سا شو ہارن لایا۔ ان کی خدمت میں پیش کرنے ان کے گھر گیا۔ فوراً اندر سے میرے لیے بھی ایک شو ہارن لے لائے جو برما کی قیمتی لکڑی ٹِیک سے بنا ہوا تھا اور جو میرے شو ہارن کے ذخیرے میں ایک زبردست اضافہ تھا!
جب بھی شام کو سیر کے لیے نکلتا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب یاد آ جاتے ہیں۔ تب میں اپنا رُخ شہر کے گنجان بازار کی طرف کر لیتا ہوں۔ مجھے اُن کی طرح عجیب و غریب اشیا خریدنے کا شوق تو نہیں مگر ان عوامی بازاروں میں مجھے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک چیز جو ہمیشہ نوٹ کی‘ یہ ہے کہ زندگی بیورو کریسی کے کوچہ و بازار میں کٹی مگر ان گنجان‘ عوامی بازاروں میں کبھی کوئی اپنے ساتھ کا یا کوئی جاننے والا‘ بیورو کریٹ کبھی نہیں ملا۔ یہ اصحاب بڑے بڑے فیشن ایبل مالز میں جاتے ہوں گے یا ان کا سودا سلف ان کے خدام لاتے ہوں گے! مغربی ملکوں میں حکمران اور بادشاہ بھی بازاروں‘ عام ریستورانوں‘ بسوں اور ٹرینوں میں نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو بارہ جماعتیں پاس کر لے‘ اپنا سامان اٹھانے میں اسے شرم آنے لگتی ہے۔ افسروں اور وزیروں کے دفتروں کے باہر صبح نائب قاصد اور پی اے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ صاحب آئیں تو ان کی گاڑی کا دروازہ کھولیں اور لپک کر بریف کیس پکڑ لیں! گویا صاحب نہ ہوا‘ اپاہج ہو گیا! چو این لائی سے لے کر ہنری کسنجر تک‘ سب نے اپنے بریف کیس خود اٹھائے اور اپنے ملکوں کو ستاروں کی طرح روشن کر دیا! اس بات میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں اور بیورو کریسی (سول اور خاکی دونوں) کا معیارِ زندگی اور طرزِ زیست ایسا ہے کہ نہ صرف ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران اس کا نہیں سوچ سکتے بلکہ شاہجہان‘ جہانگیر‘ اور اودھ کے نواب واجد علی شاہ بھی دیکھیں تو رشک سے مر جائیں! مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیروزگاری اس قدر ہے کہ بارہ جماعتیں تو بارہ ہیں‘ دس پڑھے ہوئے کو بھی سامان اٹھانے والا مل جاتا ہے!
واکنگ سٹک پکڑے‘ سر پر ٹوپی اوڑھے‘ کئی موسموں اور کئی برسوں سے گزری ہوئی جیکٹ پہنے‘ جب اس گنجان بازار یا ہفتہ وار اتوار بازار کا چکر لگاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ملک سے اور اپنے لوگوں سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ جیسے یہ سب دکاندار اور یہ سب گاہک اور بازار کی گلیوں اور برآمدوں میں یہ سب چلنے والے میرے پرانے ساتھی ہیں۔ ادھیڑ عمر حاجی نما شخص جو مشین سامنے رکھے چھریاں اور قینچیاں تیز کر رہا ہے۔ پھلوں کا رس بیچنے والا جو گاہکوں کی بھیڑ سے نمٹ رہا ہے۔ ٹوکرے میں کچھ پھل رکھے‘ بوڑھا جو گزرتے گاہکوں کو دیکھے جا رہا ہے۔ قصاب جو بکرے لٹکائے‘ خریداروں سے بحث کر رہے ہیں۔ ریستوران سے باہر بیٹھا لڑکا جو آلو چھیلے جا رہا ہے۔ کباڑیا جو دکان میں پرانے لوہے کے مال و اسباب میں گھرا‘ ردی تول رہا ہے۔ تنگ سی گلی کی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دکانوں میں‘ قطار اندر قطار بیٹھے درزی جو سر جھکائے سلائی مشینیں چلائے جا رہے ہیں۔ فریموں کی دکان کے اندر‘ تصویروں کو شیشوں کے نیچے فِٹ کرتا نوجوان۔ اے ٹی ایم کے سامنے لائن میں لگے لوگ۔ کھولتے پانی والی کڑاہی میں دوپٹوں کو بھگوتا رنگ ساز۔ خشک میووں کی دکان میں کھڑا بَلتی۔ مخصوص قینچی نما اوزار سے گنڈیریاں کاٹتا ریڑھی بان۔ کونے میں جوتے گانٹھتا موچی‘ بوٹ پالش کرتا سرخ رخساروں والا خوبصورت پیارا سا معصوم بچہ۔ چاٹ کی دکان پر چاٹ اڑاتی لڑکیاں۔ سبزی خریدتے‘ کوٹ پتلون میں ملبوس‘ دفتری بابو۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دم سے پاکستان آباد ہے۔ ان سب لوگوں میں ایک وصف مشترک ہے۔ وہ یہ کہ اس ملک کو اُس حالت تک‘ جس میں یہ ہے‘ پہنچانے میں ان لوگوں کا ہاتھ نہیں ہے۔ اب میں موبائل کی دکانوں کے بیچ سے گزر رہا ہوں۔ یہاں مڈل کلاس سے لے کر مزدوروں تک‘ سب موجود ہیں۔ ساتھ تِکوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ کوئلوں پر مرغیوں کے ٹکڑے رکھے ہیں۔ سڑک کنارے کرسیوں پر بیٹھے لوگ کھانا کھا رہے ہیں! واپسی کے لیے لمبا راستہ اختیار کرتا ہوں اور اتوار بازار کے بیچ سے گزرتا ہوں۔ ہر طرف ازدحام ہے۔ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ سموسوں اور پکوڑوں کے سٹالوں پر خوب رش ہے۔ پھلوں کے انبار لگے ہیں۔ بازار کئی حصوں میں منقسم ہے۔ کریانہ‘ گارمنٹس‘ قالینیں‘ پردے‘ جوتے‘ ہاؤزری‘ برتن‘ کانچ اور پلاسٹک کے‘ سٹیل اور ایلومینیم کے! کاش کبھی اس بازار میں ہمارے وزیراعظم‘ ہمارے وزیر خزانہ چلیں‘ ہمارے سی ڈی اے کے سربراہ ہی تشریف لے آئیں اور لوگوں کے ساتھ سودا سلف خریدیں۔ مگر ترقی اور پختگی کی اُس سطح تک پہنچنے میں کئی سو سال لگیں گے۔ احساسِ برتری میں چھپا ہوا احساسِ کمتری رفع ہونے میں صدیاں لگتی ہیں! یہ ہیلی کاپٹروں میں اُڑتے حکمران! جن کے لیے راستے بند کر دیے جاتے ہیں! جن کی دنیا ہی الگ ہے‘ جن کے ککڑ اور بلیاں بھی کھرب پتی ہیں‘ وہ ان عوامی بازاروں میں کیوں آئیں گے!
واکنگ سٹک لہراتا‘ ٹوپی سنبھالتا‘ اتوار بازار کے عقبی دروازے سے باہر سڑک پر نکلتا ہوں۔ لوگ باگ شاپنگ بیگ اٹھائے گھروں کو جا رہے ہیں۔ کچھ موٹر سائیکلوں پر ہیں‘ کچھ گاڑیوں پر! بائیکوں اور ٹیکسیوں والے پُرامید نظروں سے‘ بازار سے باہر آتے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ مانگنے والے دو رویہ کھڑے ہیں! یہی میرا پاکستان ہے۔ یہی میری دنیا ہے۔ میں نے اسی میں جینا ہے‘ اسی میں مرنا ہے۔ مجھے کیا غرض کہ رائے ونڈ کے محلات کتنے رقبے میں ہیں؟ ملک میں بلاول ہاؤس کتنے ہیں؟ بنی گالا کا گھر کتنے کنال کا ہے۔ چودھریوں کے کتنے کارخانے ہیں اور شوگر مافیا کتنا طاقتور ہے؟ میری اور اُن کی دنیائیں الگ الگ ہیں! درمیان میں گہری خلیجیں ہیں! ان خلیجوں میں ایسی لہریں ہیں جنہیں میری دنیا والے پار کر سکتے ہیں نہ اُن کی دنیا والے! میں اپنی دنیا میں خوش ہوں! مجھے اُن کی دنیا سے کوئی غرض نہیں اور اُنہیں میری دنیا سے کوئی تعلق نہیں! اس لیے کہ بقول افتخار عارف:
مجھے تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved