پاکستان میں بہت ساری چیزوں کی کمی رہی ہو گی لیکن عقلِ کُلوں کی کبھی نہیں۔ ہماری تاریخ کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی عقلِ کُل نمودار ہوا اور پھر عقل کے کرشمات ایسے دکھائے گئے کہ مدتوں قوم اُن کے نتائج بھگتتی رہی۔ ضیاء الحق مرحوم بھی عقلِ کُل تھے اور جس افغان پالیسی کے ثمرات ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اُنہی کے زرخیز دماغ کی اختراع تھی۔ افغانستان میں داخلی مسئلہ پیدا ہوا تو ہمیں کیا ضرورت تھی اُس میں ٹانگ اڑانے کی؟ لیکن ضیا صاحب کی لڑائی بھٹو سے چل رہی تھی‘ خزانہ بھی خالی تھا‘ مانگے تانگے پر گزارا چل رہا تھا۔ ایسے میں یہی بہتر سمجھا گیا کہ افغانستان کے مسائل میں اُلجھا جائے۔ عذر یہ تھا کہ افغان ہمارے مسلمان بھائی ہیں اوراُن کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے۔ پورا ملک اُن کے لیے کھول دیا گیا اور باقاعدہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ افغان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں۔
تب کی روسی قیادت بوڑھے لوگوں پر مشتمل تھی‘ قائدین میں بیشتر ستر پچھتر سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ سردار داؤد نے تختہ ظاہر شاہ کا الٹا تھا‘ نور محمد ترکئی کی قیادت میں افغان کے کمیونسٹوں نے سردار داؤد کو ٹھکانے لگایا‘ ترکئی کا نائب حفیظ اللہ امین تھا‘ اُس نے ترکئی کا حساب برابر کیا اور خود شورش زدہ افغانستان کا سربراہ بن گیا۔ پاکستان کے ذریعے امین نے امریکیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی‘ تب کی روسی قیادت کو جب اس امر کی خبر ہوئی تو اُنہوں نے سر جوڑے اور یہ تباہ کن فیصلہ کیا کہ افغانستان کے حالات سنبھالنے کیلئے فوجی مداخلت ناگزیر ہے۔ یوں ایک لاکھ کے قریب روسی فوجی افغانستان میں داخل ہوئے‘ امریکہ نے اس صورتحال کو غنیمت جانا اور روسیوں کے خلاف ایک عالمی محاذ کھڑا کرنا شروع کر دیا اور چونکہ اوروں کی ڈیوٹی پر پاکستان ہمیشہ تیار رہتا تھا‘ تب کے عقلِ کُل ضیاء الحق صاحب نے پاکستان کو افغانستان کی آگ میں جھونک دیا۔ ہمیں ڈالر اور ریال ملنا شروع ہوئے اور فوجی سازو سامان بھی ملنے لگا۔ تب کے عقلِ کلُوں نے یہی سمجھا کہ وہ بڑے عقل مند ہیں اور اُنہوں نے بہترین فیصلہ کیا ہے۔
ان واقعات کو پینتالیس‘ چھیالیس سال ہو گئے ہیں لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارے ایوانِ اقتدار میں آج بھی یہ احساس ہے کہ ہم نے اُس زمانے میں کتنی فاش غلطیاں کیں۔ یہاں اقتدار میں رہنے والے ہندوستان کو اپنا بڑا دشمن سمجھتے تھے لیکن ہمارے دماغوں میں یہ بات آج شاید آہستہ آہستہ رچ رہی ہو کہ اصل خطرہ تو ہمیں مغربی سرحد سے ہے جہاں اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے تمام خواب ہوا میں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں۔ نام نہاد افغان جہاد کے سلسلے میں جن کو مجاہدین کہا جاتا تھا‘ اُن کی ٹریننگ یہاں ہوتی تھی۔ ادھر اُدھر کیمپ بنے ہوئے تھے جہاں یہ نیک کام چلتا تھا۔ ہتھیار اُن کو ہمارے ذریعے جاتے تھے‘ وظیفے ہمارے بڑوں نے مختلف لیڈروں اور کمانڈروں کے لگائے ہوئے تھے۔ گولہ بارود وہاں چل رہا تھا اور لیڈروں کے خاندان پاکستان میں رہتے تھے‘ اُن کا علاج معالجہ یہاں ہوتا تھا۔ مہاجرین کے کیمپ یہاں بنے ہوئے تھے اور تقریباً تیس سے چالیس لاکھ افغانوں کی مہمانداری اس دھرتی پر ہو رہی تھی۔ یہاں بارہ بور گنیں اورتھری نٹ تھری رائفلیں استعمال ہوتی تھیں۔ کلاشنکوف کا کسی کو پتا نہ تھا لیکن نام نہاد افغان جہاد کی مہربانی ہے کہ پاکستانی معاشرہ کلاشنکوف اور ہیروئن‘ دونوں سے روشناس ہونے لگا۔ مجاہدین کے سگے ہم‘ طالبان کو کھڑا کرنے والے ہم‘ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ظاہراً تو ہم امریکیوں کے ساتھ لیکن طالبان سے بھی خفیہ روابط۔ اور ہمارے بڑے اسی پر ناز کرتے رہے کہ ہم سے زیادہ سمجھدار اورکوئی نہیں اور ہم سب کو اُلو بنا رہے ہیں۔ آج دیکھیں توساری ہنرمندی کا جنازہ نکل رہا ہے‘ طالبان حکومت نے ہماری سننی کیا تھی‘ تحریک طالبان پاکستان اُنہی کی مدد اور حمایت سے دندناتی پھر رہی ہے اور ہماری جانی دشمن بنی ہوئی ہے۔
ضیا صاحب کا دور تھا اور سال کے اختتام پر ایک دوست کے ہاں نئے سال کی پارٹی چل رہی تھی۔ بہت دیر ہو چکی تھی اور میرے ساتھ برطانوی سفارت خانے کا ایک افسر بیٹھا تھا جس کے بارے میں ہم سب جانتے تھے کہ برطانوی سراغ رساں ایجنسی ایم آئی 6 کا نمائندہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب نام نہاد افغان جہاد اپنے عروج پر تھا‘ امریکی افغان مجاہدین کو سٹنگر میزائل دے چکے تھے اور روسیوں کیلئے میدانِ جنگ میں بڑے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔باتوں باتوں میں اُس نے مجھ سے کہا: ایاز! آپ لوگ اپنے ساتھ یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ شخص نمائندہ تھا برطانیہ کا اور برطانیہ اور امریکہ اُس نام نہاد جہاد میں پوری طرح ملوث تھے لیکن رات گئے وہ مجھ سے کہہ رہاتھا کہ پاکستان اپنے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
اب رونے کا کیا فائدہ؟ پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے اور ہم نے جہاں اور نقصان اٹھائے ہیں‘ افغانستان کے حوالے سے بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ آج بھی جب اتنا کچھ ہو چکا ہے‘ ماضی کی حماقتوں کا صحیح ادراک اب بھی ہم سے نہیں ہو پا رہا۔ آج بھی آپ کو ریٹائرڈ اعلیٰ افسر ملیں گے جو کہیں گے کہ نہیں‘ نہیں! ہم افغانستان میں مداخلت نہ کرتے تو روسیوں کا اگلا ٹارگٹ پاکستان ہوتا۔ عقل پر پردے پڑے ہوں اُس کا کیا علاج ہے؟
1989ء میں جب روسی فوج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تو میں ماہنامہ ہیرلڈ کی وساطت سے کابل گیا۔ تقریباً ایک ہفتے کا قیام رہا اور مجھے تب کے افغان حکمران نجیب اللہ سے انٹرویو کا موقع بھی ملا۔ روسی انخلا کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے مغربی میڈیاکی ایک پوری فوج کابل آئی ہوئی تھی۔ امریکی صحافی تو تب کی افغان کمیونسٹ حکومت کو بُرا بھلا کہتے تھے لیکن میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں میں اگر عقل ہو تو وہ نجیب اللہ کو سپورٹ کریں۔ وہ اس لیے کہ میری ناقص رائے میں پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ تھا کہ افغانستان میں ایک سیکولر حکومت ہو‘ بجائے اس کے کہ مذہبی عناصر مسندِ اقتدار پر بیٹھیں۔ ان خطوط پر ہیرلڈ میں مَیں نے تین چار مضامین کا سلسلہ لکھا‘ لیکن کس نے ہماری سننی تھی۔ ہمارے جیسوں کو تو سرکاری حلقوں میں سرخے یا ماسکو نواز سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سرکاری سوچ زیادہ تر رجعت پسندانہ رہی ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ہماری سوچ پر امریکی سوچ کی چھاپ بہت گہری ہے۔ اُس زمانے کے اسلام آباد میں افغانستان کے بارے میں کوئی دوسری رائے دینا مشکل ہوتا تھا۔ خود سے تمام پہلوؤں کا جائزہ ہم لے نہ سکے اور آج گزرے زمانے کے بلنڈروں کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے۔
بہرحال کس کس چیز کو روئیں؟ یہ آئے روز کے حملے‘ جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے‘ یہ وہ عناصرکر رہے ہیں جن کو اتنا عرصہ ہم نے سر پہ بٹھائے رکھا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہماری قومی زندگی میں اتنے بلنڈرز کیوں ہوتے رہے ہیں؟ تاریخ نے ثابت کیا کہ 1965ء کی جنگ کے بارے میں ہمارے فیصلے غلط تھے۔ بنگالیوں کے بارے میں یہاں کی سوچ گھمنڈ اور بیوقوفی پر مبنی تھی۔ صحیح معنوں میں جمہوریت ہم سے کبھی چلی نہیں اور اب تو واضح ہو گیا ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن بھی ہمارے بس کی بات نہیں۔ قانون کی حکمرانی کا اصل مفہوم ہماری سمجھ سے بالاتر لگتا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کارگل میں محاذ کھولنے کا جواز کیا تھا؟ اُس ایک ایڈونچر نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا کہ پوری دنیا میں ہمارا امیج متاثر ہوا۔
کچھ تو ہمارے حالات سنبھل جائیں۔ سنبھالے کی تدبیریں کیا ہونی چاہئیں اُس کا تو معلوم نہیں‘ بس حالات کی بہتری کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved