روس کے صدارتی انتخابات کیلئے تین روزہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ صدارتی امیدوار ولادیمیر پوتن 87 فیصد سے زائد ووٹ لے کر پانچویں مرتبہ روس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ پوتن کو ملنے والے ووٹوں کو سوویت یونین کے بعد روس کی تاریخ میں اب تک کسی بھی صدارتی امیدوار کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ان کے مدِمقابل تین امیدوار مجموعی طور پر تقریباً 10 فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائے۔ روس کے صدارتی انتخابات کے تین روز کے دوران روس یوکرین جنگ بند رہی۔ روس کے عوام اور ولادیمیر پوتن یوکرین جنگ کو خصوصی فوجی آپریشن قرار دیتے ہیں۔ روس میں فروری عام طور پر بہت سرد ہوتا ہے۔ فروری کو پورے سال کا سب سے سرد مہینہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کئی علاقوں میں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور ان دنوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ برفباری بھی عام ہے۔ روس میں موسم سرما کی سختی اپنے ساتھ کئی مشکلات لے کر آتی ہے جن سے نمٹنے کیلئے یہاں کے باشندوں کو اپنی پوری قوت صرف کرنا پڑتی ہے۔ درجہ حرارت گرنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے ضروری ہو جاتا ہے کہ خود کو اور اپنے گھر کو بے رحم سردی سے بچایا جائے۔ اس موسم میں باہر نکلنا ایک الگ امتحان ہے۔ شدید برفباری سڑکوں کو سفید چادر سے ڈھانپ دیتی ہے‘ جو سفر اور گھومنے پھرنے کیلئے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایسے شدید سرد موسم میں لوگوں کا ووٹنگ کیلئے باہر نکلنا ہمارے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ جب پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان ہوا تو بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں موسم سرد ہونے کی بنا پر الیکشن کو چند ماہ کیلئے مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا کہ شدید سردی میں لوگوں کیلئے ووٹنگ کے عمل میں شریک ہونا مشکل ہو جائے گا لیکن یہاں روس میں برفباری اور منفی درجہ حرارت کے باوجود لوگ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے۔ ملکِ عزیز میں نگران حکومت کا قیام‘ انتخابات اور حکومتی تشکیل میں چند ماہ لگ جاتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی جماعتیں صدارتی انتخابات میں مصروف رہیں۔ اب وہ دو اپریل کو ہونیوالے سینیٹ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایسی صورتحال میں ریاستی امور کی انجام دہی پسِ پردہ چلی جاتی ہے۔
روس میں ہم نے دیکھا کہ صدر پوتن نے کامیابی کے فوری بعد پالیسی بیان جاری کیا کہ یوکرین جنگ میں مغربی افواج کی موجودگی کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مدمقابل امیدواروں کی طرف سے محدود احتجاج کی کال دی گئی۔ کچھ لوگوں نے احتجاج ریکارڈ بھی کرایا۔ اس دوران ریاستی امور اور روز مرہ زندگی میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ اس کے برعکس ملک ِعزیز میں عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ کچھ جماعتیں رمضان کے بعد احتجاج کا ارادہ رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ 2013ء سے 2024ء تک سیاسی احتجاج نے ہر شعبۂ زندگی کو جکڑے رکھا ہے۔ سیاسی احتجاج کے حق کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے‘ یہ عوام کو اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے لیے آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور حکومتی پالیسیوں پر روشنی ڈالتا ہے؛ تاہم جب سیاسی احتجاج مسلسل ہونے لگتے ہیں تو یہی فائدہ منفی اثرات میں بدل جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں شراکتِ اقتدار کیلئے سیاسی اتحاد تو بنتے رہتے ہیں‘ ملک و قوم کے مفاد کی خاطر کوئی قومی اتحاد قائم کیوں نہ ہو سکا؟ قومی اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک تنِ تنہا چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج کی دنیا میں معاشی ترقی‘ عسکری طاقت اور بین الاقوامی تعلقات سبھی شعبے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ملکی سلامتی کیلئے مضبوط معیشت ضروری ہے اور معاشی ترقی کیلئے پُرامن ماحول اور بین الاقوامی تعاون درکار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو پسِ منظر میں رکھ کر یہ طے کریں کہ ملک کو کن کن شعبوں میں ترقی کی ضرورت ہے اور کیسے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی اتحاد کی بدولت وفاق اور صوبوں میں حکومت تو قائم ہو گئی ہے؛ تاہم موجودہ حالات میں عوام کو ریلیف دینا حکومت کیلئے آسان نہیں ہے بلکہ خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے۔
قومی اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی جماعتوں کے متضاد مفادات ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے‘ جس کے تحت وہ سیاست کرتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی بقا اور اقتدار کو قومی مفاد پر ترجیح دیتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ ملکی مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ملک عزیز میں بدقسمتی سے جمہوریت کو ابھی تک اس کی حقیقی روح کے مطابق نہیں سمجھا گیا ۔ بعض سیاسی جماعتیں جمہوریت کو اقتدار کی رسہ کشی سمجھتی ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن تصور کرتی ہیں۔ اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ قومی اتحاد میں رکاوٹ کا ایک اور سبب کمزور جمہوری روایات ہیں۔ سات دہائیوں کے بعد بھی ملک میں جمہوریت پوری طرح مستحکم نہیں ہو سکی۔ اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں میں برداشت اور مفاہمت کی کمی پائی جاتی ہے۔ وہ اختلافِ رائے کو طاقت کے طور پر استعمال کرتی ہیں جس سے سیاسی تعطل پیدا ہوتا ہے اور قومی امور پر بات چیت کا عمل رک جاتا ہے۔ جب کسی ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہو تو معاشرے میں انتشار پھیلنے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں جو حکومتیں بناتی ہیں اور معاشی پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں۔ انتشار اکثر اس وقت پھیلتا ہے جب لوگ ایک دوسرے کے نظریات کو سننے اور سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
اس وقت ملک کو معاشی اور داخلی سکیورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے سکیورٹی اہلکار سرحدوں پر جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ حالات ایوان کے اندر مذمتی قرار داد سے کچھ زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسی مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے اور قوم اس وقت تک متحد نہیں ہو سکتی جب تک سیاسی قیادت ملکی مفاد کو اولین ترجیحات میں شامل نہیں کرے گی۔ نوجوان اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت کے بارے منفی بحثوں میں ضائع کر رہے ہیں‘ جبکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تربیت دے کر ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ وہ بیرونِ ملک کمپنیوں کے ساتھ بھی کام کر سکتے ہیں جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ سیاسی رہنما نوجوانوں کیلئے رول ماڈل بنیں کیونکہ نوجوان سیاسی رہنماؤں کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرانے چہروں کو نوازنے کے بجائے نئے چہروں بالخصوص نوجوانوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں میں شمولیت نہ صرف ان کی ذاتی ترقی کیلئے ضروری ہے بلکہ پورے ملک کی ترقی کیلئے بھی اہم ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں ہمارے ملک میں نوجوانوں میں صلاحیت کے باوجود انہیں مواقع دینے کا رواج نہیں تھا‘ تاہم ایوان کے اندر نوجوانوں کی مناسب نمائندگی ضروری ہے۔ سیاسی رہنما اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں سے بچا سکتے ہیں۔ ان گزارشات پر اسی صورت عمل ہو سکتا ہے جب قومی اتحاد قائم ہو اور مشترکہ طور پر منزل کا تعین کیا جائے۔ جب تک ہم ٹکڑوں میں بٹے رہیں گے‘ مسائل کے گرداب سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved