حضور نبی اکرمﷺ نے آزمائشوں سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی۔ آزمائشوں کے آنے پر بھی آپﷺ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے صبر اور استقامت کی توفیق طلب کی اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓکے پورے گھرانے کو شدید ایذائیں پہنچائی گئیں۔ ان کی والدہ سیدہ سمیّہ بنت خباطؓ تو مکہ میں ظلم کے ساتھ شہید کردی گئیں۔ آنحضورﷺ اپنے ان صحابہ کرامؓ کو آزمائش کی چکی میں پستے ہوئے دیکھتے تو فرماتے: ''اے آلِ یاسر! صبر کرو بے شک تمہارا مقدر جنت ہے‘‘۔
استقامت مومن کا بہت بڑا ہتھیار ہے‘ مگر اس کے حصول کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ استقامت کو متزلزل کرنے کے لیے داعیانِ حق کو ترغیب و ترہیب دونوں حربوں سے شکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جیسا کہ ائمہ اسلاف کے بارے میں بیان کردہ واقعات سے ثابت ہے۔ جس داعیٔ حق کو اپنی خواہشات کی غلامی اور مرغوباتِ نفس سے نجات نہ مل سکے وہ کبھی استقامت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ شدائد اور مصائب کے مقابلے پر جو داعی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ بسا اوقات وہی داعی ترغیب و تحریص کے دام میں بآسانی گرفتار ہو جاتا ہے۔ داعیٔ حق کو کسی چیز کا غلام اور عادی نہیں ہونا چاہیے۔ مبادا یہی چیز اور عادت اس کے پاؤں کی زنجیر بن جائے۔ بقول اقبالؒ:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
امام حسن البنا شہیدؒ کے بارے میں کافی عرصہ قبل میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جب کبھی کسی کے ہاں جائیں تو چائے‘ کافی اور مشروب‘ جو کچھ بھی حلال چیز پیش کی جائے اسے قبول کریں مگر چائے اور کافی کو اپنی عادت نہ بنائیں۔ یہ عادت غلامی کے مترادف ہوتی ہے اور کسی وقت بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ امام شہید کی یہ نصیحت میں نے پڑھی تو مجھے کچھ عجیب سی لگی۔ میں نے سوچا کہ چائے اور کافی کی عادت کون سا نشہ ہے‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ میں نے بارہ سال کا عرصہ کینیا میں گزارا ہے۔ کینیا میں دنیا کی بہترین چائے اور کافی پیدا ہوتی ہے۔
چائے تو ہماری نسل سے پاکستان میں مروج ہو چکی تھی‘ مگر کافی کے باقاعدہ استعمال کا موقع کینیا میں میسر آیا۔ ہمارے دفتر میں چار بجے بعد دوپہر چائے یا کافی پی جاتی تھی۔ مجھے کافی بہت اچھی لگی۔ سات آٹھ ماہ کافی پیتے گزر گئے تو ایک روز سفر کے دوران میں مجھے اچانک بے چینی اور بے کلی سی محسوس ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک طبیعت کیوں خراب ہو رہی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد معاً خیال آیا کہ کافی کا وقت ہو گیا ہے۔ اسی لمحے میرے ذہن میں امام حسن البناؒ کی نصیحت تازہ ہو گئی اور اس کی حکمت کھل کر سامنے آ گئی۔ اگلے روز معاونِ دفتر نے وقتِ مقررہ پر کافی کا کپ میری میز پر لا کر رکھا تو میں نے اسے کہا کہ بھائی! آج سے کافی بند۔ اس کے بعد آج تک کبھی کبھار تو کافی پی لیتا ہوں کہ یہ حرام نہیں مگر اس کی مستقل عادت اور شوق ترک کر دیا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں ہر قسم کا نشہ حرام ہے اور شریعت نے اسے حرام قرار دینے میں بہت سی حکمتیں اور انسانی مصالح ملحوظ رکھے ہیں۔ انسان کو بنیادی ضروریات کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے مگر تعیشات سے پرہیز عام انسانوں کے لیے مفید اور داعیانِ حق کے لیے از حد ضروری ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اپنی امت کے بارے میں فقر و فاقہ سے زیادہ خوش حالی و فارغ البالی کو خطرناک قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: فواللہ ما الفقر اخشی علیکم، ولکن اخشی علیکم ان تُبْسَط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم، فتنافسوا فیھا کما تنافسوھا، فتھلککم کما اہلکتہم۔ (بخاری، مسلم، ترمذی)
خدا کی قسم! میں تمہارے بارے میں فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا‘ مگر میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا کی دولت اور آسائشیں تم پر کشادہ کر دی جائیں گی‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کی گئیں۔ پھر تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے کی۔ اس کے نتیجے میں یہ دنیا تمہیں بھی ہلاک کر دے گی جس طرح تم سے پہلوں کو کر چکی ہے۔
جب انسان اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی فکر میں لگ جائے تو آہستہ آہستہ اس کے دل میں ہوس اپنا گھر بنا لیتی ہے۔ آخرکار معیارِ زندگی کا بت دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اس بت کی پرستش میں بعض اوقات بظاہر بڑے بڑے مواحدین بھی مشغول نظر آتے ہیں اور بدقسمتی سے پوری زندگی اسی کی نذر کر دیتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے توحید کی صفت میں کہاں رخنہ پیدا ہوتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر فرما دیا ہے: ''کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا اِلٰہ بنا لیا ہو؟ تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟‘‘ (الفرقان: 43)
معیارِ زندگی کا یہ بت کتنا خطرناک ہے‘ اس کے بارے میں مصری عالم دین الشیخ ڈاکٹر عبدالحلیم محمود مرحوم (1910-1978ء) نے نہایت مؤثر انداز میں وضاحت کی ہے۔ شیخ موصوف اخوان المسلمون کے ابتدائی اراکین میں سے تھے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ اخوان کی تحریک میں جدوجہد‘ ایثار اور قربانی میں گزارا۔ اخوان المسلمون کے متعلق لکھی جانے والی تمام کتابوں کے درمیان ان کی کتاب بعنوان ''اخوان المسلمون‘‘ نہایت معتبر اور مستند ہے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ شیخ موصوف بوجوہ اخوان کو چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ اخوان سے الگ ہو کر بھی دین داری کا جذبہ ان کے اندر موجود تھا۔ وہ دین کی خدمت کرنے کے لیے جامعہ ازھر تشریف لے گئے۔ اخوان سے نکل جانے کی وجہ سے حکومتِ مصر نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی اور انہیں شیخ ازھر (وائس چانسلر) مقرر کر دیا۔ ملوکیت سے لے کر فوجی آمریت تک مصر میں یکے بعد دیگرے مستبد حکمران برسر اقتدار آتے رہے۔ جامعہ ازھر ان حکمرانوں کی آلہ کار بنی رہی۔ شیخ ازھر جو مصر ہی نہیں‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک اسلام کا علم بردار اور ترجمان سمجھا جاتا ہے‘ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوتا ہے۔
جامعہ ازھر کی تاریخ بڑی طویل اور تابناک ہے۔ یہ جامعہ فاطمی دورِ حکومت میں 970ء بمطابق 349ھ میں قائم ہوئی تھی۔ ماضی بعید میں بڑے جرأت مند اور صاحبِ عزیمت علما نے جامعہ ازھر کی سربراہی اور اس جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ ان میں سے خاص طور پر شیخ عزالدین عبدالسلام کا اسم گرامی معروف ہے۔ وہ جامعہ کے ایسے شیخ الحدیث تھے جو شاہانِ وقت کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بادشاہ کبھی جامعہ میں آتا تو شیخ اس کے استقبال کے لیے دروازے پر انتظار کرنے کے بجائے اپنے کمرۂ تدریس میں دیوار سے ٹیک لگائے چٹائی پر پاؤں دراز کیے طلبہ کو پڑھانے میں مشغول رہتے۔ ان کا یہ قول بڑا مشہور ہے: ''جو بادشاہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا وہ اس کے سامنے پاؤں پھیلا سکتا ہے‘‘۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved