پانی زندگی کی بقا ہے۔ زندگی کا جنم وہیں ہوتا ہے جہاں پانی موجود ہو۔ پانی ہر قسم کی حیاتیات کے لیے ناگزیر ہے مگر انسان پانی کی قدر نہیں کرتے۔ صاف پانی کو گندا کر تے ہیں۔ پانی کو ضائع کرنا بھی ایک عام سی بات ہے۔ اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو بہت جلد صاف پانی کے ذخیرے کم پڑ جائیں گے اور سمندر کا پانی پہلے ہی قابلِ استعمال نہیں ہے۔ پہلے تیل کے لیے جنگیں ہوتی تھیں مگر اب ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کے لیے جنگیں ہوا کریں گی۔ پاکستانی عوام کی پانی کے مسئلے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں ہے اور سیاسی قیادت اور اشرافیہ کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارا ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کی زد پہ ہے‘ ملک کی اعلیٰ قیادت میں اعتماد کا فقدان رہتا ہے۔ آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر پایا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں طویل مدتی منصوبے نہ تو مکمل ہو پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے حوالے سے مؤثر آواز اٹھائی جاتی ہے۔ کمزور سیاسی حکومتیں صرف اپنے وقتی مفادات کو دیکھتی ہیں اور نتیجتاً ملک مزید پیچھے چلا جاتا ہے۔
اب پانی کے مسئلے ہی کو دیکھ لیں۔ اس پر خوب سیاست ہوتی رہی مگر جب بات بھارت کے ساتھ پانی کے مسئلے کو اٹھانے کی آتی ہے تو سب چپ سادھ لیتے ہیں‘ کوئی کچھ بولتا ہی نہیں۔ نریندر مودی نے چند سال قبل علی الاعلان کہا تھا کہ بھارت پاکستان کو بوند بوند کے لیے ترسا دے گا اور اب ایسا ہی کیا جا رہا ہے‘ مگر سب خاموش بیٹھے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور تنائو عروج پر ہے‘ عوام کے مینڈیٹ کی توہین جاری و ساری ہے‘ بڑی تعداد میں سیاسی افراد جیلوں میں بند ہیں‘ لکھنے اور بولنے کی آزادی سکڑ گئی ہے‘ ان حالات میں کیسے کوئی ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچے گا؟ عوام تو دو وقت کی روٹی کے چکر میں پِس رہے ہیں۔ بجلی و گیس کے بل ان کی کمر توڑ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر پٹرول کی قیمتیں پورا کر دیتی ہیں۔ اس لیے پانی کے ایشو سے عوام بھی لاتعلق سے ہیں۔ ان کی دوڑ صرف سستے آٹے اور یوٹیلیٹی بلوں کے پورا ہونے تک ہے مگر سیاسی قیادت اور مقتدر طبقہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کیے ہوئے ہے۔
بھارت بھی ایک جمہوریہ ملک ہے جو پاکستان کے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا مگر وہاں جمہوریت کبھی ڈی ریل نہیں ہوئی۔ تمام شعبے وزیراعظم کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے اور عوام کو بجلی دینے کے لیے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر میں مشغول ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک آبی معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت راوی‘ ستلج اور بیاس بھارت کی جھولی میں ڈال دیے گئے تھے۔ بھارت نہ صرف ان پر بلکہ پاکستان کو ملنے والے دیگر دریائوں پر بھی ڈیم بناتا رہا۔ دریائے جہلم پر کشن کنگا ڈیم‘ دریائے چناب پر رتلے ڈیم اور اب راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج نے پاکستان آنے والے پانی کے بہائو کو زبردست متاثر کیا ہے۔ پاکستان سفارتی میدان میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر پارہا جبکہ بھارت عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے اپنی من مانی کر رہا ہے۔ اب بھارت نے راوی کا رخ اپنے علاقوں کی طرف موڑ کر پاکستان کے لیے اس پانی کو مکمل طور پر بندکر دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح رہا تو جلد پورا راوی سوکھ جائے گا۔ اس کا اثر لاہور اور پنجاب پر کیا پڑے گا‘ یہ سوچنا بھی محال ہے۔ لاہور کے لیے راوی لازم و ملزوم ہے۔لاہور پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور وہاں سموگ اور فضائی آلودگی کی وجہ سے بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ شہر سے درختوں کا صفایا ہورہا ہے‘ پورا شہر کنکریٹ کے ایک جنگل کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب اگر راوی بھی سوکھ گیا تو کیا ہو گا؟ ہم جز وقتی چیزوں پر تو توجہ دیتے ہیں مگر طویل مدتی مفادات کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے دریائوں پر بڑے اور چھوٹے آبی ذخائر نہ بنائے تو آگے چل کر ہم واقعتاً ایک ایک بوند پانی کو ترس جائیں گے۔ عوام کو بھی واٹر مینجمنٹ کا شعور دینے کی ضرورت ہے ـ‘کہ پانی کا ضیاع نہ کریں۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے پر توجہ دیں کہ اس پانی کو لان کو پانی دینے یا گاڑی کی دھلائی کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ نہروں‘ نالوں اور دریائوں میں صنعتی مواد اور انسانی فضلہ پھینکے سے گریز کیا جائے۔ ان کی حفاظت کو بہرطور یقینی بنایا جائے۔
پاکستان میں جب بھی بڑے ڈیم اور آبی منصوبوں پر کام کرنے کی بات کی جائے تو خالی خزانے کا رونا رویا جاتا ہے۔ اگر بڑے منصوبے نہیں بن سکتے تو پھر چھوٹے منصوبوں پر فوری کام کیا جائے۔ دوسرا‘ یہ معاملہ اور بھارت کی مسلسل جاری آبی جارحیت کو متعلقہ عالمی فورمز پر اٹھایا جائے۔ اگر سب ایسا ہی چلتا رہا تو کوئی شک نہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان اور بھارت میں آبی کشیدگی کا اندیشہ ہے۔ پاکستان پچیس کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ہے اور پانی ہی انسانوں کی بقا کا ضامن ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ملک دوسرے کے پانی پر قبضہ کر لے یا دریائوں کا رخ موڑ لے۔ بھارت جب چاہتا ہے دریائوں کا پانی روک لیتا ہے اور بارشوں اور طغیانی کی صورت میں سارا پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے جس سے پاکستان کی آبی گزر گاہوں اور دریائوں‘ نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور نشیبی علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ اجارہ داری اس کو کیسے اور کیونکر حاصل ہوئی؟ مسئلہ کشمیر بھی اب تک حل طلب ہے اور بھارت نے وہاں بھی بہت سے ڈیمز اور بیراج مکمل کر لیے ہیں۔ اس وقت وہ آبی میدان میں واضح سبقت لے چکا ہے اور نہ صرف راوی بلکہ چناب کو بھی مکمل بند کر دیتا ہے جس سے یہ دونوں دریا سکڑ رہے ہیں اور سب سے زیادہ اس سے پاکستانی کسان نقصان اٹھا رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت روزانہ چناب میں 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے۔ دریائے نیلم پر وہ کشن گنگا ڈیم‘ دریائے جہلم پر رتلے ڈیم اور دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا چکا ہے۔ اب شاہ پور کنڈی بیراج سے راوی کا پانی بند کر دیا گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ بھارت کے سیاستدان برملا یہ اعلان کر چکے کہ وہ پاکستان جانے والے تمام دریائوں کا پانی ڈیمز بنا کر روک لیں گے۔ اس حوالے سے دو نئے ڈیم منصوبے بھی پائپ لائن میں ہیں۔ اس معاملے کو فوری طور پر ورلڈ بینک‘ عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانا چاہیے اور ان عالمی فورمز کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ راوی کے پانی پر پاکستان کا بھی حق ہے؛ تاہم شاہ پور کنڈی بیراج اور اوجھ ڈیم سے پاکستان کا حق مارا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنا حق واپس لینا ہو گا کیونکہ یہ دریا ہمارے ملک کے اہم شہروں سے گزرتے ہیں اور ہمارے کسان ان پر اکتفا کرتے ہیں۔
بھارت متعدد مرتبہ سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کر چکا ہے جبکہ وہ پاکستان کے حصے کے پانی کو مسلسل غصب کرتا ہے‘ مگر پاکستان کی سیاسی قیادت کی اس اہم ترین ایشو پر کوئی توجہ نہیں۔ بھارت ہمارے کھیت‘ کھلیان اور دریائوں کو بنجر بنا رہا ہے اور ہم سیاسی جھگڑوں میں مگن ہیں۔ جب تک پاکستانی اشرافیہ کی انا کو تسکین ملے گی اور وہ اپنی ذاتی لڑائیوں سے فرصت پائیں گے تب تک بھارت سارے دریائوں پر قبضہ کر کے پاکستان کے حصے کا پانی مکمل بند کر چکا ہو گا۔ خودنمائی کے شکار ہمارے موروثی لیڈر سستے آٹے کے تھیلوں کے ساتھ فوٹو سیشن میں مصروف ہیں اور کسان پانی‘ کھاد اور بیج کے لیے ترس رہے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ برس عالمی عدالت انصاف میں سندھ طاس معاہدے کا معاملہ اٹھایا تھا لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس ایشو کو زیادہ مؤثر انداز سے اٹھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک و قوم کی بقا کا سوال ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved