آج (20 مارچ کو) جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو دنیا میں چڑیوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور کل (21 مارچ کو) جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو جنگلات کا عالمی دن منایا جا رہا ہو گا۔ سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ جس چڑیا کی میں بات کر رہا ہوں اس کا سیٹھی صاحب والی چڑیا سے کوئی تعلق نہیں۔ اس چڑیا کا اُس چڑیا سے بھی کوئی تعلق نہیں جس کا ملک عزیز میں آج کل گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور جسے ایکس یا ٹویٹر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہ چڑیا یا چڑا ہے جسے گوجرانوالہ میں بھون کر کھایا جاتا ہے‘ جو کبھی ہمارے ملک میں وافر تعداد میں ہوتے تھے اور جو اَب کہیں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ میں یہاں چڑیوں کو استعارے کے طور پر استعمال کرکے دراصل پرندوں کی بات کروں گا۔ وہ پرندے جو انسان کے قریبی ساتھی ہیں۔ وہ پرندے جن کی چہچہاہٹوں سے انسان کی زندگی میں رنگ ہے‘ آہنگ ہے‘ رونق ہے۔ وہ پرندے جو انسانی زندگی کا ایک خوش نما نغمہ ہیں۔ وہ پرندے جو دنیا میں انسان کے قریبی ہمسائے اور ہمدمِ دیرینہ ہیں۔ افسوس کہ جوں جوں انسانی آبادی بڑھ رہی ہے‘ جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے اور جس رفتار سے جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے اس سے زیادہ رفتار سے پرندے کم بلکہ ناپید ہو رہے ہیں۔ ہمارے دوست ہم سے ناراض ہوتے جا رہے ہیں‘ روٹھتے جا رہے ہیں۔ میری پیدائش لاہور شہر کی ہے۔ یہیں پلا بڑھا اور جوان ہوا ہوں‘ یہیں تعلیم حاصل کی اور اب یہیں جاب کر رہا ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانی زندگی میں پرندے نہ ہوں تو یہ بے رنگ اور بے صورت ہو جائے۔ یہاں لاہور میں بھی پرندے ہمارے بسیروں‘ ہماری رہائشوں کا حصہ ہیں‘ لیکن پرندوں کا جو حسن‘ جو جولانی اور جو رعنائی میں نے دیہات‘ خصوصاً جنگلات میں دیکھی‘ اس کا رنگ اور آہنگ ہی کچھ اور ہے۔
میں ایک دفعہ اپنے ایک دوست کے پاس گوجرانوالہ گیا۔ اس نے کبوتر پالے ہوئے تھے۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ چوبارے پر لے گیا‘ جہاں اس نے کبوتر رکھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ کبوتروں کے کئی جوڑوں نے پنجرے کے اندر بنی کئی جگہوں پر انڈے دے رکھے ہیں اور کبوتر یا کبوتری ان پر بیٹھ کر انڈے سی رہے تھے۔ کچھ کے بچے نکل آئے تھے اور وہ انہیں چوگا دے رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر دل نہایت خوش ہوا کہ زندگی کتنی پھل پھول رہی تھی اور زندگی اپنے ہونے پہ کتنی نازاں نظر آتی تھی۔ سوچا‘ والدین والدین ہی ہوتے ہیں‘ انسان کے ہوں یا کسی جانور کے۔ یقینا ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ روحی کنجاہی نے یہ اشعار شاید پرندوں کے بارے میں ہی لکھے ہیں اور اس دکھ کے بارے میں جو پرندے وسعت اختیار کرتی انسانی آبادیوں اور سمٹتے جنگلوں کے تناظر میں اٹھا رہے ہیں:
کس قدر بے ساختہ پن چاہتی ہے زندگی
شاخ سے اُڑتا پرندہ دیکھنا اور سوچنا
اک طرف آتش بپا آبادیوں کے سلسلے
اک طرف رفتارِ صحرا دیکھنا اور سوچنا
کبھی ہماری یہ زمین جنگلات کا گڑھ تھی‘ ہم انسانوں نے اسے چٹیل میدان بنا دیا ہے اور ہماری توسیع پسندی پھر بھی ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہی ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ہر سال اوسطاً 13 ملین ہیکٹر (32 ملین ایکڑ) سے بھی زیادہ رقبے پر جنگلات مختلف وجوہات کی بنیاد پر ختم ہو رہے ہیں‘ یعنی اگر ہم پیمانہ استعمال کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر سال اتنے جنگلات ختم ہو رہے ہیں جتنا برطانیہ کا رقبہ ہے۔ گلوبل فاریسٹ واچ کے ڈیٹا کے مطابق 2017ء میں دنیا سے 29.4 ملین ہیکٹر (72.6 ملین ایکڑ) رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات ناپید ہو گئے تھے۔ یہ رقبہ اپنی جغرافیائی وسعت میں جرمنی کے کُل رقبے کا دو گنا بنتا ہے۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سے ایک سال قبل یعنی 2016ء میں زمین سے 29.7 ملین ہیکٹر (73.4 ملین ایکڑ) جنگلاتی رقبہ ختم ہو گیا تھا۔
جنگلات اسی رفتار سے ختم ہوتے رہے تو اگلی چند دہائیوں میں روئے ارض پر شاید حضرتِ انسان تو ہو‘ اس کے غمگسار پرندے باقی نہیں رہیں گے۔ جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا ہے کیونکہ انسان اپنی سانس کے ذریعے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے‘ وہ پودے اپنے اندر جذب کرکے ضیائی تالیف (فوٹو سنتھیسز) میں استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے پودے اپنے لیے خوراک پیدا کرتے ہیں اور انسانوں اور دوسرے جانوروں کے لیے بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جنگلات اور پودے انسانوں کے لیے آکسیجن ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ خوراک کا بھی بندوبست کرتے ہیں جو کھا کر ہم زندہ رہتے ہیں۔ تو کیا خیال ہے جنگلات کا صفایا کر کے ہم خود اپنے پھیپھڑے خراب نہیں کر رہے ہیں؟ پھیپھڑے خراب ہو جائیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ اندازہ لگانے کے لیے ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اتفاق سے تپ دق کا عالمی دن (World Tuberculosis Day) بھی اسی مہینے آ رہا ہے‘ 24 مارچ کو‘ اس دن ذرا مطالعہ کیجیے گا کہ ٹی بی ہو جائے تو کیا ہوتا ہے۔ جو چیزیں ٹی بی لاحق ہونے کا باعث بنتی ہیں ان میں گندی ہوا اور آلودہ فضا بھی شامل ہیں۔ جنگلات کی بربادی کرکے دراصل ہم اپنی زمین کو ٹی بی لاحق کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں‘ بالقصد‘ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ہم اپنی موت کا خود سامان کر رہے ہیں۔
اگر کسی کو میری بات کی سمجھ نہیں آ رہی تو وہ ڈکشنری سے Ecocide کے معنی دیکھ لے اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو 2008ء میں بننے والی امریکی اینی میٹڈ فلم Wall-E دیکھ لے‘ سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ اگر ہم انسانوں نے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھا تو پھر یہ دنیا پرندوں کیا‘ انسانوں کے رہنے کے قابل بھی نہیں رہے گی۔
جس طرح جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا ہے اسی طرح یہاں پائے جانے والے پرندوں کو زمین کی صحت کا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ اب ہمارے پرندے کتنے محفوظ ہیں‘ اس کا اندازہ محکمہ وائلڈ لائف کے ایک انسپکٹر کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگلات میں 10 فیصد جبکہ شہروں میں 50 تا 60 فیصد پرندوں کی بقا خطرے میں ہے۔ برطانیہ کے سنٹر فار ایکالوجی اینڈ ہائیڈرولوجی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق انسانوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر جنگلات کاٹے جانے کے شدید اثرات سامنے آئے ہیں۔ یہ اثرات مختلف نوعیت کے ہیں۔ پرندے ان اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ یہ اثرات اس قدر شدید اور سخت ہیں کہ پرندوں کی متعدد انواع روئے ارض سے معدوم ہو چکی ہیں یعنی ان کا آخری جوڑا تک باقی نہیں بچا کہ اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث پرندوں کی 1400 سے زیادہ اقسام معدوم ہو چکی ہیں اور متعدد معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔ جنگلات کاٹنے کے دوسرے اثرات میں موسمی تبدیلیاں‘ انسانی زندگی اور صحت پر اثرات اور خود زمین کی بقا کو لاحق ہونے والے خطرات شامل ہیں۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ رکے گا بھی یا نہیں‘ اس بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بس دعا کی جا سکتی ہے کہ پروردگار عالم اپنے رحم و کرم سے اس تباہی سے بچا لے جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے۔ ویسے تو آج خوشی کا دن بھی ہے‘ یعنی خوشی منانے اور خود کو خوش رکھنے کا دن‘ لیکن آس پاس اتنا کچھ برباد ہو رہا ہو تو خوشی کیسی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved